تائب نہ ہوں تو سرقلم کردیا جائے

0

عارف محمد خان
(مترجم: محمد صغیر حسین)

سرزمین  ہندوستان میں سرسیداحمد خاں مسلم معاشرے کی اصلاح کی پہلی آواز و فریاد تھے۔ وہ منظر شہود پر اُس وقت اُبھر کر آئے جب ہندوستانی مسلم معاشرہ ظلمت و تیرگی اور جمود و تعطل کا شکار تھا اور اُس میں قرون وسطیٰ کی فرسودگی سے نجات پانے کی خواہش کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ اہل جبّہ و دستار کے سرتاپا اثرات کے نتیجے میں جدید تعلیم کو مذہب مخالف اور دین سے متناقض تصور کیا جانے لگا تھا۔
1857کی ناکام شورش و بغاوت اور علماء کے اعلان جہاد نے مسلمانوں کو انگریزوں کے غیض و غصب اور انتقامی جذبات کا ہدف بنادیا۔ اس بحران کے دوران سرسید نے ایک جوڈیشیلی افسر کی حیثیت سے حکومت کی خدمت کی لیکن بغاوت اور افراتفری کے نتائج نے انہیں شدید طور پر متاثر کیا۔ انہوں نے لکھا:
’’میں نے مسلم فرقہ کے زوال و انحطاط پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچا کہ جدید تعلیم ہی اُن کی حالت زار اور ناسازگاریٔ حالات کا واحد علاج ہے۔ اُن کا قوی تر فرقہ وارانہ تصور یہ ہے کہ یوروپی سائنس و ادب کا مطالعہ دین مخالف ہے اور بدعقیدگی کو فروغ دیتا ہے۔ میں نے اُن کے اس تصور کو ختم کرنے کی ایک حکمت عملی وضع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
سرسید کی ولادت انیسویں صدی کے اوائل(17؍اکتوبر1817) میں ہوئی تھی۔ اُن کے اغراض و مقاصد تعلیمی اور سماجی اصلاحات سے متعلق تھے۔ وہ دین میں دخل اندازی نہیں چاہتے تھے۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ اُن کے ہر اقدام کی مخالفت دین و مذہب کے نام پر کی گئی۔
اپنی کشمکش کو بیان کرتے وقت سرسید نے کہا: ’’ہم مذہب پر کسی قسم کی بحث و تمحیص میں نہیں پڑنا چاہتے تھے لیکن مشکل یہ تھی کہ ہمارا طرزعمل، سماجی رسم و رواج اور دینی عقائد آپس میں اس قدر خلط ملط ہیں کہ کسی نہ کسی مذہبی تنازع کو درمیان میں لائے بغیر سماجی اصلاح کی کوئی گفتگو ممکن ہی نہ تھی۔ ‘‘ علما سے عاجز ہوکر انہوں نے کہا: ’’جب اُن سے کسی نقصان دہ چیز کو ترک کرنے کو کہا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اسے دینی فضیلت حاصل ہے، اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ وہ کچھ مثبت کام کریں تو وہ اصرار کرتے ہیں کہ یہ مذہبی رو سے ممنوع ہے۔ چنانچہ ہمارے پاس اب اس کے علاوہ کوئی چارئہ کار نہیں ہے کہ اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے مذہبی سیاق و سباق پر مباحثہ کیا جائے۔‘‘
اس مقصد کے پیش نگاہ،انہوں نے جولائی 1884میں ایک رسالہ ’محمڈن سوشل ریفارمر‘ جاری کیا۔اُن کے ہی الفاظ میں، اس نے: ’’اس مذہبی کٹرپن سے مقابلہ آرائی میں انتہائی اہم رول ادا کیا جس نے ملت کو جہالت کے غار میں دھکیل دیا تھا۔‘‘ رسالے نے جدید تعلیم اور سماجی نیز مذہبی اصلاحات پر توجہ مرکوز کی۔
علی گڑھ میں اسکول کی شروعات 1857میں ہوئی تھی۔ اس کی کامیابی کا انحصار، مکمل طور پر عوامی چندوں پر تھا۔ سرسید نے ذاتی طور پر گراں قدر مالی تعاون دیا اور اسکول کے لیے فنڈجمع کرنے کی مہم پر نکل پڑے۔ انہوں نے پیسے جمع کرنے کے لیے قرعہ اندازی کی، ڈرامے منعقد کرائے اور اس سلسلے میں کہیں بھی جانے سے گریز نہیں کیا۔ یہاں تک کہ وہ اسکول کی خاطر چندہ مانگنے کے لیے ’’بازارِ ملامت‘‘ بھی پہنچ گئے۔ انہوں نے معاونین کے تئیں اظہارتشکر کیا اور اُن ہندوؤں کا خاص طور پر ذکر کیا جنہوں نے پوری ملت اسلامیہ کی دامے درمے قدمے سخنے مدد کی۔c
سرسید نے 1898میں آخری سانس لی اور اس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ اُن کی رحلت کے22سالوں بعد اُن کا کالج، یونیورسٹی بنا۔ یہ یونیورسٹی علی گڑھ تحریک کی کامیابی کا ایک زندہ اور بین ثبوت تھی۔ تاہم یہ فسانہ اُس وقت تک تشنۂ تکمیل رہے گا جب تک کہ ارباب منبر و محراب اور صاحبان جبّہ و دستار کی مخالفتوں اور اُن کے معاندانہ رویوں کا ذکر خیر نہ کردیا جائے جس کی حدت سرسید لمحۂ آخر تک جھیلتے رہے اور جس کی تپش آج بھی ملت کے کسی نہ کسی گوشے میں برقرار ہے۔
علما کی مخالفت کی شدت کا اندازہ مولانا ابوالحسن علی ندوی کی تحریر سے کیا جاسکتا ہے۔ سرسید کی وفات کے 60سال سے زیادہ عرصے کے بعد وہ اپنی کتاب ’’اسلامیت اور مغربیت کی کشمکش‘‘ میں رقمطراز ہیں:
’’سرسید کا تعلیمی مشن اور مغربی تہذیب کی وکالت لازم و ملزوم ہوگئے تھے اور ان چیزوں نے لوگوں کے ذہنوں میں خوف و خدشہ اور شک و شبہ پیدا کردیا تھا۔ دینی حلقوں میں مخالفت کی ایک لہر پیدا ہوگئی تھی اور اس کے جلو میں اُن کی تحریک کے بائیکاٹ کا اعلان بھی آیا۔‘‘
سرسید کو انگریزوں کے ساتھ کھانا کھانے پر نشانہ بنایا گیا۔انہوں نے ایک دستخط شدہ مضمون میں اپنے فعل کی وضاحت کی۔ لندن میں قیام کے دوران اُن کی مخالفت شدید تر ہوگئی۔ سرسید نے ایک تحریر کے ذریعہ جواب دیا:
’’کانپور کی دہشت ناک صدا، لکھنؤ کی طنزیہ نظم، آگرہ اورالٰہ آباد کی لاطائل بکواس، رام پور اور بریلی کے فتوے اور دہلی کے بزرگوں کی بدخوابیوں نے مجھے ملول و رنجیدہ نہیں کیا۔ میرا دل، اپنے لوگوں کی فلاح و بہبود کے خیال سے لبریز ہے۔ اس میں کسی غیض و غضب اور کسی بغض و کینہ کی جگہ نہیں ہے۔‘‘
سرسید کو علماء کے معاندانہ رویوں کا احساس تھا،اسی لیے کالج میں جب دینیات کی تعلیم کی بات آئی تو انہوں نے اُس میں مداخلت سے کنارہ کشی اختیار کی، اور اس دور کے ممتاز علما کو دینی تعلیم کا نصاب تیار کرنے کی دعوت دی۔ مولانا قاسم نانوتوی اور مولانا یعقوب دیوبندی نے اس پیشکش کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ وہ ایسے کسی تعلیمی ادارے سے وابستہ نہیں ہوسکتے جس میں شیعہ طلبا زیر تعلیم ہوں۔ مولانا حالی نے سرسید کی سوانح حیات میں تحریر کیا ہے:
’’سرسید کو بے اعتقادی اور ارتداد کا موردالزام سمجھتے ہوئے اُن کے خلاف جو فتوے جاری کیے گئے، اُن پر ساٹھ مولویوں اور عالموں کے دستخط تھے۔ ہندوستانی علما اس مسئلے پر مکمل طور پر متفق الرائے تھے صرف مرضیٔ الٰہی مفقود تھی۔ مولوی علی بخش نے تو رہی سہی کسر پوری کردی۔ انہوں نے زیارت کے نام پر مکہ اور مدینہ کا سفر اختیار کیا اور وہاں سے ایک فتویٰ لے کر لوٹے جس میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر سرسید اپنے افعال پر تائب و پشیمان نہ ہوں اور کالج قائم کرنے پر مصر ہوں تو اُن کا سر قلم کردینا چاہیے۔‘‘
سرسید والا گہر ایک ایسے صاحب نظر تھے جنہوں نے تمام مخالفتوں کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے خواب کی تعبیر ڈھونڈھی۔ انہوں نے کیا خوب کہا: ’’میں وہ جانتا ہوں جو وہ نہیں جانتے اور میں وہ سمجھتا ہوں جسے وہ نہیں سمجھتے۔‘‘ تاریخ نے ثابت کردیا کہ وہ راہِ راست پر تھے اور صاحبان منبر ومحراب ہمیشہ کی طرح بالکل غلط تھے۔
(صاحب مضمون سردست ریاست کیرالہ کے عزت مآب گورنر ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS