محنت اور نتائج کے عزم سے نئی روایت کا قیام

0

مختار عباس نقوی

وزیراعظم ، مسٹر نریندر مودی نے اقتدار کے گلیارے سے ’’طواف کی روایت‘‘کو ختم کرکے ’’ محنت اور نتائج‘‘کی توثیق کی۔
اقتدار اور سیاست کے گلیارے میں، دہائیوں سے چکّر لگانے کو ہی ’’شان‘‘سمجھنے والے ’’محنت اور نتائج‘‘کی کام کرنے کی تہذیب کی بنا پر حاشیہ پر چلے گئے ہیں ۔ اسی ’’بہتر نتیجے کے حصول کے منتر‘‘نے اقتدار کے گلیا رے سے اقتدار کے دلالوں کو ’’چھو منتر ‘‘کیا ۔ 
2014 سے قبل ، ائیر پورٹ پر وزیر اعظم کو چھوڑنے جانا اور لینے جانا، کابینہ کے ممبروں کا ’’دکھاوا‘‘ مانا جا تا تھا ۔ دہائیوں سے جاری یہ سامنتی نظام ختم ہوا:  سرخ بتّی، سرکاری رعب دکھانے کا غیر ضروری حصہ بن چکی تھی، جاگیر دارانہ نظام والی سرخ بتّی تاریخ کا حصہ بن گئی۔ اراکین پارلیمنٹ کو دی جانے والی سبسڈی ان کو ’’پیدائشی حق‘‘لگتا تھا ، جس کا خاتمہ ایک جھٹکے میں ہوا۔ وزیر، رکن پارلیمنٹ نہ ہونے کے باوجود، کچھ لوگوں کو سرکاری بنگلوں پر قبضہ برقرار رکھنا اُن کا اپنا ’’آئینی حق‘‘لگتا تھا ، اسے ختم کردیا ۔ وزارتوں کی جانب سے مارچ سے پہلے بجٹ کو اُول جلول طریقے سے اربوں روپے خرچ کرنے کے نظام کو ختم کرنا حکومت کی اوّلین ترجیح تھی، جس کی وجہ سے مناسب طریقے سے خرچ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی جا تی تھی، یہ ضمنی، دقیانوسی نظام ختم ہوا۔ وزیراعظم، وزرا، عہدیداروں کے ایک دن کے بیرونی دورے کے کام کے لیے دس دن سیر سپاٹے اور لاکھوں خرچ کرنے کے نظام کو، خود وزیراعظم کے اپنے دوروں پر ، صرف کام کی سفری حد کو متعین کر کے  پوری حکومت کی سوچ میں بڑ ے پیمانے پرتبدیلیاں ہوئیں ۔
حکومتیں بدلتی تھیں، وزیر بدلتے تھے مگر برسوں سے وزرا کے نجی عملے وہی رہتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ اقتدار کے گلیاروں میں گھومنے والے دلال اور بچولیے اُس نجی عملے کے ذریعہ سرکار پر اپنی پکڑ جاری رکھتے تھے۔ دس برسوں سے جمے نجی عملے کو منترالیہ میں رکھنے پر رو ک لگا کر وزیراعظم جناب نر یند ر مودی نے پیشہ وَر بچولیوں کے پر کتر دیے ۔
اس سے قبل، وزیراعظم، سکریٹری اور اس کے نیچے کے عہدیداروں سے بھی بات چیت نہیں کر تے تھے یا رابطہ نہیں رکھتے تھے، زمینی رپورٹ کی ذاتی طور پر معلومات نہیں رکھتے تھے، جسے وزیراعظم جناب نریندر مودی نے تبدیل کرکے وزیروں کے ساتھ ساتھ سینئر عہدیداروں کے ساتھ بھی ’’بات چیت اور فیڈ بیک کے کلچر‘‘کو متعارف کروایا ۔ جس کی بناء پر بیوروکریسی کی جواب دہی اور ذمہ داری میں اضافہ ہوا ہے، پدم ایوارڈ جیسے ممتاز اور باعزت ایوارڈ، جو پہلے صرف سیاسی سفارشات کے ذریعے دیے جاتے تھے ، آج ان لوگوں کو یہ پر وقار ایوارڈ دیا جارہا ہے جو واقعتا اُس کے مستحق ہیں۔
یہ تمام باتیں ہو سکتا ہے معمو لی ہوں ، لیکن ’’طاقت کے طواف‘‘کے بجائے ’’محنت اور نتائج‘‘ کے لیے کام کے کلچر کو پیدا کرنے کی سمت میں سنگ میل ثابت ہوئی ہیں۔
کورونا کے پیچیدہ دور میں وزیراعظم جناب نریندر مودی کی حساسیت ، سرگرمی اور ملک کو اس بحران سے نجات دلانے میں مرکزی کردار نے ملک کے عوام کا اعتماد بڑھایا۔ ایک طرف کوروناکا قہر، دوسری طرف سرحدوں کی حفاظت، تیسری طرف زلزلے، طوفان، سیلاب جیسی قدرتی آفات کے چیلنج ، اسی درمیان ٹڈیوں کے ذریعہ فصلوں کی بربادی اور ’’پھسڈّیوں‘‘ کی بکواس بہادری بھی چلتی رہی۔
بھارت جیسے عظیم اور وسیع ملک کے لیے یہ بڑے بحران کا دور رہا ، لیکن ملک کے لوگ اِس پریشانی سے کم سے کم متاثر ہوں ، اِس کا بھرپور انتظام اور کوشش مودی جی کی ’’ محنت، کار کردگی اور مثبت نتائج‘‘ کے حصول کے لیے لگن سے کام کرنے کا سلیقہ ایک زندہ ثبوت ہے۔
اس بحران کے دوران بھی لوگوں کے مثبت عزم اور مودی حکومت کے تئیں پختہ اعتقاد کا نتیجہ رہا کہ وقت کی سب سے بڑی ضرورت، صحت کے شعبے میں بھارت خود کفالت کے زینے پر تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ N-95 ماسک ، پی پی ای کِٹ ، وینٹی لیٹر اور صحت سے متعلق دیگر اشیا کی پروڈکشن میں بھارت خود کفیل بھی بنا اور دوسرے ممالک کی بھی مدد کی۔
آج کو رو نا کے مرض کے خاتمے کے لیے صرف کو رو نا اسپتالوں کی تعداد 1054 ہوگئی ہے۔ کورونا وبا کے آغاز کے وقت ، ہمارے ملک میں صرف ایک ہی ٹیسٹنگ لیب موجود تھی، آج کُل 1400 لیبا ریٹریز کا نیٹ ورک موجود ہے۔ جب کورونا کے چیلنجز آئے تو ملک میں ایک دن میں صرف 300 ٹیسٹ ہو پاتے تھے، آج ہر روز 11 لاکھ سے زیادہ ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ جو دنیا کے کسی بھی ملک کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
ہرہندوستانی کو ہیلتھ آئی ڈی دینے کے لیے ’’نیشنل ڈیجیٹل ہیلتھ مشن‘‘  شروع کیا گیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے ہیلتھ پلان ’’مودی کیئر‘‘نے لوگوں کی صحت کی ضمانت دی ۔ ہیلتھ کئیر شعبے میں مودی سرکار کی کوششوں کا نتیجہ ہے کہ اتنی بڑی آبادی والے ملک میں کورونا بحران کے بڑے اثر کو کم کیا جا سکا۔
کورونا کے چیلنجوں کے دوران، لوگوں کی صحت اور تندرستی کے لیے81کروڑ سے زیادہ لوگوں کو مفت راشن فراہم کیا جارہا ہے، جو کسی بھی جمہوری ملک کا انوکھا واقعہ ہوگا۔ 41کروڑ ضرورت مندوں کے بینک کھاتوں میں 90 ہزارکروڑ سے زائد رقم براہ راست منتقل کردی گئی۔ 8کروڑ کنبوں کو مفت گیس سلنڈر، ایک لاکھ 70 ہزار کروڑ کا غریب فلاحی پیکیج ، 20 کروڑ خواتین کے جن دھن اکاؤنٹ میں 1500 روپے ، کسان سمّان ندھی کے تحت کسانوں کو 19 ہزار کروڑ دیے جانے جیسے مؤثر اقدامات کیے گئے، جس کی وجہ سے لوگ اس بحران کے دوران ، یقین کی ڈور سے جڑے رہے۔
’’وَن نیشن وَن راشن کارڈ‘‘ نافذ کیا گیا ہے ، جس سے67کروڑ ضرورت مندوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہوگیا ہے۔ منریگا کے لیے مزید 40 ہزار کروڑ روپے جاری کیے گئے ہیں، کاشتکاروں کو ملک میں کہیں بھی اپنی پیداوار فروخت کرنے کی آزادی دی گئی ہے ، 60 لاکھ سے زیادہ تارکین وطن مسافروں کو لیبر اسپیشل ٹرین کے ذریعہ ان کی آبائی ریاستوں تک پہنچایا گیا ۔ اسٹیٹ ڈیزاسٹر ریلیف فنڈ سے مسافر مزدوروں کی مدد کے لیے ریاستوں کو 11 ہزار کروڑ روپے دیے گئے۔ 
بھارت کی تعلیم کے شعبے میں انقلابی تبدیلی برپا کرنے والی ایک ’’نئی تعلیمی پالیسی‘‘ لائی گئی ہے جو بھارت کو دنیا کا ’’تعلیمی مرکز‘‘ بنانے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ ’’جن دھن یوجنا‘‘ کے تحت 40 کروڑ سے زیادہ افراد کو معاشی مرکزی دھارے میں شامل کیا گیا ۔
اسی کورونا دور میں، تین درجن سے زائد بڑے معاشی ، معاشرتی ، تعلیمی ، انتظامی ، تجارتی ، مزدور ، دفاع ، کوئلہ ، شہری ہوا بازی ، توانائی ، تقسیم، خلا، جنگلات کی زمین، زراعت، مواصلات، بینک کاری، سرمایہ کاری اور ڈیری سے لے کر پھیری والوں تک کی بہتری کے لیے بڑی اور اہم اصلاحات کی گئیں ، جس کی وجہ سے ملک کی معیشت تباہی کے باوجود مواقع سے بھرپور رہی۔
قومی بھرتی ایجنسی (این آر اے) کے قیام کا مرکزی کابینہ کا فیصلہ لاکھوں نوجوانوں کو روزگار کے لیے چکر لگانے اور پریشانی سے نجات دلانے میں مددکرنے والا ایک ’’پرعزم‘‘ اقدام ہے۔ این آر اے انفرادی امتحانات کے بجائے مشترکہ اہلیت کے امتحانات منعقد کرے گی اور بھرتی کے عمل میں شفافیت لائے گی۔  نوجوانوں کو فی الحال نوکریوں کے لیے کئی مختلف امتحانات دینے پڑتے ہیں۔ اس طرح کے امتحانات کے لیے اس وقت تقریباً 20 بھرتی کرنے والی ایجنسیاں ہیں اور امیدواروں کو امتحان دینے کے لیے دوسری جگہوں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ اس ضمن میں مسائل کو دور کرنے کا دیرینہ مطالبہ کافی وقت سے کیا جا رہا تھا۔ اس کے پیش نظر ، کابینہ نے مشترکہ اہلیت کے امتحانات لینے کے لیے ’’قومی بھرتی ایجنسی‘‘کو تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے۔
’’مشن کر م یو گی‘‘ – نیشنل سو ل سروسز کے ڈیولپمنٹ پروگرام (این پی سی ایس سی بی) سول خدمات کو بہتر بنانے کی سمت مودی حکومت کا ایک تاریخی قدم ہے۔ اس مشن کے ذریعہ ، سول سروس نہ صرف ہندوستانی ثقافت اور جامع اصلاحات سے بھر پور ہوگی بلکہ جس سے دنیا بھر کے بہترین طریقوں کو سیکھتے ہوئے ایک مضبوط انتظامی ڈھانچہ بھی تشکیل  ہوگا ۔ ’’مشن کرم یوگی‘‘کا مقصد ہندوستانی سرکاری ملازمین کو مزید تخلیقی سوچ، جدید ، زیادہ فعال، پیشہ ور، ترقی پسند، طاقت ور،  شفاف اور ٹیکنالوجی کے قابل بنا کر مستقبل کے لیے تیار کرنا ہے۔ مخصوص ملازمت کی مہارت رکھنے والے سرکاری ملازم اعلیٰ ترین، معیاری مؤثر خدمات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے قابل ہوںگے۔
 ’’سبھی کو گھر‘‘ مشن کے تحت پردھان منتری آواس یوجنا، گر امین کا آغاز یکم؍ اپریل 2016 کو کیا گیا تھا۔ اب تک ایک کروڑ 14 لاکھ ضرورت مند افراد کو دیہی علاقوں میں پکے مکانات مہیا کرا دیے گئے ہیں۔ 1.75 ملین خاندانوں کو حال ہی میں گھر دیاگیا ۔ مارچ 2022 تک تقریباً 3کروڑ ضرورت مندوں کو پکے مکانات مہیا کرائے جائیںگے ۔
وزیر اعظم مسٹر مودی کی سربراہی میں ، ایسے بہت سے کام انجام پائے جن سے پوری دنیا میں بھارت کی ساکھ بڑھی۔ یوگا کو پوری دنیا میں پہچان ملی۔ بھارت خلائی سپرپاور بن گیا۔ اقوام متحدہ ، سعودی عرب، فلسطین، روس ، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک نے مسٹر مودی کو اپنے اعلیٰ مُلکی اعزاز سے نوازا۔ سرجیکل اور فضائی حملے،   وَن رینک وَن پنشن لاگو کیا، نوٹ بندی، جی ایس ٹی، ہر گاؤں کو بجلی ملی، ریکارڈ 500 1سے زیادہ غیر ضروری قوانین ختم کیے گئے۔ دنیا کا سب سے بڑا صحت کا  منصوبہ ’’آیوشمان بھارت‘‘عمل میں آیا۔ ریکارڈ بڑی تعداد میں غریبوں کو مفت گیس کنکشن دیے۔ تین طلاق ختم ہوا، مسلم خواتین کو بغیر کسی محرم ( مرد رشتہ دار) کے حج کے سفر پر جانے کی اجازت کی سہولت ملی ۔ حج سبسڈی بند ہوئی، دفعہ370کوہٹا یاگیا۔ سیکڑوں سال پرانا رام مندرکا مسئلہ حل ہوگیا اور رام جنم بھومی پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر شروع ہوئی۔
ملک کے بیشتر دیہاتوں اور قصبوں کوکھلے عام بیت الخلاء سے نجات ملی ۔ ملک کے تمام دیہاتوں کو بجلی فراہم کی گئی ہے۔ یہ سب ’’طواف کی روایت‘‘ کے خاتمے اور ’’محنت و بہتر نتائج کے عزم‘‘کا ہی نتیجہ ہے۔ کور ونا بحران کے دوران معاشی بدحالی کا چیلنج دنیا کو درپیش رہا، بڑے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت ہچکو لے کھانے لگی یا تباہ ہو گئی، دنیا کی جو اُبھرتی ہوئی معیشت ہے ، بھارت پراس کے منفی اثرات کا پڑنا فطری ہے ، لیکن اس دوران بھی ’’بھارت کے ، زراعت میں سربراہ ملک کی قدر کو کمزور نہیں ہونے دیا‘‘، زراعت اور کاشتکاروں کو مستقل حوصلہ افزائی اور کسانوں کی خود اعتمادی اور حکومت کی مدد کا نتیجہ رہا کہ زراعت کے شعبے کو معاشی مندی زیادہ متاثر نہیں کرسکی، صرف یہی نہیں بلکہ اس بحران کے وقت میں بھی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بھی تقریباً 22 ارب ڈالر کی رہی۔ ملک کا معاشی تانا بانا آج بھی درست سمت اور صحیح ہاتھوں میں ہے، آنے والے وقتوں میں ، بھارت کی معیشت ایک بار پھر مضبوطی کی راہ پر گامزن ہوگی۔
(صاحب مضمون مرکزی وزیر برائے اقلیتی امور ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS