روزگار ہی طے کرے گا سیاست کی سمت

0

آلوک جوشی

بہار کے الیکشن میں دس لاکھ نوکریوں کا نام کیا آیا، سیاست کا رنگ بدل گیا۔ پہلے تو جم کر حیلہ حوالی ہوئی۔ وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ، دونوں نے دلیل دی کہ ریاستی حکومت کے پاس اتنے لوگوں کو تنخواہ دینے کا بھی پیسہ نہیں ہے۔ نائب وزیراعلیٰ نے تو صاف کہا کہ اتنے لوگوں کو تنخواہ دینے پر 58,514.06کروڑ روپے کا نیا خرچ ہوگا۔ اس میں پرانے ملازمین کی تنخواہ اور بھتّے جوڑ لیں تو کل خرچ 1,11,189کروڑ روپے ہوجاتا ہے۔ حکومت کے پاس یہ پیسہ تو ہے نہیں یعنی یہ وعدہ پورا ہوہی نہیں سکتا، بس ہوا ہوائی ہے۔
لیکن صرف ایک ہی دن بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی کا انتخابی منشور ا(سنکلپ پتر) آیاتو وہاں 19لاکھ روزگار دینے کا وعدہ تھا۔ منطق ہے کہ یہ روزگار ہیں، سرکاری نوکریاں نہیں، لیکن تب سوال یہ بھی ہے کہ کیا ریاست کے وزیراعلیٰ اور نائب وزیراعلیٰ کو ایک دن پہلے تک یہ خبرنہیں تھی کہ بی جے پی کیا انتخابی وعدہ کرنے جارہی ہے؟ خیر، مسئلہ صرف یہ ہے کہ اس الیکشن میں روزگار کتنا بڑا ایشو بنے گا۔
بہار ہو یا ملک کا کوئی اور حصہ، یہ سوال اٹھنا ہی ہے کہ روزگار کا مطلب کیا سرکاری نوکری یا پرائیویٹ نوکری ہی ہے یا جو لوگ اپنا روزگار کریں گے، ان کا کریڈٹ بھی حکومت کے ہی کھاتے میں جانا ہے۔ لاک ڈاؤن شروع ہوتے ہی جس طرح کام دھندے ٹھپ ہوئے اور پرائیویٹ سیکٹر میں لاکھوں لوگوں کی نوکریاں چلی گئیں، اس کے بعد اس سال اچانک سرکاری نوکری کی اہمیت میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ آپ کے آس پاس ایسے تمام لوگ مل جائیں گے یہ کہتے ہوئے کہ سرکاری نوکری کی بات ہی اور ہوتی ہے۔ پرائیویٹ کا کیا بھروسہ؟
سی ایم آئی ای کے چیف مہیش ویاس اس مسئلہ پر مسلسل نظر رکھتے ہیں۔ ان کے لیے بھی یہ ایک پہلی ہی ہے کہ جب سرکاری نوکریوں کے لیے اتنی للک ہے اور سرکاری خدمات میں لوگوں کی کمی مسلسل نظر آرہی ہے، تب حکومتیں آخر زیادہ لوگوں کو نوکری دیتی کیوں نہیں ہیں؟ اور ایک معاشرہ کے طور پر بھی ہم یہ منطق کیوں برداشت کرلیتے ہیں کہ حکومت کے پاس پیسہ نہیں ہے، اس لیے وہ ضروری خدمات کے لیے اسٹاف رکھنے کا بنیادی کام بھی پورا نہیں کرے گی؟
اب اس سے مقابلہ کے دو راستے ہیں۔ایک، حکومت اپنی فضول خرچی پر لگام لگائے اور دوسرا، وہ اپنی کمائی میں اضافہ کرے۔ فضول خرچی روکنے کے درجنوں طریقے مختلف کمیشن بتاچکے ہیں، لیکن رسم نبھانے سے آگے کوئی ٹھیک کام ہوتا نظر نہیں آتا ہے۔ کمائی میں اضافہ بھی کوئی آسان راہ نہیں ہے بالخصوص کورونا وبا کے وقت۔ حکومت کی زیادہ تر کمائی ٹیکس سے آتی ہے، ٹیکس وصول تبھی ہوگا، جب لوگوں کی آمدنی یا کاروبار میں کمائی اچھی ہورہی ہو۔
اب کچھ اچھی خبریں ضرور آرہی ہیں۔ جتنی کمپنیوں کے دوسری سہ ماہی کے نتائج ابھی تک آچکے ہیں، ان کی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ معیشت پٹری پر لوٹ رہی ہے۔ صرف دسہرہ کے دن ممبئی، گجرات اور کچھ دوسرے شہروں میں کل 200 مرسڈیز کاریں فروخت ہوئیں۔ یہ گزشتہ دسہرہ سے زیادہ ہے۔ ماروتی نے نوراتری میں 96,700 گاڑیاں فروخت کیں اور کمپنی کو امید ہے کہ دیوالی تک اس کا کاروبار چمکتا ہی رہے گا۔ کل ملاکر، دوسری سہ ماہی میں کمپنی نے اس سال کی کل فروخت کا 41فیصد حاصل کیا ہے۔ گزشتہ سال یہی اعدادوشمار 38.6فیصد پر تھے۔ ساری کار کمپنیوں کو جوڑ لیں تو نوراتری اور دسہرہ میں تقریباً 2,00,000کاریں فروخت ہوچکی ہیں۔ اسی سال میں ہمارے ملک کے لوگ آن لائن پورٹلس پر ہر منٹ ڈیڑھ کروڑ روپے کے موبائل فون خرید رہے تھے۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے بازاروں میں ہلچل بھلے ہی کم ہو، لیکن آن لائن شاپنگ کرنے والوں کی گنتی میں گزشتہ سال سے 85فیصد اضافہ ہوا ہے اور انہوں نے جو خریداری کی، وہ بھی گزشتہ سال سے 15فیصد اوپر رہی ہے۔ نوراتری میں ہی تقریباً چار ارب ڈالر یعنی تقریباً سوا لاکھ کروڑ روپے کی آن لائن شاپنگ ہوئی ہے۔ کاروباریوں کو امید ہے کہ دیوالی تک گزشتہ سال کے مقابلہ کم سے کم 85فیصد کاروبار تو واپس آہی جائے گا۔
ادھر، صنعتی پیداوار کے انڈیکس یعنی آئی آئی پی اور کور سیکٹر کے اعدادوشمار بھی امید جگا رہے ہیں۔ مارچ میں لاک ڈاؤن لگتے ہی 22فیصد اور اس کے بعد اپریل میں 66.6فیصد تک گرنے کے بعد سے آئی آئی پی میں مسلسل بہتری نظر آرہی ہے۔ اگست آتے آتے 67.6 فیصد کمپنیوں کی ہی پیداوار گزشتہ سال سے نیچے رہ گئی اور ان میں بھی صرف 10فیصد ہیں، جن کی پیداوار آدھے سے کم رہی۔ کمپنیوں کے سہ ماہی رپورٹ کارڈ سے نظر آرہا ہے کہ بالخصوص چھوٹے شہروں اور گاؤوں سے ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوسری طرف، کورونا کے باوجود اپریل سے اگست کے بیچ ہی ہندوستان میں 35.73ارب ڈالر کی راست غیرملکی سرمایہ کاری ہوئی ہے،جو نہ صرف گزشتہ سال سے 13فیصد زیادہ ہے، بلکہ ایک نیا ریکارڈ بھی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا اس سب کا فائدہ نوجوانوں، خواتین کو ملازمت کی شکل میں ملے گا؟ اگر یہ اشارے سمجھے جائیں تو جواب ہاں میں ہی ہونا چاہیے لیکن اب دو نئے سوال کھڑے ہورہے ہیں۔ ایک یہ کہ کورونا کی رخصتی کب ہوگی؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ نئے دور میں سرکاری نوکریوں کی گنجائش باقی کتنی رہے گی؟ ایسے میں نوکری دینے یا روزگار دینے کی ذمہ داری یا تو بڑی پرائیویٹ کمپنیوں پر آجاتی ہے یا پھر خود پر یقین کرنے والے صنعت کاروں پر۔ ہر ایک پڑھائے ایک کی طرز پر شاید نیا نعرہ بن سکتا ہے، جس میں خود کا کام شروع کرکے اپنے ساتھ دوچار اور لوگوں کے لیے بھی کمائی کا انتظام کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جاسکے۔
بہت سی بڑی کمپنیوں سے خبر ہے کہ کورونا دور میں جو تنخواہ کاٹی گئی تھی، وہ واپس ہوگئی۔ کچھ کمپنیوں نے تو جو پیسہ کاٹا تھا، وہ بھی لوٹا دیا ہے، لیکن جن لوگوںکی نوکریاں چلی گئیں، ان کے واپس لیے جانے کی خبر تو ابھی سنائی نہیں پڑی ہے۔ ایک پیشہ ور نیٹ ورکنگ سائٹ کے حساب سے گزشتہ سال کے مقابلہ 12 فیصد زیادہ نوکریاں تو ہوں گی، لیکن نوکری کے لیے مقابلہ گزشتہ سال سے 30فیصد زیادہ مشکل ہوگیا ہے۔ یہی نہیں، بہت سے لوگوں کو اپنا کام بدلنا پڑے گا۔ کل ملاکر، روزگار آنے والے وقت میں انتخابی سیاست کا بھی بڑا سوال بنے گا یا نہیں، اس کا جواب شاید بہار انتخابی نتائج کے بعد ہی سامنے آئے گا۔
(بشکریہ: ہندوستان)
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS