ہندوستان میں فرضی یونیورسٹیوں کی آفت

0

وید پرکاش
(مترجم: محمد صغیر حسین)

شاید ہی کوئی ایسی جگہ ہو جو فرضی یونیورسٹیوں کی مشتبہ موجودگی سے خالی ہو۔ فرضی نیورسٹی وہ ہیئت ہوتی ہے جو عیارانہ طور پر یونیورسٹی ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ اسے کوئی ڈگری یا ڈپلوما دینے کا استحقاق نہیں ہوتا۔ یہ اچھی خاصی رقمیں لے کر سادہ لوح افراد کو ایک جعلی مہر (seal)کے تحت سرٹیفکیٹ، ڈپلوما اور ڈگریاں دینے کے لئے غیر دیانتدارانہ طریقے اپناتے ہیں۔ ایسے اداروں کی تعداد میں، بدقماش اور بددیانت افراد کی کثرت کی وجہ روز افزوں اضافہ ہورہا ہے جو سیدھے سادے اور جلد اعتبار کرنے والے لوگوں کونفسیاتی طور پر اپنے دامِ فریب میں گرفتار کرتے ہیں۔ ان عیار لوگوں کے علاوہ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو تھوڑے سے فائدے کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کرنے کو ہمیشہ آمادہ و تیار رہتے ہیں۔ ایسے لوگ فرضی ڈگریوں کے کھیل میں بھی دیکھے جاتے ہیں۔ یہ کھیل استحصال کرنے والوں اور استحصال ہونے والوں، دونوں کی ملی بھگت سے کھیلا جاتا ہے۔ چونکہ ایسی بیشتر یونیورسٹیاں پوشیدہ طور پر اپنی سرگرمیاں جاری رکھتی ہیں، اس لئے نظامِ حکومت کے لئے ان کے خلاف کارروائی کرنا دشوار ہوتا ہے۔ ان میں کچھ فرضی یونیورسٹیاں، ملک میں ایک مدت مدید سے کام کررہی ہیں۔
فرضی یونیورسٹیاں ہر قسم کے لوگوں کے عملی تعاون سے خوب خوب دھندا کر رہی ہیں۔ ایسے لوگو ں میں تارکین تعلیم (dropouts)، ملازمت کے متلاشی افراد، ترقی کے خواہاں، شادی کے رشتوں کے طلب گار، قانون ساز حضرات وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان کے موکلین کی خاصی بڑی تعداد سمندر پار بسنے والے تارکین تعلیم پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نصابوں اور اپنی اہلیت کی غیر ہم آہنگی کے سبب اپنے ڈگری پروگراموں کو مکمل کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے۔ ایسے امیدوار، اپنے برباد شدہ وقت کی تلافی کے لئے فرضی سرٹیفکیٹس اور ڈگریوں کے سائے میں پناہ لیتے ہیں۔ یہاں تک کہ قانون ساز افراد بھی ان قابلِ ملامت کاموں سے مبرا نہیں ہیں۔ یہ 2015کی بات ہے جب ایک قانون ساز جو وزیر قانون بن گئے تھے، جعلی دستاویزات بنانے اور فرضی ڈگریاں پیش کرنے کے جرم میں گرفتار کئے گئے تھے۔ ایسے کروڑوں لوگ ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر اس شیطانی چکر میں پڑجاتے ہیں جہاں سے نکلنے کی تمام راہیں مسدود ہوتی ہیں۔
یہ کس قدر حیران کن بات ہے کہ ایک وقت میں امریکہ میں 211اور انگلینڈ میں 75فرضی یونیورسٹیاں تھیں جو عیارانہ طور پر ڈگریاں پیش کررہی تھیں۔ جب ان ملکوں میں بڑے پیمانے پر جعلی ڈگریوں کے معاملات سامنے آئے تب ان یونیورسٹیوں کو بلیک لسٹ کیا گیا لیکن تب تک نقصان ہوچکا تھا۔ انہوں نے دنیا کے طول و عرض میں لاتعداد نوجوانوں کا کیرئیر برباد کردیا تھا۔ سیکڑوں ہندوستانی طلبا 2011میں کیلی فورنیا مقیم ٹرائی ویلی یونیورسٹی کے دام فریب میں آکر اپنا مستقبل خراب کر بیٹھے تھے۔  یہ یونیورسٹی ایک فرضی یونیورسٹی ثابت ہوئی۔ یہ طلبا سے محض 16,000امریکی ڈالر میں نہ صرف ملازمت اور امیگریشن دلانے کا وعدہ کرتی تھی بلکہ داخلے کے لئے لازمی استعداد کی شرائط کو بھی نرم کرکے انہیں اپنے جال میں پھنساتی تھی۔ چند ملکوں نے اب ایک ایسا سسٹم بنایا ہے جو حتمی انتخاب سے قبل یونیورسٹی کے کوائف کی جانچ کرلیتا ہے۔ ان ملکوں نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیاں بھی تشکیل کی ہیں جو ایسی سرگرمیوں پر نظر رکھتی ہیں اور عیاروں اور فریبیوں کو سخت سزائیں دیتی ہیں۔
دنیا کے گوشے گوشے میں لوگ اس طرح کی ناجائز اور غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور ہندوستان بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ ہندوستان میں کوئی یونیورسٹی صرف مقتدرہ کے ذریعے بنائے گئے قانون (Act)کے تحت ہی قائم کی جاسکتی ہے۔ یہ مقتدرہ ہیئت مرکزی یا ریاستی قانون ساز ایوان ہوسکتے ہیں۔ یہی ایکٹ، ہیئت مقتدرہ کا ایک دستاویز بن جاتا ہے جو یونیورسٹی کے نظم و نسق کا استحقاق فراہم کرتا ہے۔ کسی اور طریقے سے قائم کئے گئے اداروں کو ’یونیورسٹی‘ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ہندوستان میں کم وبیش 24ایسے ادارے ہیں جو لفظ ’یونیورسٹی‘ کا استعمال ناجائز طور پر کررہے ہیں۔ ان کی اپنی سرگرمیاں پوشیدہ طور پر کافی عرصے سے جاری ہیں۔ مرتکبین جرم فرضی پتوں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ قانون کے محافظین ان کو گرفتار نہ کرسکیں اور وہ قرار واقعی سزائوں سے بچتے رہیں۔
یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC)واحد ضابطہ (regulator)ہے جسے ملک میں اعلیٰ تعلیم کے معیارات وضع کرنے اور انہیں برقرار رکھنے کا مجاز قرار دیا گیا ہے۔  یوجی سی ایکٹ، 1956کی دفعہ 23کسی بھی ایسے ادارے کے لئے لفظ ’یونیورسٹی‘ کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے جو مرکزی یا ریاستی ایکٹ کے تحت قائم نہ ہوئے ہوں اور اگر کوئی شخص یوجی سی ایکٹ کی دفعات کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس پر ایک جرمانہ عائد کیا جائے گا جو ایک ہزار روپے تک ہوسکتا ہے۔ سزا کی اس غیر اہم اور معمولی دفعہ کا اہتمام ایکٹ بنانے والوں نے کیا تھا کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے جنگ آزادی کے نظریات سے حوصلہ پایا تھا اور میدان تعلیم میں بدعنوانی کا تصور ان کے کسی گوشۂ خیال میں بھی نہ آیا ہوگا۔ سزا کے طور پر جرمانے کی جو رقم مقرر کی گئی تھی، اس کا منشا یہ تھا کہ مجرم کو اخلاقی ضرب دی جائے۔ اس سے انہیں مالی نقصان پہنچانے کا خیال نہ تھا۔
یوجی سی نے ملک گیر پیمانے پر یونیورسٹی نظام کی کارکردگی میں شفافیت، معروضیت اور دیانت کو یقینی بنانے کے لئے اپنے ایکٹ میں کچھ قواعد و ضوابط کا اضافہ کیا ہے۔ جہاں گزشتہ 67سالوں کی اعلیٰ وممتاز خدمات کے لئے اس کی ستائش ہوتی ہے، وہیں چند ذاتی بندشوں کی وجہ سے اسے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا ہے۔ فرضی یونیورسٹیوں کا مستقل خطرہ اور ان کی بیخ کنی میں ناکامی ایسے مسئلے ہیں جن میں یوجی سی نے خود کو بے دست وپا پایا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں کے دوران، یوجی سی کے متعدد اقدامات کے باوجود فرضی یونیورسٹیوں کی تعداد میں کمی نہیں آرہی ہے۔ کم وبیش 24فرضی یونیورسٹیاں ملک میں پوشیدہ طور پر سرگرم عمل ہیں۔ یوجی سی نے اپنے مربوط ضابطوں کے ذریعے آن لائن تعلیم و تعلم کی اجازت دے دی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی (NEP) 2020 میں بھی اسے شامل کیا گیا ہے۔ لیکن آن لائن تعلیم کے چلن سے یہ خطرہ بھی لاحق ہے کہ فرضی یونیورسٹیوں کی تعداد میں اچھا خاصا اضافہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس کی نگرانی کی ضرورت ہے۔
یہ فرضی یونیورسٹیاں 36ریاستوں اور مرکزی علاقوں میں سے صرف 9 ریاستوںسے اپنا کاروبار چلا رہی ہیں۔ ان میں سے 8اترپردیش میں، 7دہلی میں، 2مغربی بنگال اور 2ہی اڈیشہ میں اور ایک ایک کیرالہ، کرناٹک، پدوچیری، آندھرا پردیش اور مہاراشٹر میں ہیں۔ یوجی سی، تمام بڑے قومی اور مقامی روزناموں کے جملہ ایڈیشنوں میں عوامی نوٹس مسلسل شائع کررہا ہے اور اس طرح غلط کاروں کے خلاف یوجی سی ایکٹ، 1956اور تعزیرات ہند (IPC)کے تحت سخت کارروائی کرنے کی وارننگ دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ وہ عوام کو بھی ان فرضی یونیورسٹیوں کی مشکوک و مشتبہ سرگرمیوں سے ہوشیار بھی کررہا ہے۔ یوجی سی ہر اکیڈمک سیشن کے آغاز میں عوامی نوٹسیز اور پریس ریلیزیں جاری کرتا آیا ہے۔ ان کے ساتھ وہ ریاست وار فرضی یونیورسٹی کی فہرست بھی شائع کرواتا ہے۔ یوجی سی ان فرضی اداروں کو وجہ بتائو نوٹس بھی گاہے گاہے جاری کرتا ہے لیکن اس کا کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ یوجی سی نے چند معاملات میں ایف آئی آر (FIR)تک تحریر کرائی لیکن اسے سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان جعل سازوں نے خود کو عدالت میں پیش ہی نہیں کیا۔ ان دھوکے بازوں اور جعلسازوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنے کی تحریری درخواستیں بھی متعلقہ ریاستوں کے اعلیٰ تعلیم کے چیف سکریٹریوں اور پرنسپل سکریٹریوں کو ارسال کی جاتی رہتی ہیں لیکن اس سلسلے میں ملنے والی کامیابی برائے نام ہے۔
معلوم ہوا ہے کہ گزشتہ ماہ دہلی سرکار نے دہلی میں سرگرم 7 فرضی یونیورسٹیوں پر کریک ڈائون کا آغاز کیا ہے۔ سرکار نے پولیس کمشنر کو لکھا ہے کہ وہ مدت معینہ کے اندر اندر اس سلسلے میں کی گئی کارروائی سے سرکار کو باخبر کریں۔ ایسے فرضی اداروں کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے اس طرح کی کاررائیاں ضروری ہیں۔ امید کی جاتی ہے کہ دوسری ریاستیں بھی دہلی سرکار کی پیروی کریں گی۔
دنیا کے دوسرے ممالک میں، فرضی سرٹیفکیٹس اور ڈگریاں بیچنے والے ایسے مشکوک و مشتبہ اداروں کو بزور قانون بند کرا دیا گیا ہے۔ اس کامیابی کا سہرا قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے سر بندھتا ہے۔ ایک ضابطہ (regulator)کی حیثیت سے یوجی سی ان دھوکے بازوں کے خلاف عوام کو بیدار کرنے اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کو آگاہ کرنے کا فرض ادا کررہا ہے، لیکن ان کو نوٹس ارسال کرنے کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ یہ غلط اور جعلی پتوں سے اپنے دھندے چلاتے ہیں۔
ریاستی سرکاروں کو چاہیے کہ ان فرضی یونیورسٹیاں چلانے والوں کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری سراغ رساں ایجنسیوں کو سونپ دے۔ آخری بات یہ ہے کہ اس کار عظیم کے لئے ایک مربوط کوشش کی ضرورت ہے جو صرف قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کی ماہرانہ تدبیروں سے ممکن ہے۔
مضمون نگار یوجی سی کے سابق چیئرمین ہیں
(بشکریہ: دی گارجین)
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS