بنگال :سیاست کی قربان گاہ پرمسلم بچیوں کی تعلیم

0

محمد فاروق اعظمی 

مغربی بنگال میں حکمراں ترنمول کانگریس اوراس کی سپریمو ممتا بنرجی کی ’ مسلم نوازی‘ کے چرچے بڑے زور و شور سے ہوتے ہیں۔ مسجدوں کے امام اور مؤذن حضرات کو مسلمانوں کی ہی وقف املاک کی آمدنی سے وظیفہ دے کر مسلمانوں کا ووٹ حاصل کرنے والی حکمراں ترنمول کانگریس نے مسلمانوں کیلئے عملاً کوئی ایسا کام نہیں کیا ہے جسے ان کی سماجی اور معاشی بہتری سے منسوب کیا جاسکے۔ اس کے برعکس ’مسلم نوازی‘ کے ڈھنڈورے نے غیر مسلم ووٹوں کو پولرائز کرنے اور بی جے پی کو بنگال میں کھل کرکھیلنے کا موقع ضرور فراہم کیا ہے۔حکمراں پارٹی نے گزشتہ 10برسوں میں بایاں محاذ اور کانگریس کو بتدریج دیوار سے لگاتے ہوئے سیاست کی ایسی صورت گری کی ہے جس میں اہم حزب اختلاف، بی جے پی بن گئی ہے۔
سیاست کے اس منظرنامہ میں مسلمان کانگریس اور سی پی آئی ایم یا بایاں محاذ کے ساتھ اشتراک عمل کے بجائے بی جے پی کی کھلی فرقہ پرستی سے مقابلہ کیلئے ترنمول کانگریس کو ہی اپنا ماویٰ اور ملجا سمجھنے لگے ہیں۔بھلے ہی ان کے ساتھ حکمراں جماعت کھلی دغا اور دھوکہ ہی کیوں نہ کرے۔ اس صورتحال کو مسلمانوںنے شیر مادر کی طرح ہضم کرلیا ہے۔ بی جے پی کے خوف سے بچنے کیلئے وہ اپنے اسکول، کالج، زبان، تہذیب، روزگار ان سب کی خوشی خوشی قربانی دے رہے ہیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو پورے مغربی بنگا ل میں مسلم بچیوں کی تعلیم کیلئے واحد ادارہ ملی الامین کالج کا اقلیتی کردارسلب کرلیے جانے پر کہیں نہ کہیں سے ہلکی سی آواز ضرور اٹھتی۔اس کھلے ظلم پر بھی مسلمان اور ان کے نام نہاد لیڈر حکومت کو مسلم دوستی اور مسلم نوازی کی سند تقسیم کرتے پھررہے ہیں۔ 
آزادی کے بعد کولکاتاشہر میں مسلمانوں کے ذریعہ قائم کیا جانے والاپہلا مسلم گرلس کالج ’ملی الامین کالج (فارگرلس)‘ اب دھیرے دھیرے قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ ملت میں فروغ تعلیم کے بجائے اپنے اور اپنے اقربا کیلئے تعمیراتی پروجیکٹ حاصل کرنے کی خاطر مرحوم سیاست داں سے لے کر موجودہ وارڈ کونسلروں تک نے اس کالج کا استعمال کیا۔ حق تلفی پر اٹھنے والی آواز کاحقیقتاًگلا گھونٹنے کیلئے خود ہی کالج کی انتظامیہ کمیٹی پر قابض ہوگئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ اس وسیع وعریض عمارت میں صرف چندبچیاں رسمی طور پر داخل تعلیم ہیں۔ رواں سال2020 کیلئے آن لائن داخلہ کی کارروائی شروع کی گئی مگر محکمہ تعلیم اور کلکتہ یونیورسٹی سے کوئی تعاون نہ ملنے کے سبب اسے روک دینا پڑا۔ایک طرح سے کالج اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے۔
کولکاتاکے مسلمانوں نے اپنی لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کرنے کیلئے آپسی چندہ کرکے 1992میں ملی الامین کالج قائم کیاتھا جس کا سنگ بنیادمولانا ابو الحسن علی میاں ندوی نے رکھا تھا۔اس وقت مغربی بنگال میں بایاں محاذ کی حکومت تھی اور کالج کی انتظامیہ کمیٹی میں بھی اس محاذ نے وابستہ لوگ ہی شامل تھے،جنہوں نے طویل تگ و دو کے بعد نیشنل کمیشن فار مائنارٹی انسٹی ٹیوشن سے اس کالج کیلئے اکتوبر 2008میں اقلیتی کردار کا درجہ حاصل کیاتھا،جس کے بعد کالج نے مغربی بنگال کے اعلیٰ تعلیم کے محکمہ سے رجوع کیا اور محکمہ اعلیٰ تعلیم نے اس معاملے کو محکمہ مدرسہ تعلیم و اقلیتی امور کے پاس بھیج دیا۔ محکمہ اقلیتی امور نے اس معاملے میں حکومت کا موقف صراحت سے بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس کالج کے اقلیتی کردار پر مغربی بنگال حکومت کو کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اقلیتی کردار کے حوالے سے کالج کومتعلقہ مراعات حاصل کرنے کی کوششوں میں تقریباً3برس لگ گئے۔ 2010کے اختتامی دنوں میں کلکتہ یونیورسٹی کی ہدایت پرکالج کوملے اقلیتی کردار کے تناظر میںنیا آئین اور ضابطے بنائے گئے جسے کلکتہ یونیورسٹی کی سنڈیکٹ نے منظوری دیتے ہوئے کالج انتظامیہ کو اساتذہ ، لائبریرین اور دیگر عملہ کو بحال کرنے کا اختیار دے دیا۔ 
لیکن 2011میںمغربی بنگال کا ’لال قلعہ‘ منہدم ہوگیا اور تبدیلی کی ایسی لہر چلی کہ ’سرخ پرچم کے بجائے ہر جگہ ’گھاس اور پھول‘ اگنے لگے۔اس کے ساتھ ہی مسلم اداروں میں ایک نئی سیاست کا آغاز ہوگیا۔ کالج انتظامیہ کی نئی کمیٹی بنی اور کالج پر حکمراں ترنمول کانگریس سے وابستہ ’ مسلم لیڈروں ‘ کاتسلط قائم ہوگیا۔اس کا فائدہ کالج کو ملنے کے بجائے مسلم لیڈروں کو ملنے لگا اور کالج پر انحطاط اور زوال کے سائے منڈلانے لگے۔ 2012میں ’مسلم نواز‘ وزیراعلیٰ ممتا بنرجی کی کابینہ کے پہلے وزیر تعلیم دیبابرتا باسو نے ہی کالج کی خود مختاری کو چیلنج کردیا۔ کالج کی تین خاتون ٹیچروں کو برطرف کیے جانے کا معاملہ بھی لا ینحل ہوکر عدالت تک پہنچ گیا۔ان تین ٹیچروں نے اپنی نوکری بحال رکھنے کیلئے ہر حربہ استعمال کیا اور عدالت کو یہ باور کرادیا کہ کالج اقلیتی کردار کا حامل نہیں ہے۔ عدالت میں مسلم نواز حکومت کے وکلا نے کالج کے اقلیتی کردار کی دھجیاں اڑائیں اور تارو پود بکھیر کر رکھ دیے۔ کلکتہ ہائی کورٹ نے تین استانیوں کی برطرفی کوغیرقانونی ٹھہرانے کے ساتھ ساتھ ملی الامین کالج کو نیشنل کمیشن فار مائنارٹی ایجوکیشن کی جانب سے ملنے والے اقلیتی کردار کے درجہ کو بھی مستردکردیا۔عدالت میں اپیل کے لیے پر تول رہی کالج انتظامیہ کمیٹی کے سربراہ مرحوم سلطان احمد نے (کہاجاتاہے کہ) ممتا بنرجی کی اس یقین دہانی پر کہ اگر کالج تینوں ٹیچروں کو بحال کرلے تو حکومت کالج کااقلیتی کرداربحال کرنے کی راہ ہموار کرے گی، آمنا و صدقنا کہا اور ٹیچرس بحال ہوگئیں مگر کالج کا اقلیتی کردار آج تک بحال نہیں ہوسکا۔وزیر اعلیٰ، وزیرتعلیم سمیت مختلف دروں پر بار بار دستک دینے اور بنگال کے مسلمانوں کی جانب سے ترنمول حکومت کی غلامی کا پٹہ لکھ دیے جانے کے باوجود بھی مسلم بچیوں کے کالج کے سلسلے میں حکومت کا یہ رویہ کھلی اقلیت دشمنی ہے۔
یہی صورتحال اردو میڈیم اسکولوں کی ہے جہاں کی بیشتر اسامیاں درج فہرست ذات اور درج فہرست قبائل کیلئے محفوظ ہیں جن کی وجہ سے وہاں ٹیچر نہیں ہیں۔ ٹیچروں کی کمی کی وجہ سے شہر نشاط کے کئی اسکول بند ہونے کی دہلیز پر ہیں۔ اضلاع میں صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔10فی صد اردو والے بنگال کے مختلف علاقوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دے کر اردو تحریک ختم کرنے کے ساتھ ساتھ ’مسلم نواز‘ حکومت اسکولوں سے اردو ٹیچروںکی اسامیاں بھی بتدریج ختم کررہی ہے۔ باوجود اس کے بنگال کے مسلمان اپنی تعلیمی، سماجی، سیاسی اور معاشرتی بہبود کیلئے جدوجہد کرنے کے بجائے پھر اسی عطار کے لونڈے سے دوا مانگ رہے ہیں۔
بنگال میں مسلمان کہے جانے والے لیڈروں کا کوئی ملی ایجنڈا ہی نہیں ہے۔ دریوزہ گری اور بڑے سیاسی لیڈر ان کی چاپلوسی ہی ان کا شیوہ ہوکر رہ گیا ہے۔بنگال کے مسلم ووٹر مسلم لیڈروں کے بجائے فرقہ پرستوں سے آنکھ مچولی کھیلنے والے بہروپئے لیڈروں پر بھروسہ کرنے پر مجبور ہیں۔بقول شاعر    ؎
ہم پیاس کے ماروں پر عجب دور بلا ہے
دریا بھی اسی کا ہے بہتّر بھی اسی کے
[email protected]
 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS