اومی کرون وبا: احتیاطی تدابیر ضروری

0

کورونا وائرس عجیب معمہ بن گیا ہے۔ جب ایسا لگنے لگتا ہے کہ اس کا دائرۂ اثر سمٹ رہا ہے، وہ ختم ہو رہا ہے تبھی کچھ واقعات ہلاکت خیزی کا احساس دلانے لگتے ہیں، اس کے نئے ویریئنٹ ’اومی کرون‘ نے پھر تشویش کی ایک لہر پیدا کر دی ہے۔ ’اومی کرون‘ تیزی سے 30 سے زیادہ بار روپ بدلتا ہے اور اسی وجہ سے اومی کرون کو کورونا کے الفا، بیٹا، ڈیلٹا، ڈیلٹا پلس اور دیگر ویریئنٹ سے زیادہ خطرناک مانا جا رہا ہے۔ گزشتہ دو ہفتے میں جنوبی افریقہ میں 75 فیصد کورونا کے مریض ’اومی کرون‘ سے ہی متاثر ملے ہیں۔ ٹیکہ لگائے ہوئے لوگ اس سے بچ پائیں گے یا نہیں، فی الوقت یہ کہنے کی پوزیشن میں فائزر-بائیو این ٹیک بھی نہیں ہے۔ اس سلسلے میں کچھ کہنے کے لیے اس نے دو ہفتے کا وقت مانگا ہے۔ ابھی یہ پتہ نہیں چل سکا ہے کہ ’اومی کرون‘ آیا کہاں سے، کیسے پیدا ہوا، البتہ سب سے پہلے اس کے متاثرین کا پتہ جنوبی افریقہ میں چلا اور قیاس یہ کیا جا رہا ہے کہ کورونا کا یہ نیا ویریئنٹ ایچ آئی وی سے متاثرہ کم قوت مدافعت والے مریضوں سے پھیلا ہو۔ ’اومی کرون‘ سے تحفظ کے لیے امریکہ، برطانیہ، یوروپی یونین، کنیڈا، جاپان، سعودی عرب، ایران، متحدہ عرب امارات، بحرین نے جنوبی افریقہ کے علاوہ زمبابوے، لیسوتھو، اسواتینی، موزبیق، مالی اور بوٹسوانا سے فلائٹس کی آمد و رفت پر پابندی عائد کر دی ہے۔ کتنے اور ممالک مزید کتنے ملکوں سے فلائٹس کی آمد و رفت پر پابندی عائد کریں گے، اس پر کوئی حتمی بات ابھی نہیں کہی جا سکتی۔ دراصل کورونا کے معاملے میں کوئی بھی ملک لاپروائی نہیں کرنا چاہتا۔ کورونا وائرس دسمبر 2019 میں چینی ریاست ہوبئی کے دارالحکومت ووہان سے پوری دنیا میں پھیلا تھا۔ اس وقت بیشتر ممالک کورونا کے بارے میں کم جانتے تھے، ڈبلیو ایچ او نے بھی نہیں بتایا تھا کہ یہ وبا ایک آدمی سے دوسرے آدمی میں پھیلتی ہے، البتہ تائیوان نے شروع میں ہی کورونا کے متعدی ہونے کی بات کہی تھی مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی تھی۔ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ ووہان میں سخت لاک ڈاؤن کیا گیا ہے، وہاں سے دیگر ملکوں میں فلائٹس کی آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا۔ اس کی وجہ سے دوردراز کے ملکوں میں تو کورونا وائرس پھیل گیا، البتہ تائیوان محفوظ رہا مگر اب دنیا کے بیشتر ممالک کورونا کی سنگینی اور ہلاکت خیزی دیکھ چکے ہیں، اس لیے اب اگر کوئی ملک اسے ہلکے میں لیتا ہے تو یہی سمجھا جائے گا کہ اس نے آفت کو خود دعوت دی ہے۔ پھر یہ کہ تمام احتیاطی تدابیر اور سہولتیں مہیا کرانے کے باوجود جنوبی کوریا لوگوں کو کورونا سے متاثر ہونے سے نہیں بچا پا رہا ہے، کورونا کے دائرے کو محدود کرنے کی آسٹریلیا کی کوشش کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے، یوروپی ملکوں کے نظام صحت کو کورونا نے ناکام ثابت کر دیا ہے تو ایسی صورت میں ترقی پذیر یا ان ملکوں کو زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے جن کے پاس علاج و معالجے کا بہتر نظام نہیں ہے اور اقتصادی طور پر بھی وہ ایسے نہیں ہیں کہ حالات کے بگڑنے پر لوگوں کو راحتیں دینے پر زیادہ خرچ کر سکیں۔ غالباً انہی باتوں کے مدنظر مرکزی حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ چین، برطانیہ، برازیل، جنوبی افریقہ، بوٹسوانا، زمبابوے، بنگلہ دیش، ماریشس، نیوزی لینڈ، ہانگ کانگ اور اسرائیل سے ہندوستان آنے والے لوگوں کو 48 گھنٹے پہلے کووِڈ ٹسٹ رپورٹ دینی ہوگی، انہیں ہندوستان آنے پر 14 دن تک کوارنٹین میں رہنا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ ’اومی کرون‘کی روک تھام کے لیے کیا یہ اقدامات کافی ہیں یا ضرورت کچھ اور کرنے کی ہے؟
آج وزیراعظم نریندر مودی نے اعلیٰ عہدیداروں کے ساتھ کورونا وائرس پر ورچوئل میٹنگ کی۔ اس موقع پر دہلی کے وزیراعلیٰ نے مرکزی حکومت سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ کورونا کے نئے ویریئنٹ سے متاثرہ ممالک سے فلائٹس کی آمد و رفت پر پابندی عائد کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ملک کے دارالحکومت دہلی میں کورونا انفیکشن کا پہلا معاملہ ہوائی سفر کی وجہ سے ہی سامنے آیا تھا۔‘ کجریوال کی یہ بات بھی ناقابل فہم نہیں کہ ملک وبا کے بحران سے بڑی مشکل سے ابھرا ہے، یہ کوشش ہونی چاہیے کہ کورونا کے نئے ویریئنٹ کو ملک میں آنے سے روکا جا سکے۔ ’کومی کرون‘ سے متاثرہ ملکوں سے فلائٹس کی آمدو رفت پر جزوقتی پابندی کے معاملے میں فیصلہ مرکزی حکومت کو ہی لینا ہے اور اس کے پاس یہ جواز ہے کہ ایسا وہ نئے ویریئنٹ کو پھیلنے سے روکنے اور اس سے دنیا کو بچانے کے لیے کر رہی ہے۔ پھر یہ کہ ہندوستان اگر پابندی عائد کرتا ہے تو وہ پہلا ملک نہیں ہوگا جو ایسا کرے گا مگر ایسا لگتا ہے کہ فی الوقت مرکزی حکومت حالات پر نظر رکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر سے ہی کام چلانا چاہتی ہے اور اندیشوں کے پیدا ہونے پرشاید کوئی اور فیصلہ لے۔ جو لوگ یہ سمجھ کر لاپروا ہو گئے ہیں کہ ہمارے ملک سے کورونا جا چکا ہے، انہیں اس سے بچاؤ کے لیے سختی سے حکومت کی گائیڈ لائنز پر عمل کرنا چاہیے، کیونکہ وبا بتاکر کسی کے جسم کو نہیں لگتی اور یہ ضروری نہیں کہ وبا موت کی وجہ نہ بنے۔ یوں بھی یہ کہا جاتا ہے، علاج سے بہتر احتیاط ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS