تیل بحران اور آتم نربھرتا

0

ششانک دیوویدی

آلودگی میں کمی اور درآمد پر انحصار کم کرنے کے لیے پٹرول میں 20فیصد ایتھنال ملانے کے ہدف کو پانچ سال کم کرکے 2025تک کردیا گیا ہے۔ پہلے یہ ہدف 2030تک پورا کیا جانا تھا۔ ایتھنال کی ملاوٹ سے متعلق خاکہ/ گائڈلائن کے بارے میں ایکسپرٹ کمیٹی کی رپورٹ گزشتہ ماہ جاری ہوئی۔ اب ایتھنال اکیسویں صدی کے ہندوستان کی بڑی ترجیحات سے وابستہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال حکومت نے 2022تک 10فیصد ایتھنال پٹرول میں ملانے کا ہدف طے کیا تھا۔
کسی بنیادی پروڈکٹ یا تکنیک کے تناظر میں دوسروں پر منحصر رہنا ملک کے معاشی نظام کے لیے کتنا بھاری پڑتا ہے، اس کا واضح اور تکلیف دہ نتیجہ ہندوستان میں کچے تیل کی کمی کی شکل میں دیکھا جاسکتا ہے۔ پٹرول اور ڈیژل کی قیمتوں میں مسلسل ہورہے اضافہ نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ کچے تیل کی قیمتوں میں بین الاقوامی سطح پر مسلسل اتار-چڑھاؤ سے پٹرولیم پروڈکٹس کی کمی والے ممالک کی معیشت ہلنے لگی ہیں۔ آج سچائی یہ ہے کہ ہم اپنی ڈیمانڈ کا تین چوتھائی یعنی 75فیصد سے زیادہ تیل درآمد کرتے ہیں۔ اس کے لیے ہر سال اربوں ڈالر کی غیرملکی کرنسی خرچ کرنی پڑتی ہے۔ روپے کی کم ہوتی قیمت کی وجہ سے یہ رقم اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ اس سے ہندوستانی خزانے پر بوجھ میں اضافہ ہورہا ہے۔ تیل درآمد کے سبب ہی ہندوستان کا غیرملکی تجارتی خسارہ مسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ایسی پیچیدہ صورت حال میں ہمیں اس کا مستقل حل تلاش کرنا ہوگا۔ اس لیے اب ہمیں اس سمت میں خودکفیل بننے کے لیے ٹھوس اور مثبت طریقوں پر غور کرنا پڑے گا۔

مستقبل میں ہونے والی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ابھی سے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پٹرول میں ایتھنال کے 20فیصد مکسچر اور بائیوڈیژل سے ملک ایندھن آتم نربھرتا کی طرف بڑھے گا اور کچے تیل کی درآمد میں بھی کمی آئے گی۔ یہ ’کرشن کرانتی‘(کالا انقلاب) ہندوستان کی پائیدار ترقی کے ہدف کو مضبوط کرے گی۔

زراعت کے شعبہ میں سبز انقلاب اور سفید انقلاب کے بعد اب وقت ہے ’کرشن کرانتی‘(بلیک ریولیوشن) کا۔ پٹرولیم مصنوعات کے شعبہ میں ملک کوخودکفیل بنانے کی کوشش کو کرشن کرانتی نام دیا گیا ہے۔ اس کا مقصد ملک کو پٹرول اور ڈیژل میں خودکفیل بنانا ہے۔ چوں کہ کچا تیل کالے رنگ کا ہوتا ہے، اس لیے اس کے پروڈکشن میں خودکفیل بنانے کی کوشش کو کرشن کرانتی کہا جائے گا۔ یہ ملک میں ایک ایسا انقلاب ہوگا جس کی ایک مرتبہ شروعات ہوجانے کے بعد ملک کو ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ اس کے لیے ہمیں ملک میں دوسرے طریقوں سے پٹرول اور ڈیژل کو بنانا ہوگا اور اس کا متبادل تیار کرنا ہوگا۔
دنیا کے کئی ممالک جیسے یونائیٹڈ اسٹیٹ امریکہ، برازیل وغیرہ میں ایتھنال ملے پٹرولیم کا کامیاب استعمال ہورہا ہے۔ برازیل میں فصل پر جراثیم کش پاؤڈر کا چھڑکاؤ کرنے والے طیارے اِپنیما کا ایندھن روایتی ایندھن میں ایتھنال ملاکر تیار کیا جاتا ہے۔ یہ آلودگی سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ کسی بھی دیگر اچھے ایندھن کی طرح مفید ہوتا ہے۔ اب اس کا استعمال غیرممالک میں مسلسل بڑھتا جارہا ہے۔ اصل میں 2014تک ہندوستان میں اوسطاً صرف ایک سے ڈیڑھ فیصد ایتھنال ملایا جاتا تھا، لیکن آج یہ تقریباً ساڑھے آٹھ فیصد تک پہنچ گیا ہے۔ 2013-14میں جہاں ملک میں 48کروڑ لیٹر ایتھنال خریدا جاتا تھا، وہیں اب 8گنا سے بھی زیادہ بڑھ کر یہ تقریباً 320کروڑ لیٹر ہوگیا ہے۔ گزشتہ سال پٹرولیم کمپنیوں نے 21ہزار کروڑ روپے کا ایتھنال خریدا تھا اور اس کا بڑا حصہ ملک کے کسانوں، بالخصوص گنا کسانوں کو گیا۔
ایتھنال گنا، چقندر، مکئی، جو، آلو، سورج مکھی یا سفیدا سے تیار کیا جاتا ہے۔ یہ گنا، گیہوں اور ٹوٹے چاول جیسے خراب ہوچکے اناج اور زرعی کوڑے سے بھی نکالا جاتا ہے۔ اس سے آلودگی بھی کم ہوتی ہے اور کسانوں کو آمدنی کا ایک متبادل بھی مل جاتا ہے۔ ایتھنال چینی ملوں سے نکلنے والے شیروں سے بھی بنایا جاتا ہے۔ پہلے یہ بیکار چلا جاتا تھا۔ ایتھنال پٹرول کے آلودہ عناصر کو کم کرتا ہے۔ برازیل میں 20فیصد گاڑیوں میں اس کا استعمال ہوتا ہے۔ اگر ہندوستان میں ایسا ہونے لگے تو پٹرول کی بچت کے ساتھ ساتھ غیرملکی کرنسی کی بچت میں بھی یہ معاون ہوگا۔ ملک میں کئی لاکھ ہیکٹیئر اراضی بیکار پڑی ہے۔ اگر محض ایک کروڑ ہیکٹیئر اراضی میں ہی ایتھنال دینے والی فصلوں کو لگایا جائے تو ملک تیل کے معاملہ میں کافی حد تک آتم نربھر بن سکتا ہے۔
اسی طرح بائیوڈیژل کے لیے رتن جوت(جٹ روفا) کی پیداوار کی جاسکتی ہے۔ کئی ترقی پذیر ممالک میں گاڑیوں میں بائیوڈیژل کا استعمال کامیاب رہا ہے۔ ہندوستان کی تیل کمپنی انڈین آئل بھی اس کی جانچ کرچکی ہے۔ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ موجودہ گاڑیوں کے انجن میں بغیر کسی قسم کی تبدیلی کیے اس کا استعمال ممکن ہے۔ رتن جوت معتدل آب و ہواوالا پودا ہے جسے ملک میں کہیں بھی اگایا جاسکتا ہے۔ ہمیں اگانے کے لیے پانی کی بھی بہت ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ بنجر زمین پر بھی آسانی سے اُگ سکتا ہے۔ رتن جوت کی کھیتی کے لیے ریلوے لائنوں کے پاس خالی پڑی اراضی کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کم ہوتی زرخیز اراضی یا بنجر زمین میں رتن جوت کی پیداوار کرکے نہ صرف اس زمین کا بڑے پیمانہ پر استعمال کرپائیں گے، بلکہ بائیوڈیژل بناکر ملک کو آلودگی سے نجات بھی دلا سکتے ہیں۔ سائنسداں اور پریکٹیکل ٹیسٹ سے ثابت ہوچکا ہے کہ رتن جوت پودے کے بیجوں سے سستے معیاری حیاتیاتی ایندھن کا پروڈکشن کیا جاسکتا ہے۔ ساڑھے تین کلو رتن جوت کے بیج سے ایک لیٹر بائیو ایندھن بنایا جاسکتا ہے۔ حکومت نے پورے ملک میں تین کروڑ 30لاکھ ہیکٹیئر کم زرخیز یا بنجر اراضی میں رتن جوت کی کھیتی کو نشان زد کیا ہے۔ اگر بائیوایندھن مختلف طرح کے پیڑپودوں سے تیار کیا جائے تو ہندوستان اپنی ضرورت کا 10فیصد ایندھن خود تیار کرسکتا ہے اور اس سے 20ہزار کروڑ روپے کے برابر غیرملکی کرنسی کی بچت ہوسکتی ہے۔ جیسے جیسے بائیوایندھن کے پروڈکشن میں اضافہ ہوگا، اس کی قیمتوں میں بھی کمی آئے گی۔
اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ پٹرول میں ایتھنال ملانے اور بائیوڈیژل سے ملک میں کاربن کا اخراج کم ہوگا۔ امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے ایک ریسرچ میں بتایا ہے کہ گزشتہ دس لاکھ برسوں میں اس وقت ماحولیات میں کاربن آکسائیڈ کی سطح 100پی پی ایم زیادہ ہے۔ ممکن ہے یہ سطح گزشتہ ڈھائی کروڑ برسوں میں سب سے زیادہ ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ گزشتہ 18برس میں حیاتیاتی ایندھن کے جلنے کی وجہ سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج 40فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ اور زمین کا درجہ حرارت0.7ڈگری سیلسئیس تک بڑھا ہے۔ اگر یہی حالت رہی تو 2030تک زمین کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائڈ کی مقدار 90فیصد تک بڑھ جائے گی۔ حالاں کہ ہندوستان پیرس معاہدے کے تحت کاربن اخراج کو کم کرنے کی سمت میں تیزی سے کام کررہا ہے۔ ایسے میں قابل تجدید توانائی کے ذرائع پرکام کرتے ہوئے ہمیں فوسلز ایندھن پر اپنا انحصار کم کرنا ہوگا۔ اسی لیے جس رفتار سے ملک میں پٹرولیم مصنوعات کا استعمال ہورہا ہے، اس کے مطابق دنیا میں اگلے چالیس سال کی ڈیمانڈ پوری کرنے کیلئے ہی کچے تیل کے ذخائر ہیں۔ مستقبل میں ہونے والی تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ابھی سے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ پٹرول میں ایتھنال کے 20فیصد مکسچر اور بائیوڈیژل سے ملک ایندھن آتم نربھرتا کی طرف بڑھے گا اور کچے تیل کی درآمد میں بھی کمی آئے گی۔ یہ ’کرشن کرانتی‘ (کالا انقلاب) ہندوستان کی پائیدار ترقی کے ہدف کو مضبوط کرے گی۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS