ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا!

0

آج ایسا لگ رہا ہے کہ مغربی دنیا نے جس اژدہے کو پیدا کیا، پالا پوسا وہ ان ہی کو نگل رہا ہے۔ یہ بات گزشتہ 70سال سے سارے انصاف پسند،غیرجانبدار مسلمان اور عرب ممالک کہہ رہے ہیں، مگر اب امریکہ کے صدر جوبائیڈن کو بھی احساس ہورہا ہے کہ شاید اسرائیل ان کے قابو سے باہر ہوتا جارہا ہے اور ہو بھی کیوں نہ! غزہ پر حملہ کے 69دن ہوچکے ہیں اور چاروں طرف سے محصور، کھلے آسمان کے نیچے زندگی بسر کر رہے اپنے جگرگوشوں کی خون میں لت پت زمین اور آسمان سے برستی ہوئی آگ کے درمیان غزہ کے بچے کھچے لوگ ہر آن اپنی موت کا انتظارکرتے ہیں۔ ہر گزرنے والا لمحہ وہ احساس دلاتا ہے کہ اس وقت تو وہ زندہ ہیں، مگراگلے لمحہ وہ زندہ ہوں یا لقمہ اجل بن جائیں اس کا کوئی بھروسہ نہیں۔ اس غیریقینی، غیرمعمولی صورت حال کے درمیان پوری دنیا بطور خاص اسرائیل کے ہمنوا، ہم خیال اور ہم مکتب ممالک اور اقوام کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ غزہ میں بہت ظلم ہورہا ہے، مگر ان ذی شعور اور انسانی اقدار کے علم بردار یو روپی اورامریکی ممالک کی آنکھیں اب کھلنی شروع ہورہی ہیں جب غزہ میں 18412 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ اس دوران گزشتہ شب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک غیرمعمولی قرارداد دوبارہ پاس ہوئی ہے اورجس میں تمام ممالک نے بڑھ چڑھ کر اسرائیل سے ’مطالبہ‘ کیا ہے کہ وہ فوری طورپر جنگ روکے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ جنرل اسمبلی کے اس قرارداد میں وہ 10 ممالک بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قرارداد کے خلاف ووٹنگ کی تھی۔ اس دوران امریکہ کے صدر جوبائیڈن نے کہا ہے کہ اسرائیل غزہ پر تابڑتوڑ، بربریت آمیز بمباری کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر اپنی حمایت کھوتا جارہا ہے۔ انہوںنے یہ بات اس وقت کہی ہے جب پوری عالمی برادری چیخ چیخ کر یہ کہہ رہی ہے کہ غزہ میں بے گناہ، معصوم، بچے اور عورتیں لگاتار اورمسلسل مارے جارہے ہیں اوراس خطے میں انسانی بحران اور شدید ہوتا جارہا ہے۔ دوروز قبل اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل جس میں 15میں سے 5ممالک کو ویٹو کا حق حاصل ہے اور یہ ممالک سیکورٹی کونسل کے مستقل نمائندے کہے جاتے ہیں، ایک ایسی قرارداد پاس ہوئی تھی جس میں اسرائیل کی بربریت اور بمباری کوروکنے کی قرارداد آئی تھی مگرامریکہ بہادر نے اپنے عوام کی ضمیر کی آواز کو دباتے ہوئے اس قرارداد کا بھی ویٹو کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ویٹو نہ کرنے والے ملکوں میں برطانیہ، فرانس بھی شامل ہیں، جو اب تک مسلسل اور بلامشروط اسرائیل کو اپنی حمایت دیتے رہے ہیں۔
ادھر ہیومن رائٹ واچ (ایچ آر ڈبلیو) نے کہا ہے کہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائی کی وجہ سے جو 19لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں ان میں بھیانک قسم کی بیماریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ یہ بھوکے پیاسے لوگ بھیڑبھاڑ والے، پرہجوم مقامات پر گزر بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کی بمباری میں زیادہ تر مکانات اور عمارتیں زمیں دوز ہوگئی ہیں اوران لوگوںکے پاس رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ غزہ میں نہ تو بیت الخلا کی سہولت ہے نہ پینے کے پانی کی ، نہ کھانا پکانے کی۔ سخت سردموسم میں 3لاکھ 60 ہزار ان مریضوں کی پہچان ہوئی ہے جوکہ پرہجوم مقامات پر رہنے کی وجہ سے مختلف بیماریوں اور انفیکشن کا شکار ہیں۔ یہ اعدادوشمار کسی عام ادارے ،حماس یا فلسطینی اتھارٹی کے نہیں، بلکہ اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق کے ہیں۔ اس دوران ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر جنرل ٹریڈروس ایڈھوم گیبریسس نے کہا ہے کہ تازہ ترین رپورٹس جو ایک اور اسپتال کمال ادوان اسپتال سے آئی ہیں وہ بہت زیادہ خوفناک اور ڈرانے والی ہیں۔ ڈبلیو ایچ او کے ڈائریکٹر نے کہا ہے کہ یہ اسپتال کئی روز سے اسرائیل کی فوج کی گھیرا بندی کی وجہ سے بدترین حالات سے دوچار تھا اوراسرائیلی فوجی ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو اندرآنے یا باہر جانے نہیں دے رہے تھے۔ اس صورت حال کی وجہ سے ادویات کی تقسیم، مریضوںکی تشخیص میں کافی رکاوٹیں آئیں اور جب یہ اسپتال اسرائیلی فوج کی گھیرا بندی سے آزادہوا ہے تو وہاں سے المناک رپورٹس سامنے آئی ہیں۔ خیال رہے کہ فلسطینیوں کوملنے والی امدادی رسد بڑی مشکل سے اسرائیل کی فوج سے نکل رہی ہے۔ اسرائیلی فوجی صرف ریڈ کریسنٹ افسران کو ہی سامان تقسیم کرنے کی اجازت دے رہی ہے اور اس تقسیم میں بھی کافی جانچ پرکھ اور روک ٹوک ہورہی ہے۔ غزہ میں آج بھی جو رسد اندرآرہی ہے وہ مصر کی رفح راہداری سے منتقل ہورہی ہے۔ اس دوران میدان جنگ سے جوخبریں آرہی ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ حماس کے جانبازوں نے ابھی سپر نہیں ڈالی ہے اور تازہ ترین وارداتوں میں اسرائیل کے 10فوجی مارے گئے ہیں اور اس کارروائی میں کرنل کے رتبے کا ایک افسر بھی مارا گیا ہے۔ اس دوران اقوام متحدہ کی ایجنسی برائے فلسطینی مہاجرین جوکہ صرف اور صرف فلسطینی مہاجرین کے مسائل کو دیکھتی ہے اس کا کہنا ہے کہ اس پورے خطے میں حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے دانشور طبقے میں یہودی مخالف قانون Anti-Semitism کے رویہ پر زبردست اختلاف رائے سامنے آرہا ہے۔ یونیورسٹی بورڈ کے صدر گلوڈین گے کے استعفیٰ کا مطالبہ گرم ہورہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انہوںنے اپنے کیمپس میں یہودی مخالف جذبات پر اضافے پر اپنی فکرمندی کا اظہار کیا ہے۔ ادھر دوسری طرف ایک عالمی تجارتی کمپنی پیوما نے اسرائیل کی قومی فٹ بال ٹیم کی اسپانسرشپ کے خاتمے کا فیصلہ صادر کردیا ہے۔ یہ جرمنی کی کمپنی ہے اور یہ کمپنی 2018 سے اسرائیل کی ٹیم کو اسپانسر کر رہی تھی۔
اسرائیل کے ہاتھوںمرنے والے بے گناہوں میں فلسطینی ہی نہیں ہیں بلکہ بین الاقوامی اداروںکے سربراہان اور عہدیداران بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی فورسیز نے گزشتہ شب اقوام متحدہ کی ریلیف اتھارٹی کے ذریعہ چلائے جارہے ایک اسکول کو جو شمالی غزہ کے بیت حنن میں تھا، بموں سے اڑا دیا ہے۔ یہ کوئی پہلا ایسا اسکول نہیںہے جو اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بنا ہو۔ غزہ میں اقوام متحدہ کے مختلف ادارے، دفاترومراکز اور یہاں تک کہ عہدیداران بھی اسرائیلی وحشیانہ فوجی کارروائی کا شکار بنتے رہے ہیں۔ کسی بھی تنازع میں اب تک جتنے بھی اقوام متحدہ کے اہلکار مرے یا زخمی ہوئے ہیں ان میں غزہ کے حالیہ حملہ میں مرنے والے یا زخمی ہونے والوںکی تعداد سب سے زیادہ ہے یہ اپنے آپ میں ریکارڈ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان تمام حرکتوںکے باوجود اسرائیل اپنے آپ کو مظلوم اور معصوم قرار دیتا رہا ہے۔ اسرائیل نہ صرف یہ کہ غزہ میں بربریت آمیز مہم چلائے ہوئے ہے بلکہ تمام مقبوضہ فلسطین میں اس کی وار مشین مظالم ڈھا رہی ہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ 35گھنٹوں میں یعنی بدھ کے روز تادم تحریر جواطلاعات آئی ہیں ان کے مطابق مغربی کنارے میں رفیوجی کیمپ جنین میں فوجی کارروائی اسی شدت کے ساتھ چل رہی ہے جہاں پر اسرائیل کی فوجوں نے تقریباً 100فلسطینیوں کو گرفتارکرلیا ہے۔ یہ کسی ایک کیمپ سے اب تک گرفتار ہونے والے فلسطینیوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ غزہ میں ایک طرف 18ہزار سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہوئے ہیں تودوسری طرف کچھ ذرائع یہ بھی بتا رہے ہیں کہ منہدم عمارتوںمیں کم از کم 8ہزار لوگ دبے ہوسکتے ہیں۔ سول ڈیفنس کے حکام کا کہنا ہے کہ ان میں کتنے لوگ زندہ بچے ہوںگے اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ غزہ میں ملبے میںدبے لوگوں کونکالنے کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ اسرائیلی کی مسلسل بمباری ، عملے کی کمی، مشینری کا فقدان یہ صورت حال انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ظاہر ہے کہ گزشتہ 69دنوں سے چلی آرہی بمباری میں کتنے ہی لوگ ہوںگے جن کی لاشیں سڑ رہی ہوںگی۔ یا جوزندہ بھی بچے ہوںگے وہ کس حالت میں ہوںگے اس بات کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ ٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS