اوبی سی سیاست

0

پسماندہ طبقات یا اوبی سی کی سیاست جس تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ ایسا لگ رہاہے کہ 2024کے لوک سبھا انتخابات میں یہ ایک اہم ایشو بن جائے گی۔بی جے پی اوبی سی ہی نہیں پسماندہ مسلمانوں کی سیاست بہت پہلے سے کررہی ہے۔بہار میں ذات پر مبنی سروے کو جو حمایت حاصل ہوئی۔ نتیش کمار اور راشٹریہ جنتادل نے جس طرح اس ایشو کو عوام، سیاسی پارٹیوں حتیٰ کہ کورٹ میں رکھا ، جس کی وجہ سروے ممکن ہوسکا ۔بہارکی بی جے پی اکائی نے تو ابتدامیںسیاسی مجبوری کی وجہ سے اس سروے کی حمایت کی تھی،لیکن اس کی قیادت والی مرکزی سرکارنے اس کی مخالفت کی تھی، جس کی وجہ سے آگے اس معاملہ میں بی جے پی کوکچھ پریشانیوں کا سامنا کرناپڑسکتاہے ۔غورطلب امرہے کہ پہلی بار آرایس ایس کھل کر ریزرویشن کی حمایت کرتی نظر آرہی ہے ۔ پہلے سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت اوراب جوائنٹ جنرل سکریٹری منموہن ویدیہ نے ریزرویشن کی حمایت میں بیان دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایس سی ؍ ایس ٹی اوراوبی سی کی سیاست آگے زور پکڑے گی۔رہی بات کانگریس کی تو راہل گاندھی نے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے دوران کولار میں ہی یہ نعرہ دیدیا تھاکہ ’جس کی جتنی آبادی ، اس کی اتنی حصہ داری‘ اوراب پارٹی کی نئی ورکنگ کمیٹی کے پہلے اجلاس میں جو قرارداد منظور کی گئی، اس میں بھی اسی سیاست کو ملحوظ رکھ کر یہ مانگ کی گئی ہے کہ ریزرویشن کی بالائی حد50 فیصد سے بڑھائی جائے، اس نے خواتین ریزرویشن بل کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں پاس کرانے کی مانگ کی،جسے منموہن سنگھ سرکار میں راجیہ سبھا نے پاس کردیا تھا۔ پارٹی نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ 2021والی مردم شماری کرائی جائے اوروہ ذات پر مبنی ہو ۔ لگتاہے کہ بہار میں ذات پر مبنی جو سروے ہوا، حالانکہ اس کے اعدادوشمارسامنے نہیں آئے اوران کی بنیاد پر کیاکارروائی ہوگی ، وہ سب سپریم کورٹ کے فیصلے پر منحصر ہے ، جہاں اس کے خلاف عرضیوں کی سماعت ہورہی ہے۔ اتنا تو طے ہے کہ بہار میں کرائے گئے ذات پر مبنی سروے نے ملک کی سیاست میں ایک لکیر کھینچ دی ہے اوراس لکیر کو کوئی بھی پارٹی نظر انداز نہیں کرسکے گی ۔اس کی مانگ ہر ریاست میں اٹھے گی۔ فی الحال اترپردیش میں سماجوادی پارٹی مانگ کررہی ہے ۔
ذات پر مبنی سروے یا مردم شماری کی بات بہار میں جنتادل متحدہ اورراشٹریہ جنتادل کی طرف سے اٹھی تھی ،پھر اسے سماجوادی پارٹی نے اپنایا اوراب کانگریس نے، کوئی بعید نہیں ملک کے سیاسی حالات کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد ’انڈیا‘ اس ایشو پرحکمراں اتحاد این ڈی اے کوگھیرنے لگیں۔ اپوزیشن پارٹیوں میں اس کا ماحول بن رہا ہے اور بڑی پارٹیاں ہم خیال ہورہی ہیں۔بس میٹنگ میں اسے اٹھاناباقی ہے۔ اوبی سی کی سیاست ملک میں منڈل کمیشن سے ہی چل رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مودی سرکار جسٹس روہنی کمیشن کی رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرکے اس پر بحث کراسکتی ہے ، اس کی روشنی میں اوبی سی ریزرویشن میں کچھ نیا کرکے ذات پر مبنی مردم شماری کے دبائوکو کم کرسکتی ہے اور اپوزیشن کی سیات کو بے اثر کرسکتی ہے ۔فی الحال اوبی سی ہی نہیں ایس سی ؍ایس ٹی میں بھی ریزرویشن کا فائدہ کریمی لیئر اٹھارہے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہی ترقی کررہے ہیں اور باقی پہلے کی طرح پسماندہ ہیں۔سرکار ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے کوئی نیاقدم اٹھاسکتی ہے ۔روہنی کمیشن کی رپورٹ اس معاملہ میں سرکار کی رہنمائی کرسکتی ہے ،جسے 2017میں اسی مقصد کے تحت تشکیل دیا گیا تھااور 2023 میں اس نے اپنی رپورٹ حکومت کو پیش کردی۔ اب اسے پارلیمنٹ میں پیش کرنا اوراسے نافذ کرنا باقی ہے ۔
نیشنل سمپل سروے کے مطابق ملک میں اوبی سی آبادی کی حصہ داری 41فیصد ہے ، جبکہ منڈل کمیشن کے حساب سے 52فیصد۔ رہی بات اوبی سی کو دیئے جانے والے ریزرویشن کی تو وہ 27فیصدہے ۔ذات پر مبنی مردم شماری اور اس پر سیاست ملک میں اوبی سی آبادی اوران کو دیئے جانے والے ریزویشن کے تناسب پرہی مرکوز ہے ۔اس ایشو پر جتنی تیزی سے اپوزیشن پارٹیاں آگے بڑھ رہی ہیں ۔سرکار اتنی ہی پھونک پھونک کر قدم اٹھارہی ہے، کیونکہ بات بڑھی تو پھر سے منڈل کمیشن جیسے حالات پیداہوسکتے ہیں اوربی جے پی کے سامنے مشکلات کھڑی ہوسکتی ہیں۔ بہرحال تمام سیاسی پارٹیاں اسی پہلو سے سوچ رہی ہیں کہ وہ اوبی سی سیاست سے کس طرح فائدہ اٹھائیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS