اظہار رائے کی آزادی نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دیتی

0
اظہار رائے کی آزادی نفرت انگیز تقاریر کی اجازت نہیں دیتی

اسد مرزا

’’سویڈن اور ڈنمارک میں انتہائی دائیں بازو کے عناصر کی طرف سے قرآن پاک کے نسخوں کو نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعات نے دونوں سکینڈے نیوین ممالک کے علاوہ کئی دوسرے ممالک کو آزادی اظہار اور نفرت انگیز تقاریر اور جرائم پر اپنے موقف کا خود جائزہ لینے پر مجبور کر دیا ہے۔‘‘ اطلاعات کے مطابق سویڈن کی حکومت قرآن پاک کو جلانے کے متعدد واقعات کے بعد قومی سلامتی کے بارے میں فکرمند ہے۔کیونکہ ان واقعات نے مسلم اکثریتی ممالک سے مظاہرے اور غم و غصے کو جنم دیا ہے۔25 اگست کو ڈنمارک کی حکومت نے کہا کہ وہ مذہبی اشیاء کی بے حرمتی کو ’’مجرمانہ‘‘ بنائے گی اور صحیفوں کو جلانے پر پابندی کا بل پیش کیا۔
ڈنمارک اور سویڈن دنیا کے سب سے زیادہ سیکولر اور لبرل ممالک میں آتے ہیں اور انہوں نے طویل عرصے سے مذاہب پر عوامی تنقید کی اجازت دے رکھی ہے۔ ڈنمارک کے سیاست دانوں کا کہنا ہے کہ ایک صریح پابندی شہریوں کے آئینی طور پر لکھے گئے اظہار آزادی کے حق سے سمجھوتہ کرے گی، کیونکہ نئے قوانین انہیں روک سکتے ہیں یا کم از کم ان پر پابندی لگا سکتے ہیں۔اگرچہ لبرل جمہوریتوں میں اظہار رائے کی آزادی انسانوں کے لئے ایک بنیادی حق ہے، لیکن جب کسی کے خیالات کا اظہار دوسروں کے مذہبی اور ثقافتی عقائد سے متصادم ہو اور جب یہ بیان بازی نفرت انگیز تقریر میں بدل جائے تو اپنی رائے کے اظہار کا حق پیچیدہ ہو سکتا ہے۔
بہت سے یوروپی ممالک میں، سیاست داں، ماہرین سماجیات، ماہرین تعلیم اور دیگر یہ سوال کر رہے ہیں کہ آیا ان مذہبی کتابوں کو جلانے کی آزادیِ اظہار آزادی کی مشق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے یا مذہب کی بنیاد پر اشتعال انگیزی کے طور پر۔ ویب پورٹل ’دی کنورسیشن‘ کے لیے آرمین لینگر کی ایک رپورٹ کے مطابق، چند ممالک مذہبی برادریوں کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کو روکنے کے لیے پہلے ہی نئی قانون سازی کر رہے ہیں، لیکن یہاں ہمیں اس حقیقت کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس طرح کے رجحانات اسکینڈینیوین ممالک میں پروان چڑھے، جن کی سماجی بنیادیں کہیں زیادہ بہتر ہیں، لیکن ان میں دراڑیں پڑنا اس وقت شروع ہوئیں، جب انھوں نے مختلف ملکوں کے مہاجرین کو اپنے یہاں آنے کی اجازت دی،جن میں زیادہ تر مسلم عرب اور ایشیائی ممالک شامل ہیں جہاں سے بڑی تعداد نے ان ترقی یافتہ ممالک کی طرف ہجرت کرنا شروع کردیا۔ اپنے پرانے رسم و رواج اور مذہبی عقیدے کے نتیجے میں اور حکومت کی طرف سے بنا کسی مدد کے،انھوں نے اپنے آپ کومغربی سماج میں ضم کرنے کی کوشش کی، لیکن یہ تارکین وطن کمیونٹی اپنے آپ کو ان ممالک کے مرکزی دھارے میں صحیح طریقے سے شامل نہیں کر پا رہی تھیں اور ان میں ایک اثاثہ کی بجائے ایک مسئلہ زیادہ دیکھا گیا تھا۔مردم شماری کے اعداد و شمار کے مطابق سویڈن میں تارکین وطن آبادی کا تقریباً 1.8 سے 4.4 فیصد ہیں، 9 ملین آبادی والے ملک میں یہ تعداد 250,000 سے 400,000 میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دوسری طرف، ڈنمارک کی 5% آبادی تارکین وطن یا تارکین وطن کی اولادوں پر مشتمل ہے۔تاریخی طور پر، قرون وسطیٰ کے زمانے سے، سیاسی اور ثقافتی زندگی میں عیسائیت کے غالب کردار کی وجہ سے، یوروپی ممالک میں عیسائی عقائد کے خلاف توہین رسالت کو سخت سزا دی جاتی تھی۔یورپ کے کئی ممالک توہین مذہب کے قوانین کو برقرار رکھتے ہیں، لیکن ان کا طریقہ کار بہت مختلف ہے۔ اکثر قوانین مذہبی متون کی بے عزتی جیسی موجودہ دور کی کارروائیوں کو نہیں روک سکتے۔روس میں، قانون سازوں نے 2013 میں ایک وفاقی قانون متعارف کرایا جس نے مذہبی عقائد کی عوامی توہین کو جرم قرار دیا۔ جرمن پینل کوڈ 1969 کے بعد سے مذاہب اور عالمی نظریات کے بارے میں کھلے عام تہمت لگانے سے منع کرتا ہے، لیکن جرمنی اس قانون کو شاذ و نادر ہی نافذ کرتا ہے، 2006 میں ایک اسلام مخالف کارکن کو ٹوائلٹ پیپر تقسیم کرنے پر ایک سال کی معطل قید کی سزا سنائی گئی، جس پر ’’قرآن، قرآن‘‘ لکھا ہوا تھا۔
آسٹریا اور سوئٹزرلینڈ میں اس سلسلے میں جرمنی کے قوانین سے ان کے قوانین میں کافی مشابہت ہے۔ 2011 میں، ویانا میں ایک شخص کو پیغمبر اکرمﷺ کو پیڈو فیل کہنے پر جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔ یہ مقدمہ بعد میں یورپی عدالت برائے انسانی حقوق تک گیا، جس نے ویانا کی عدالت کے فیصلے کی حمایت کی۔ عدالت نے کہا کہ وہ شخص مفید بحث کرنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ وہ صرف یہ دکھانا چاہتا تھا کہ پیغمبر اسلام کی عزت نہیں ہونی چاہیے۔ اسپین بھی مذہبی بے حرمتی کے خلاف سخت موقف اختیار کرتا ہے۔ اس کا تعزیری ضابطہ مذہبی عقائد، رسومات یا تقاریب کو عوامی طور پر اس طرح سے چھوٹا کرنا جرم بناتا ہے، جس سے پیروکاروں کے جذبات مجروح ہوں۔ جہاں اسپین نے یہ قانون کیتھولک مفادات کے تحفظ کے لیے متعارف کرایا، وہیں یہ مذہبی اقلیتوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔اٹلی ایک اور کیتھولک اکثریتی ملک ہے، جو مذاہب کی توہین سمجھے جانے والے اعمال کی سزا دیتا ہے۔ اس کا تعزیری ضابطہ عیسائیت کی توہین کرنے والے اعمال کی سزا کے لیے استعمال کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکہ میں، آزادی اظہار کی حدود کے بارے میں بحث جاری ہے۔ آئین کی پہلی ترمیم آزادی اظہار کی اجازت دیتی ہے، جسے کچھ لوگ مقدس کتابوں کو جلانے کے حق سے تعبیر کر سکتے ہیں۔اگر ہم معاشرتی اقدار اور جمہوری اصولوں کی اپنی تشریح کی بنیاد پر باریک بینی سے تجزیہ کریں تو ایک مخصوص مذہبی برادری کے خلاف نفرت کی یہ کارروائیاں یورپ اور دیگر جگہوں پر بھی انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کے افراد کے ذریعے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کے وسیع تر ایجنڈے کا حصہ معلوم ہوتی ہیں۔قانون ساز، سماجی سائنس دان، ماہرین تعلیم، سیاست دان سبھی اس بات کی ایک قابلِ فہم تشریح حاصل کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں کہ آیا کتاب جلانے کی ان کارروائیوں کو آزادی اظہار کی مشق کے طور پر دیکھا جانا چاہیے یا مذہبی بنیاد پر اکسانے کے طور پر۔کیونکہ جب تک ہم نفرت انگیز تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کی ایک عالمی تعریف پر اتفاق نہیں کرتے ہیں تب تک ان کارروائیوں کے مرتکب ہونے والے افراد اظہارِ رائے کی آزادی کی تعریف کے پیچھے چھپ کر اپنی کارروائیوں کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔دوسری طرف بھارت ملک میں گزشتہ چند سالوں سے نفرت انگیز جرائم اور نفرت انگیز تقاریر کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہاں ان کارروائیوں کودائیں بازو کی ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے انجام دیا جاتا ہے اور ایک طریقے سے انھیں سرکاری پشت پناہی بھی حاصل ہے۔ اس سلسلے میں اصل مداخلت عدلیہ کی طرف سے آئی ہے، سیاسی طبقے کی جانب سے نہیں کہ ہمیں ان نفرت انگیز کارروائیو ںپر روک لگانی چاہیے۔ہندوستان بھر میں گزشتہ سال اس طریقے کے507 واقعات رونما ہوئے تھے۔کروڑوں کی آبادی والے ملک میں یہ واقعات بہت کم نظر آتے ہیں، لیکن ہم اس کا اندازہ نہیں لگاسکتے ہیں کہ نفسیاتی طور پرکتنی بڑی آبادی ان سے متاثر ہوئی اور نفسیاتی طور پر کتنی بڑی آبادی ان سے متاثر تھی، جس نے کہ انہیں ان جرائم کا ارتکاب کرنے پر اکسایا۔
درحقیقت اگر ہم واقعی اس طرح کے متعصبانہ رجحانات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی توجہات کو بدلنا ہوگا۔ قرآن پاک کے نسخے یا دیگر مذاہب کی مذہبی کتابوں کو نذر آتش کرنے یا دنیا بھر میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے واقعات کو سیاسی طبقے کی مدد سے حل کیا جا سکتا ہے، لیکن ہمیں ان کے حل کے لیے زیادہ انسانی اور سماجی رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔ آزادی تقریر، نفرت انگیز تقریر اور نفرت انگیز جرائم کی زیادہ واضح تعریف کو حتمی شکل دینے کے ذریعے اس طرح کے واقعات پر نکیل کسی جاسکتی ہے۔ صرف اس سے ان کے ساتھ رد عمل کے بجائے زیادہ فعال طریقے سے نمٹنے میں مدد ملے گی، جیسا کہ ڈنمارک میں آزادی اظہار سے متعلق قوانین پر نظرثانی کرنے کے ڈنمارک کے فیصلے سے ظاہر ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS