گیان واپی ایک قدیم جامع مسجد

0

محمد خالد غازی پوری ندوی
استاذ حدیث دارالعلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ
سب ہندوستان سے نکالے گئے یا وید کے پیرو بنائے گئے ،بودھو ںکے تمام خانقاہ، مندر توڑے گئے اورپھونکے گئے، ان کی جگہ شیوکی مورت قائم ہوئی، یہاں تک کہ کشمیر سے لے کر کنیاکماری تک پھر برہمنوں کی پوجاہونے لگی۔(آئینہ حقیقت نماص 132 ماخو ذ از مرقع بنارس ص 60)
شنکراچاریہ کے انتقال کے بعد :بودھوں کے خلاف شنکر اچاریہ کی زیر قیادت جو قتل وغارتگری کابازارقائم ہوا تھا وہ شنکر اچاریہ کے انتقال کے بعد بھی پورے طورپر جاری رہا اوراس میں کسی ہمدردی سے کام نہیں لیا جاتا، چنانچہ آگے صفحہ 62؍پرلکھتے ہیں’برہمن جدید فرقہ قائم کرکے ان کوجدید مذہب کے نام سے رواج دینے لگے، اورجہاں موقع ملا بودھوں کو قتل اورجلاوطن کرنے کی کاروائیاں عمل میں لاتے رہے ،شیو کے پرستار ،وشنوکے پرستار گندھرپ وغیرہ کے پرستار غرض کہ سینکڑوں فرقہ بودھ مذہب کی جگہ پیدا ہونے لگے۔‘
جامع مسجد گیان واپی کی تعمیر :گیان واپی کی مسجد شاہان شرقیہ کے زمانہ میں تعمیرہوئی اوردلچسپ بات یہ ہے کہ اس کی تعمیر نہ کسی بادشاہ نے کرائی ہے اورنہ عوامی چندے سے ا سکی تعمیرہوئی بلکہ اس کی تعمیرکاسہرا قاضی صدر جہاں جوابراہیم شاہ شرقی کے زمانہ میں صدرالصدور کے منصب پرفائز تھے ان کے ایک عزیز شاگرد کے سرہے، جنہوں نے اس وسیع اراضی کوجو ویران پڑی ہوئی تھی آباد کرنے کی کوشش کی اورایک مسجد کی بنیاد رکھی ،مرقع بنارس کے مصنف نے لکھا ہے’ یہ واقعہ ہے کہ سلطان ابراہیم شرقی جونپور کے صدرالصدور قاضی صدرجہاں اوران کے ایک متمول شاگرد نے نویں صدی ہجری میں یہ جامع مسجد حضرت عالمگیر ؒ کے جد امجد ہمایوں بادشاہ کے عالم وجودمیں آنے کے بہت پہلے بنوائی۔ ‘ (مرقع بنارس ص 24)
جامع مسجد کے سابق خطیب واما م مفتی عبدالباسط نے اس مسجد کی تاریخی حیثیت کو واضح کرنے کے لئے ایک کتابچہ میں اس کی تعمیرپر یوں روشنی ڈالی ہے’ اس کی تعمیرکازمانہ۸۰۴ھ؁ اور ۸۴۲ھ؁ کے درمیان ہے، یعنی اس کی تعمیر نویں صدی ہجری کے نصف اول میں ہوئی جبکہ عالمگیر ؒ کی حکومت کازمانہ گیارہویں صدی ہجری کانصف اخیر ہے ،اس طرح یہ مسجد اورنگ زیب عالمگیرؒ سے دوسو برس پہلے تعمیر ہوچکی تھی، اوراس میں باقاعدہ نمازجمعہ ہوتی تھی، مغلیہ دور کی ایک تاریخ جوفارسی زبان میں ہے اس مسجد کی تعمیرکاذکرہے ‘ (تاریخ کے آئینہ میں ص8؍)
شہنشاہ اکبرکازمانہ :اکبربادشاہ کازمانہ جب شروع ہوا تواس مسجد کی تعمیر پر تقریباً سو برس گزرچکے تھے اوراس مسجد کی حیثیت بنارس کی جامع مسجدکی تھی، دوردراز سے لوگ نماز کے لئے یہاں آتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ مسجد اکبرکے دین الٰہی کامرکز بن گئی تھی، اسی زمانہ کاایک تاریخی واقعہ ہے جس کوکم وبیش اس موضوع پر لکھنے والے سارے ہی اہل قلم نے تحریرکیا ہے جس سے اس کاثبوت ملتاہے کہ یہ جامع مسجد اکبرکے زمانہ میں تعمیرشدہ تھی اورآبادتھی، اس کی تفصیل اس دور کے ایک مشہور بزرگ شیخ ارشد جونپوری متوفی ۱۱۱۲ھ؁ کی زبانی سنئے جوعالمگیرکے دورحکومت میں تھے وہ یوں رقمطرازہیں’ شاہ صاحب (طیب بنارسی متوفی ۱۰۴۲ھ؁ خلیفہ مجاز مولانا عبدالحق محدث دہلویؒ ۱۰۵۲ھ؁ شہرکی جامع مسجد گیان بافی میں نمازجمعہ اداکیا کرتے تھے، ایک بارجب خطیب نے خطبہ جمعہ میں شہنشاہ اکبرکانام لیاتواس کانام سنتے ہی شاہ صاحب کوجلال آگیا ،آگے بڑھ کر خطیب کومنبرسے کھینچ لیا اورفرمایا خطبہ میں کافر کانام لیتا ہے، اتفاق سے شاہ صاحب کے ہمراہ اس وقت ان کے دونوں شیوخ مولانا خواجہ کلاں اورشیخ تاج الدین جھوسوی بھی تھے، شہر کے قاضی اورحاکم توشاہ صاحب سے ان کی ہیبت اورجلال کی بناء پر کچھ کہہ نہ سکے البتہ ان دونوں بزرگوں نے کہاکہ وہ بادشاہ کے نوکر ہیں اگربادشاہ کومعلوم ہوجائے گاکہ خطبہ سے نام خارج کردیاگیاہے توملازمت جائے گی ہی ان کے مکانات بھی مسمار کرادیے جائیں گے ،اس لئے وہ خطبہ میں اکبرکانام لینے پرمجبورہیں، خواجہ کلاں نے کہا کہ شاہ صاحب! آپ نمازجمعہ بجائے جامع مسجد گیان بافی کے منڈوا دیہہ میں آئندہ سے اداکریں۔ ایوان شریعت کاقیام : اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس مسجد کانہ صرف اکبرکے زمانہ میں وجود تھا بلکہ اس کی حیثیت ایک جامع مسجد کی تھی، جس میں ا س دورکے صلحائے امت دوردراز کے علاقوں سے نمازجمعہ کی ادائیگی کے لئے آتے تھے، مسجدکی یہ حیثیت برقراررہی یہاں تک کہ شاہ جہاں کے زمانہ میں جہاں بہت سے تاریخی عمارتیں بنائی گئیں وہیں بعض اہم مدرسہ بھی قائم کیے گئے، دہلی میں جامع مسجد سے متعلق ایک اہم مدرسہ دارالبقاء کے نام سے قائم کیاگیا، اسی طرح جامع مسجد گیان بافی کے زیرسایہ ایک اہم مدرسہ ’ایوان شریعت‘ بھی ۱۰۴۸ھ؁ میں قائم ہوا، اورگیان بافی مسجد کے احاطہ میں اس مدرسہ کاقیام مشرقی اضلاع میں علم دین کی ترویج کااہم ذریعہ بنا، اورنگ زیب عالمگیرؒ اور جامع مسجد گیان واپی : شہرکی آبادی کے پیش نظر جامع مسجد اپنی وسعت کے باوجود روزبروز تنگ پڑرہی تھی، ضرورت تھی کہ اس مسجدکی توسیع کی جائے، لہٰذا اورنگ زیب عالمگیر ؒ کے زمانہ میں اس مسجد کوخاص اہمیت دی گئی اورشہنشاہ اکبرکے زمانہ کی جامع مسجد کی عمارت پرموجودہ مسجد کی تعمیرہوئی جو سابقہ مسجد کے مقابلہ کافی وسیع اورلق ودق تھی،اس کے مشرق میں صدر دروازہ تھا اورمغرب کی طرف ایوان شریعت کی باقی پڑی ہوئی کھلی اراضی تھی جو آج بھی قائم ہے لیکن عملا مسلمانوں کے قبضہ میں نہیں ہے۔غلط فہمی کی وجہ : اس سے یہ معلوم ہواکہ اس مسجدکی تعمیر اورنگ زیب عالمگیرؒ کی پیدائش سے صدیوں پہلے مشرقی سلاطین کے زمانہ میں ہوئی تھی، البتہ اس کی توسیع کاکام اورموجودہ شاندارعمارت اورنگ زیب عالمگیرؒ کے زمانہ میں بنائی گئی اوراس کی تعمیر ثانی کاکتبہ بھی لگایاگیا جسے سید میراث علی نے جواس کے متولی تھے ۱۳۰۷ھ؁ میں نصب کرایا یہ کتبہ جامع مسجد انتظامیہ کے دفترمیں اب بھی رکھا ہواہے جس پر یہ عبارت کندہ ہے ’اول بحکم والادر ھ؁ (عبارت صاف نہیں) ازجلوس حضرت عالمگیر خلدمکاں ایں جامع مسجد تیارشدہ بعدہ در ۱۲۰۷ھ؁ سیدمیراث علی متولی موروثی مسجد موصوفہ مرمت صحن وغیرہ نمود‘
مسجد شہیدکرکے بنائی گئی : اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ کتبہ بعد میں لگایاگیا اورموجودہ عمارت کی تعمیر اورنگ زیب عالمگیرؒ کے زمانے میں ہوئی، لیکن وہ اصل بانی نہیں ہیں اورنہ ہی کوئی مندرتوڑکر مسجد بنائی گئی ہے، بلاشبہ مسجد شہیدکرکے مسجد بنائی گئی ،لیکن افسوس کہ اس تاریخی حقیقت کے باوجودآج یہی سمجھا یا اور بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد مہادیو جی کے مندر کے باقیات پر تعمیرکی گئی ہے جبکہ اسلام کی آمد سے بہت پہلے ہی بنارس کے مشہورمندروں کومسمار کیاجاچکاتھا، اوریہاں پرکوئی مندر تھا ہی نہیں اوراس حقیقت کوبنارس کے ہندومسلمان خوب سمجھتے تھے ،چنانچہ انگریزوں کی آمد سے پہلے ہندومسلمانوں کے درمیان اس مسجد کے تعلق سے کبھی کسی نزاع کاپتہ نہیں چلتا ،سب شیروشکر ہوکررہتے تھے، لیکن انگریزوں نے اپنی’ لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلمانوں کولڑانے کے لئے جہاں اجودھیا کی بابری مسجد کے قضیہ کو پیداکیا وہیں بنارس کی اس تاریخی مسجد کوبھی وجہ نزاع بنانے کی کوشش کی، اوراس مسئلہ میں کبھی کسی قسم کی مصالحت کی حوصلہ افزائی نہیں کی بلکہ وہ اپنی باطنی بغض کی وجہ سے برابر اس کو ہوا ہی دیتے رہے اورہندومسلمان لڑتے جھگڑتے رہے ،ہندوؤں نے اس سلسلہ میں کسی تحقیق کی ضرورت نہیں سمجھی بلکہ انگریزوں نے جوکچھ لکھ دیا اس کوحرف آخرخیال کیا، اس سلسلہ میں بابوکرشن پرساد ورما کاتجزیہ کتنا درست ہے’ ہم بھارتیوں میں بڑی کاہلی اس بات کی ہے کہ ہم دوسروں کی لکھی ہوئی باتوں کودہراتے ہیں لیکن اصلیت دریافت کرنے کی تکلیف کبھی گوارہ نہیں کرتے، انگریزی مؤرخین نے اپنی تاریخ وہیں سے شروع کی ہے جہاں سے ان کی قومی تاریخ شروع ہوتی ہے، اس لئے بشناتھ مندر کی تاریخ اگرانہوں نے اورنگ زیب عالمگیرؒ کی مسجد کی تاریخ سے شروع کی تو اس میں ان کی بھول نہیں کہی جاسکتی ،ہم ہندوؤں کے یہاں پران گرنتھ سب سے پرانی تاریخ ہے، اور ان پرانوں میں اسکند پران کے اندرموجود ہ کاشی کھنڈ سب سے پرانی اور صحیح تاریخ ہے ،افسوس ہے کہ اس پرانی تاریخ کے ہوتے ہوئے ہم نے اب تک پرانے مندرکاپتہ نہیں لگایا۔ ‘ (بحوالہ مرقع بنارس ص 177؍178؍)
نبی احمد سندیلوی لکھتے ہیں ’اس دلچسپ اورمدلل نوٹ کے پڑھنے کے بعدنتیجہ نکلتاہے کہ قدیم مندراس جگہ نہ تھا مگرانگریزی قبضہ کے بعدسیاحوں کوسمجھادیاگیا کہ اس مشہورمندر کی جگہ پرعالمگیر ؒ نے مسجد بنوا ڈالی اوراسی روایت پربھروسہ کرکے مؤرخین نے صفحہ کے صفحہ سیاہ کرڈالے، حالانکہ مسٹرورما یقینی طورپر لکھتے ہیں کہ قدیم مندرکی یہ جگہ نہیں ہے کاشی کھنڈ یہ ثابت کرتی ہے کہ قدیم مندراس جگہ نہ تھا اورایک معتبر مصنف لکھتا ہے کہ جامع مسجد سلطنت مغلیہ سے قبل تعمیر ہوئی ہے، ایسی صاف شہادت کے مقابلے میں بازاری خبروں پر اعتمادکرنے کی وجہ کوئی سربستہ راز ہے ،(مرقع بنارس ص 178)
سربستہ راز کیا ہے؟ سوال یہ پیداہوتاہے کہ وہ سربستہ راز کیا ہے جوآج تک حل نہ ہوسکا تو اس سلسلہ میں اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس کے سواکچھ نہیں کہ اس منافرت کے ذریعہ اقتدارکو مضبوط کیاجائے اوردہلی کا تخت مستحکم کیاجائے ،یہی انگریزوں نے کیا اورآج انہیں کے نقش قدم پرچل کر ملک کی فسطائی طاقتیں بھی کرنا چاہتی ہیں۔
آویزش کی ابتداء : سطوربالا سے پوری طرح یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ سوامی شنکراچاریہ کے بنارس آمد کے موقع پر بنارس میں بودھوں کے خلاف جوانتقامی کاروائی کی گئی اسی کے پیش نظر گیان بافی بودھوں کی خانقاہ بھی مسمار ہوگئی تھی، پھریہ جگہ ویران پڑی رہی، تقریباً پانچ صدیاں گزرجانے کے بعد شیخ سلیمان محدث نے اس جگہ مسجدتعمیرکرائی، اسوقت وہاں نہ کوئی مندر تھا اورنہ ہی دیگرآبادیاں، اسی لئے ہندومسلمان جوایک ساتھ رہتے تھے، ان کے مابین کبھی اس مسجد کے تعلق سے کوئی تصادم نہ ہوا، لیکن جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیرسایہ انگریزوں کاتسلط قائم ہوا اورروز بروز ان کی قوت برصغیرمیں مستحکم ہوتی گئی توانہوں نے نواب اودھ سے غازی پور،بنارس اورجونپور کے مشرقی اضلاع بھی بزورحاصل کرلئے اوریہاں اپنا نمائندہ مقرر کردیا، بنارس کاناظم انگریزوں نے نواب ابراہیم علی خان کو مقرر کیا، جنہوں نے اپنے زمانہ میں دھورہرہ کی جامع مسجد کی تعمیرجدیدکی، یہ مسجدبھی بڑی عالیشان ہے جوگنگا کے مشہورگھاٹ پنج گنگاگھاٹ کے پاس واقع ہے ،یہ مسجد خالص ہندوؤں کے محلہ میں واقع ہے، اس کے مینارے ایک سوبیالیس فٹ بلند تھے، انگریزوں نے ا س مسجد کے ذریعہ ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید جذبات پیداکیے ان کی عزت وناموس پر بالواسطہ حملہ قراردیا، چنانچہ ایک انگریز سیاح لکھتاہے ’پنج گنگاگھاٹ والی مسجد خوبصورت اورسادی ہے، مسجد کی سطح سے میناروںکی بلندی 142 فٹ ہے ،اوران کے بلند ہونے کاسبب یہ ہے کہ گھروں کی بے پردگی ہو اوروہاں کے حالات معلوم ہوتے رہیں (مرقع بنارس ص 182)
یہ بھی لکھ دیاگیا ہے کہ وشنودیوتا کے ایک مندر کے مسالہ سے جوگنگاکے کنارے تھا یہ مسجد تعمیر کی گئی ہے، لیکن ابھی تک بات مکمل نہیں ہوئی تھی چنانچہ یہ بات کہہ دی گئی، کہ ’کہاجاتا ہے کہ اورنگ زیب ؒ نے تخت نشین ہونے کے 1067ھ؁ گیارہویں سال 1079ھ؁ میں بندیا ھو کے مندر کومنہدم کرکے یہ مسجد بنوائی ‘ ( کتاب کاشی مطبوعہ کرسچن سوسائٹی مدراس)
رانی اہلیا بائی کا کردار : بات ابھی یکطرفہ تھی اس مسجد کی آڑمیں بیک وقت دوشکار مقصودتھے ،چنانچہ رانی اہلیا بائی کو اشارہ دیاگیا کہ گیان بافی کے احاطہ میں جانب دکھن وشوناتھ مندر تعمیر کی جائے، انگریزوں کی شہ پر جب یہ کام شروع ہواتو مسلمانوں نے اس پراحتجاج کیا، لیکن اس کاجواب سنگینوں سے دیاگیا، اسی مسلمان شہیدہوگئے، اس کے ردعمل میں پورے شہرمیں زبردست فسادہوا، جس میں مسلمانوں کے جانی اورمالی نقصان کے ساتھ 50سے زائد مسجدوں کوشہید کردیاگیا، یاشدید نقصان پہنچایاگیا اوریہ سلسلہ مہینوں چلتارہا، انگریزوں نے زیر تعمیرمندر پرفوج لگادی اورمندرکی تعمیر فوج کی نگرانی میں مکمل ہوئی اور اس طرح گیان بافی کایہ احاطہ ایک متنازعہ مقام بن گیا اورہندومسلمان دونوں کوہمیشہ کے لئے مدمقابل لاکر کھڑاکردیاگیا، انگریزوں کی حکمت عملی کامیاب ہوئی ،وہ ایسی تاریخ چھوڑگئے جس کی عفونت سے زندگی کے صحت مند اجزاء متاثرہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
رفتہ رفتہ اس احاطہ میں کئی اورعمارتیں مسجد سے بالکل متصل مزیدبنائی گئیں، مسجد کامشرقی صدردروازہ بندکردیاگیا، بالآخرمسلمانوں کو شمال میں ایک چھوٹا سادروازہ آمدورفت کے لئے کھولنا پڑا جو آج بھی قائم ہے، مسجدکے مغربی حصہ پربھی جہاں ایوان شریعت کے باقیات تھے ،عملاً قبضہ کرلیاگیا اور پھر پوری ڈھٹائی سے یہ دعوی کیاجانے لگا کہ یہ مسجد اصلا مہادیو جی کے مندرپرواقع ہے اور اورنگ زیب عالمگیرؒ نے اپنے عہد میں اس کوتوڑکر بنایاہے، آج انگریزوں کالگایاہوا یہ شیطانی درخت تناور ہوچکاہے اورایک جماعت مسلسل اپنے جھوٹ اورفریب سے اس کوسینچے جارہی ہے اوراس طرح ملک کاامن وامان خطرہ سے دوچارہے، یہ ملک وقوم کے ساتھ بے وفائی اورغداری ہے کہ قوم کو صحت مند رجحانات سے دوررکھا جائے ،چونکہ ملک کوبابری مسجد کی شہادت کی بڑی قیمت چکانی پڑی ہے، لہٰذا ارباب حکومت کو چاہئے کہ یہ سبق نہ دہرایاجائے اورہرایسے عناصرپر کڑی نظررکھی جائے، تاکہ ملک ترقی کرے اوردنیامیں سب سے بڑی جمہوریت کے عنوان سے اس کی قدر وقیمت باقی رہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS