نئی دہلی (ایس این بی) : جامعہ نگر اوکھلا اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی دی گئی اشتعال انگیز تقریر کے معاملے میں جواہر لعل نہر یونیورسٹی (جے این یو ) کے طالب علم شرجیل امام نے ہائی کورٹ میں ضمانت عرضی داخل کی ہے۔جسٹس سدھارتھ مردگل اور جسٹس انوپ کمار مہدی رتہ کی بنچ نے اس معاملے میں دہلی پولیس کونوٹس جاری کرکے 10 دنوں میں جواب دینے کیلئے کہا ہے اور سنوائی 24مارچ کیلئے ملتوی کردی ہے۔ شرجیل امام نے مبینہ طور سے یہ اشتعال انگیز تقریر شہریت ترمیم قانون (سی اے اے ) اور نیشنل سٹیزن رجسٹر (این آر سی ) کے خلاف 2019میں چلی تحریک کے دوران کی تھی ۔
بنچ نے سنوائی کے دوران ذیلی عدالت کے فیصلے پر کئی سوال اٹھائے ۔اس نے کہا کہ ذیلی عدالت نے کچھ بھی نہیں کیا ہے۔عرضی گزار پر، جو الزام لگائے گئے ہیں ،ان سبھی میں زیادہ سے زیادہ 7 سال کی سزا کی تجویز ہے۔ہم پولیس سے پوچھ رہے ہیں کہ اسے ضمانت کیوں نہیں دی جائے۔ بنچ نے پولیس سے یہ بھی پوچھا کہ کیا شرجیل امام کے بھاگنے کا خطرہ ہے اور کیا وہ ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرسکتا ہے، معاملے میں گواہ کون ہیں ؟ اسپیشل پبلک پروسیکوٹر امت پرساد نے جواب دیا کہ شرجیل امام پر آئی پی سی کی دفعہ 124A (ملک سے غداری ) کے تحت بھی الزام لگائے گئے ہیں۔ اس میں عمر قید کی سز ا ہوتی ہے ۔بنچ نے کہا کہ ملک سے غداری کیلئے تشدد کرنے کیلئے خصوصی اپیل کی ضرورت ہوتی ہے۔اس ایشو سے عدالت بہت پہلے نپٹ چکی ہے ۔بنچ نے کہا کہ اگر ملزم کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے اور سزا سنائی جاتی ہے تو یہ الگ بات ہے، لیکن الزام ثابت ہونے سے پہلے عدالت کے پاس اسے حراست میں لینے کیلئے ضروری اسباب ہونے چاہئیں ۔ہمیں نہیں پتہ جانچ کب تک چلے گی۔
عدالت نے شرجیل امام سے بھی پوچھا کہ اگر وہ امام کو ضمانت پر رہا کرنے پر غور کرتی ہے تو یہ کیسے پتہ چلے گا کہ ضمانت ملنے کے بعد وہ دوبارہ اس طرح کی تقریر کرنے کے کارنامہ میں شامل نہیں ہوگا ۔امام کے وکیل تنویر احمد میر نے جواب دیا کہ وہ پچھلے 25مہینوں سے حراست میں ہیں ۔مستقبل قریب میں مقدمہ ختم ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ 170سے زیادہ گواہوں سے پوچھ تاچھ کی جانی ہے ، وہیں مقدمہ ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے، اس لئے اسے ضمانت پر رہا کردیا جائے ۔