عبدالماجد نظامی
محبت رسولؐ کے دعویٰ کے ساتھ دو گمراہ نوجوانوں نے ریاست راجستھان کے شہر ادے پور میں درزی کے پیشہ سے وابستہ کنہیا لال تیلی کے ساتھ قتل جیسے جس بھیانک اور غیر انسانی سنگین جرم کا ارتکاب کیا اس نے پورے ملک کو سکتہ میں ڈال دیا ہے۔ اس واقعہ سے جہاں ایک طرف انتہا پسند ہندوتو عناصر کو مسلم اقلیت مخالف پروپیگنڈہ کے لئے کارگر ہتھیار مل گیا ہے وہیں دوسری طرف اس ملک کا ہر امن پسند اور دستوری اصول و ضوابط میں یقین رکھنے والا ہندوستانی یہ سوچ کر دنگ ہے کہ آخر ملک نفرت و انارکی اور لاقانونیت کی جس ڈگر پر گزشتہ کئی برسوں سے چل پڑا ہے اس کی آخری منزل کیا ہوگی اور باشندگانِ ملک کو اب مزید کتنی قربانیاں پیش کرنی ہوں گی تاکہ ارباب اقتدار کو ہوش آئے اور وہ ان آئینی ذمہ داریوں کی تکمیل میں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں جن کی خاطر اس ملک کے عوام نے انہیں منتخب کیا ہے۔ ادے پور میں جو دل دوز سانحہ پیش آیا ہے وہ اپنی نوعیت کا کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے البتہ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ 2014 کے بعد ملک فرقہ وارانہ نفرت انگیزی کے جس گہرے دلدل میں پھنس گیا ہے یہ واقعہ اسی نفرت کی بدترین شکل ہے۔ یہ برادر کشی کے اسی کلچر کی پیداوار ہے جس نے گزشتہ چند برسوں میں اس ملک کے اندر آپسی نفرت کا ایسا الاؤ روشن کر دیا ہے جس میں سے مسلسل صرف بدبودار کوئلہ ہی نکل رہا ہے اور ہندوسانی تہذیب و ثقافت، بقاء باہم کی طویل تاریخ، انسانیت اور اخوت و محبت و ہمدردی کی ہر شاخ گل کو جلاکر روزانہ جنازوں کا ڈھیر تیار کر رہا ہے۔ نفرت و بے مروتی کی جو آگ جلائی گئی ہے اس کا شکار صرف مسلمان ہی نہیں ہو رہا ہے بلکہ اس ملک کا ہر وہ کمزور طبقہ ہو رہا ہے جو سماج کے حاشیہ پر شب و روز مشقتیں جھیلتا ہے اور اپنے اہل و عیال کے نڈھال و غم آگیں چہرہ پر خوشی کی چند کرنیں بکھیرنا چاہتا ہے۔ وہ کبھی ارباب اقتدار کی راہ کا کانٹا نہیں بنتا اور نہ ہی اس میں اتنی سکت ہے کہ وہ پاور کے متوالوں کے جنونی بلڈوزر کو روک سکے۔ وہ تو بس اپنے رب سے اتنی دعائیں اپنے تھرتھراتے ہوئے ہونٹوں پر لئے جیتا ہے کہ کسی سیاسی جلاد کی نظر اس کے محلہ و علاقہ اور اس کے اہل و عیال پر نہ پڑ جائے۔ ہندوستان کا یہ بے کس و مجبور طبقہ کبھی اخلاق احمد ہوتا ہے جو دارالسلطنت کی چکاچوند سے دور اپنے گاؤں میں دو وقت کی روٹی سْکھ سے کھانا چاہتا ہے اور تمام جھمیلوں سے دور رہنا چاہتا ہے۔ لیکن کیا اس ملک کا وہ طبقہ اخلاق کو سکون سے جینے دینا چاہتا ہے جس کی سیاسی بھٹی میں کمزور و بیکس انسانوں کی صرف تمنائیں ہی نہیں بلکہ اس کی زندگی اور اس کا وجود تک جھونک دیا جاتا ہے تاکہ اہل سیاست اور پالیسی سازوں کے گھر کے قمقمے روشن رہ سکیں؟ آخر کب تک کسی اخلاق کے طعام ومشروبات تک کو نشانہ بناکر اس کی زندگی کو ختم کی جاتی رہے گی؟ اور بات صرف اخلاق احمد ہی کیوں کی جائے؟ بھلا کون سا ایسا بے کس طبقہ ہے جس نے ظلم و بربریت کے بیوپاریوں کی گھناؤنی حرکت کی قیمت نہیں چکائی ہے؟ آخر اس ملک نے یہ بھی تو دیکھا ہے کہ تعلیم و تربیت کے اعلیٰ اداروں تک میں بھی کمزور طبقوں کے حقوق کو پامال کیا گیا ہے۔ اس ملک کو ہر قدم پر قیادت فراہم کرنے والے ادارہ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے نجیب غائب ہوگیا لیکن آج تک پتہ نہیں چل سکا ہے وہ کہاں گیا۔ اس کی ماں دلی کی سڑکوں پر بلکتی رہی اور اپنے بچہ کو واپس پانے کی گزارشیں کرتی رہی، حکومت کے گلیاروں میں چیختی رہی اور انصاف کی دْہائیاں دیتی رہی لیکن پورا سسٹم بے حس بنا رہا اور اتنی اخلاقی ذمہ داری تک نہیں نبھائی کہ ایک ماں کو یقین دلا دے یا تسلی کے دو الفاظ کہہ دے کہ آپ کے لخت جگر کو ڈھونڈنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی۔ اس کے برعکس اس کی فائل کو بند کر دیا گیا اور اس کے ملنے کے تمام دروازے بند کر دیے گئے۔ یہی حال یونیورسٹی آف حیدرآباد کے پی ایچ ڈی اسکالر روہت ویمولہ کا ہوا۔ جدا تو روہت ویمولہ بھی اپنی ماں سے ہوا۔گرچہ اس کی نوعیت الگ تھی البتہ اس کی موت کا ذمہ دار وہی سسٹم تھا جو انصاف کے سارے دروازے ایک عام ہندوستانی کے سامنے بند کر دیتا ہے۔ 2015 میں یونیورسٹی آف حیدر آباد نے روہت ویمولہ کا وظیفہ بند کر دیا۔ اس کی ہزار کوششوں کے باوجود یہ وظیفہ جاری نہیں کیا گیا اور سسٹم کے جنجال میں ایسا پھنسا دیا گیا کہ اس حساس نوجوان نے اپنے ارد گرد سماج کی پھیلی ہوئی سڑاند سے منہ موڑ لینے اور احتجاج کے طور پر اپنی زندگی ختم کرلینے کا فیصلہ کر لیا۔ وہ بھی ایک قتل تھا جس کی ذمہ داری آج تک طے نہیں کی گئی۔ روہت ویمولہ اور اس کے اہل خانہ کا ماننا ہے، اس کو صرف اس لئے ہراساں کیا گیا اور انصاف نہیں ملا کیونکہ وہ سماج کے سب سے بیکس و بے بس طبقہ یعنی دلت ذات سے تعلق رکھتا تھا۔ حقیقت جو بھی ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ عام انسان اس ملک میں ہر روز قسم قسم کی اموات کا مزہ چکھتا ہے۔ وہ کبھی یونیورسٹی کے کیمپس میں گھٹن محسوس کرتا ہے تو کبھی ریل گاڑی اور بس میں سفر کے دوران اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے یا بے رحمی سے پیٹ پیٹ کر اس کی جان لے لی جاتی ہے جیسا کہ سولہ سال کے حافظ جنید کے ساتھ ہوا۔ کبھی عام ہندوستانی کو درخت سے باندھ کر وحشیانہ طریقہ سے مارا پیٹا جاتا ہے اور اس کو مجبور کیا جاتا ہے وہ جے شری رام کے نعرے لگائے ورنہ جینے کا حق چھین لیا جائے گا۔ جھارکھنڈ کے تبریز انصاری کے ساتھ ہندو جنونیوں نے جو کیا تھا وہ جرم بھی اپنی سنگینی میں اسی درجہ کا تھا جس کا ارتکاب ادے پور میں مسلم مذہبی جنونیوں نے کیا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہر سطح پر ادے پور کے مجرموں کی نہ صرف مذمت کی ہے بلکہ قانون کے ہاتھوں اسے سخت سزا کی اپیل بھی کی ہے۔ اس کے برعکس تبریز انصاری کے مبینہ قاتلوں کو جب ضمانت پر عدالت سے رہائی ملی تو اس کا استقبال ہارورڈ کے گریجویٹ اور بی جے پی کے لیڈر نے پھول مالا سے کیا تھا۔ یہ ملک اس درد ناک حادثہ کو بھی نہیں بھولا ہے جس کا ارتکاب اسی راجستھان میں افراضل کے حق میں شمبھولال ریگر نے کیا تھا۔ شمبھولال ریگر نے اس دل دوز قتل کی ویڈیو گرافی بالکل اسی طرز پر کی تھی جس طرز پر محمد ریاض اور غوث محمد نے کی تھی۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ شمبھولال کی حرکت کو ہندوتو عناصر نے صرف سراہا ہی نہیں بلکہ اس کو ہیرو کی طرح پیش کیا گیا اور اس کے لئے چندے اکٹھے کئے گئے۔ اتنے پر ہی بس نہیں ہوا بلکہ خود شنبھولال نے جودھ پور جیل سے ایک مزید ویڈیو جاری کیا جس میں اس نے اپنا یہ بیان درج کیا کہ اسے اپنی حرکت پر کوئی پچھتاوا نہیں ہے۔ ملک کے طول و عرض میں نہ جانے کتنی ایسی نا انصافیاں ہوئی ہیں جن میں نوح کے اکبر خان اور پہلو خان بھی شامل ہیں اور دہلی فساد کے فیضان بھی۔ ان تمام جرائم میں بالواسطہ یا بلا واسطہ طور پر ان ارباب اقتدار کو ذمہ دار مانا جانا چاہئے جنہوں نے اس ملک کے باشندوں کو نفرت کے آتش فشاں پہاڑ پر لاکر بٹھا دیا ہے۔ باضابطہ ڈھنگ سے جس طرح پوری مسلم اقلیت کو کٹہرہ میں کھڑا کر دیا گیا ہے اس سے ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی ہے۔ نوپور شرما معاملہ کو زیادہ حساس طریقہ سے حل کیا جا سکتا تھا لیکن اس کے برعکس پوری کمیونٹی کو مجرم مان کر اجتماعی سزا کا حق دار قرار دیا گیا۔ پولیس اور انتظامیہ اپنی دستوری اور قانونی ذمہ داریاں نبھانے کے بجائے اپنے سیاسی آقاؤں کے چشم و ابرو کے اشاروں پر ناچنے لگے ہیں۔ راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت کی بات بالکل درست ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو نفرت کے ماحول کے خلاف اپنا ایک بیان جاری کرنا چاہئے کیونکہ ان کی بات کا کافی وزن ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم نے اب تک اس اپیل پر توجہ نہیں دی ہے جو نہایت مایوس کن ہے۔ ادے پور ہو یا بلبھ گڑھ اور جھارکھنڈ ہر جگہ در اصل نفرت کی وہی سیاست کارفرما ہے جس کو ہندوتو کے پرستاروں نے اس ملک میں بڑھاوا دیا ہے اور اس کے سیاسی فائدے بھی حاصل ہو رہے ہیں۔ جب تک اس سیاست کا رخ مکمل طور پر ہندوستان کے آئین کی طرف نہیں موڑا جائے گا اس کا شکار کبھی کنہیا لال تیلی ہوگا تو کبھی افراضل اور اخلاق احمد۔ اس میں اگر مذہبی تعلیمات کی روح سے ناواقفیت کا پہلو بھی شامل ہوجائے تو پھر جنون اپنے انتہا کو پہنچ جاتا ہے اور ایسا ہی کچھ ادے پور میں بھی ہوا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]