شاہد زبیری
18ویں لوک سبھا کے انتخابات کا چھٹا مرحلہ بھی مکمل ہو چکا ہے بس ساتویں مرحلہ کی ایک چھوٹی سی جست 4جون کے درمیان باقی ہے، اس کے بعد ملک کا سیا سی منظر نامہ تبدیل ہو گا اور ہو گا بھی تو کتنا، لیکن یہ طے ہے کہ کلی نہ سہی جزوی تبدیلی تو آئے گی ہی۔ ’انڈیا‘کی سرکار بنے تب بھی اور بی جے پی اگر اقتدار میں رہے تب بھی تبدیلی تو آئے گی، یہ کتنی مثبت اور کتنی منفی ہو گی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ اسی طرح جمہوریت اور آئین کی با بت جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے وہ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد کتنا سچ ثابت ہو گا یہ آنے والا وقت بتائے گا ۔ آزادی کے بعد ایسا پہلا لوک سبھا کا انتخاب ہے، جس میں کانگریس نے شاید پہلی مرتبہ سنگھ اور بی جے پی پر اتنی مضبوط نظریاتی یلغار کی ہے جس سے سنگھ اور بی جے پی کو دفاعی پوزیشن میں لا کھڑا کیا۔ خاص طور پر راہل گاندھی نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ اور تانا شاہی کے خدشات کے بیانیہ کو جو تقویت دی اس کی امید نہیں تھی کہ یہ بیانیہ سیاست کے مرکز میں آجا ئے گا۔ اس بیانیہ کی جگہ لینے کے لئے بی جے پی اور مودی جی سے جب کچھ نہیں بن پڑا تو نزلہ بہ عضو ِ ضعیف کے مصداق مسلمانوں کے خلاف ہی محاذ کھول دیااور اس محاذ پر مودی جی ، امت شاہ اور یو گی آدتیہ ناتھ تینوںنے کانگریس کے بہا نے مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی میں کوئی کمی نہیں چھوڑی اورکانگریس کو مسلم پرست پارٹی ثابت کر نے کیلئے ایڑی چو ٹی کا زور لگا دیا اور دلتوںو پسماندہ طبقات ہی نہیں عام ہندو اکثریت کے دل میں مسلمانوں کا ڈر بٹھا نے اور اکثریت کو اقلیت کے خوف میں مبتلا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ کانگریس اور انڈیا الائنس کے لیڈروں نے آئین اور جمہوریت کے تحفظ کو مرکزی نکتہ بنا نے کے علاوہ پہلو بہ پہلو بیروزگاری، سرکاری ملازمت اور مہنگائی کے ایشوز کو انتخابی موضوع بنا یا، لیکن بی جے پی نے اس طرف سے توجہ ہٹانے کیلئے مسلمانوں کو مشقِ ستم بنا نے کے علاوہ پاکستان کو بھی انتخابات میں کھنچ لیا، پاکستان کے ایک بڑے لیڈر اور سابق منصب دار نے راہل گاندھی کی تعریف کی تو بی جے پی نے اس کی خوب تشہیرکی اور الزام لگا یا کہ پاکستا ن سے کانگریس کی ڈور مل رہی ہے۔ انتخابات کی مہم کے آخری مراحل میں وزیرِ داخلہ امت شاہ نے ایک انتخابی ریلی میں کہا کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر ہمارا ہے ہم اسے لے کر رہیں گے اور پاکستان کے ایٹم بم سے ہم ڈریں گے نہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ہمارے وزیرِ داخلہ نے 2014اور 2019 کے انتخابات میں اس اہم ایشو کو جو عالمی ایشو ہے کیوں نہیں اٹھا یا، اس سے تو یہی لگتا ہے کہ وزیرِ داخلہ کا یہ بیا ن صرف انتخابی شگوفہ ہے۔ دنیا جا نتی ہے کہ پاکستان جس کو آزاد کشمیر کہتا آرہا ہے ہمارے ملک اور عوام نے اس کشمیر کو ہمیشہ مقبوضہ کشمیر ہی مانا ہے۔کشمیر ہندوستان کا جزو لاینفک یا یوں کہیں کہ اٹوٹ انگ ہے ۔ ہندوستا ن کبھی اس دعویٰ سے دستبردار نہیں ہوا اور نہ کسی بیرونی مداخلت کو تسلیم کرتا ہے۔ 2019کے انتخابات میں سب کو یہ لگ رہا تھا کہ بی جے پی کا اقتدار ختم ہو نے والا ہے اچا نک پلوامہ کا سانحہ رو نما ہو گیا اور بی جے پی نے انتخابات میں اس ایشو کو خوب بھنا یا ہم یہاں پلوامہ پر کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انکشافات کا ذکر نہیں چھیڑ ناچا ہتے، صرف یہ عرض کرنا ضرو ری سمجھتے ہیں ہماری سیا سی پارٹیاں اور سیاسی لیڈر کب کس جذباتی ایشو کو اپنے اقتدار کا زینہ بنا لیں کچھ کہا نہیںجا سکتا ۔کشمیر کو بی جے پی کے ذریعہ انتخابی حربہ بنا نا اس کی تازہ مثال ہے۔
سچ یہ ہے کہ بی جے پی نے 2024 کی اپنی انتخابی مہم پورے طور منفی طرز پر لڑی ہے اس نے اپنے انتخابی منشور کی تشہیر کے مقابلہ کا نگریس کے انتخابی منشور کی تشہیر زیادہ کی اورکانگریس کے انتخابی منشور کو مسلم لیگ کا منشور بتا یا ۔آزادی سے پہلے عبوری سرکار میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں شامل رہی ہیں جبکہ بی جے پی کے بانی شیاماپرساد مکھرجی بنگال میں مسلم لیگ کی حمایت والی ہندو مہا سبھا کی سرکار میں وزیر رہے ہیں۔ ہندو مہا سبھا سندھ میں بھی مسلم لیگ کے ساتھ مل کر سرکاربنا چکی ہے۔ بی جے پی اور وزیرِ اعظم نریندر مودی انتخابی مہم میں کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا منشور بتا کر کانگریس کو گھیر نے کی کو شش میں ناکام دکھا ئی دیے۔ ہند وستان کی 18ویں لوک سبھا کا یہ انتخاب شاید ایسا پہلا انتخاب ہے کہ بی جے پی پوری انتخابی مہم کے دوران پولرائزیشن میں رنگی ہو ئی نظر آئی ۔ملکار جن کھرگے، راہل گاندھی ، پرینکا گاندھی ،اکھلیش یادو اور تیجسوی یادو کے ساتھ اروند کجریوال بی جے پی اور خاص طور پر وزیرِ اعظم نریندر مودی پر حملہ آور رہے۔ بنگال میں تنِ تنہا ممتا بنرجی بی جے پی سے لوہا لیتی رہی ہیں۔اس پوری انتخابی مہم میں مسلم ووٹروں نے بھی بے مثال صبر وتحمل اور ہوشمندی کا مظاہرہ کیا اور یہ جا نتے ہوئے بھی کہ ’انڈیا‘ نے مسلمانوں کو ٹکٹ دینے میں انتہائی بخل سے کام لیا اور اس کو انتخابی حکمت عملی کا نام دیا، باوجود اس کے مسلمانوں نے اپنی پوری طاقت ’انڈیا‘کے امّیدواروں اور ممتا بنرجی کے امّیدواروں کے حق میں جھونک دی اور جھولیاں بھر بھر کر ووٹ دئے۔ بی جے پی نریندر مودی ، امت شاہ اوریو گی آدتیہ ناتھ کی اشتعال انگیزی پر کسی ردِّ عمل کا اظہار نہیں کیا، یوگی آدتیہ ناتھ نے تو انتخا بی مہم کے دوران فخریہ کہا کہ ہم نے مائک پر اذان بند کرادی اور سڑکوں پر نماز پر پابندی لگا دی اس پر بھی مسلمان خاموش رہے۔ کشمیر کے قدآور لیڈر غلام نبی آزاد نے ضرور یہ کہا کہ اذان پر پابندی ممکن ہی نہیں آج نہیں تو کل یہ پابندی ختم ہو گی۔ اس کے لئے انہوں نے کشمیر کے ماضی کے کسی حکمراں کا بھی حوالہ دیا اور کہا کہ اس نے بھی اذان پر پابندی لگا ئی تھی لیکن آج کشمیر میں یہ پابندی ختم ہو گئی ہے ۔ان انتخابات کی ایک خاص بات یہ رہی کہ بی جے پی کے تمام ہتھکنڈوں اپوزیشن کے بڑے لیڈروں کی گرفتاری ،اثاثوں پر پابندی کے باوجود اپوزیشن جماعتوں نے بڑی پامردی کے ساتھ بی جے پی سے دودو ہاتھ کئے ہیں ۔انتخابی تجزیہ کار اور مبصر یہ مان رہے ہیں کہ مقابلہ برا بر کا ہے اور ٹکر آمنے سامنے کی ہے بی جے پی کیلئے جیت درج کرآنا آسان نہیں ہے اور 400پار کا خواب تو بی جے پی کیلئے خوابِ پریشاں رہے گا ۔اس پوری انتخابی مہم میں چیف الیکشن کمشنر کے کردار پر سوال کھڑے کئے گئے اس سے پہلے کوئی چیف الیکشن کمشنراتنا متنازع نہیں رہا، جتنا 2024کے لوک سبھا کے انتخاب کے دوران موجودہ چیف الیکشن کمشنرہیں ۔حال یہ ہے کہ مودی اور شاہ کی مسلمانوں کی دل آزاری اور الیکشن کو مذہبی اور فرقہ وارانہ رنگ دینے پر سوال پوچھنے کی ہمّت ہی نہیں دکھائی، سوائے بی جے پی صدر کے نام مکتوب ارسال کرنے کے جس میں کہا گیا کہ وہ اپنے اسٹار کمپینروں پر لگام رکھے، چیف الیکشن کمشنر نے مودی اور امت شاہ اور یو گی آدتیہ ناتھ کیخلاف کوئی ایکشن نہیں لیا اور یہ سوال چیف الیکشن کمشنر سے پوچھا جا رہا ہے ۔ الیکشن کمیشن کے جاری کردہ انتخابی ضابطہ اخلاق ہی نہیں اخلاقی اقدار کی بھی دھجیاں خوب اُڑا ئی گئیں جس کو لوگ بھول نہیں پائیں گے، الیکشن جس طرز پر لڑاگیااور فرقہ واریت کا زہر پورے سماج میں پھیلا یا گیاوہ ہندوستانی مزاج اور جمہوری اقدار سے میل نہیں کھا تا آخر اس کیلئے کس کو ذمّہ دار ٹھہرا یا جا ئے سوال یہ ہے ؟۔
[email protected]