3 یوروپی ممالک کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے عوامل: اسد مرزا

0

اسد مرزا

آئرلینڈ ناروے اور اسپین کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اقدام فلسطینی ریاست کے لیے ایک مثبت پیش رفت ثابت ہو سکتا ہے،تاہم اس سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ آیا یہ اقدام فلسطینی شہریوں کے قتل عام سے ہمدردی کے لیے کیا گیا ہے یا اس کارروائی کا ردِعمل ہے، جس میں سات یوروپی امدادی کارکنوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ آئرلینڈ، ناروے اور اسپین نے اعلان کیا ہے کہ وہ 28 مئی سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کریں گے۔ اسپین کا کہنا ہے کہ فیصلہ ’’اسرائیل کے خلاف نہیں ہے‘‘ اور ’’حماس کے حق میں نہیں ہے… یہ امن کے حق میں ہے۔‘‘ جوابی کارروائی میں اسرائیل نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔ فلسطینی وزارت خارجہ، پی ایل او اور حماس نے آئرلینڈ، ناروے اور اسپین کے اقدام کا خیر مقدم کیا ہے۔ اقوام متحدہ کے کم از کم 140 ارکان پہلے ہی فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں، لیکن برطانیہ یا امریکہ اس تحریک میں شامل نہیں ہیں۔
بہاماس، ٹرینیڈاڈ اور ٹوباگو، جمیکا اور بارباڈوس نے اس سال کے شروع میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔ 15 نومبر 1988 کو، پہلی انتفاضہ کے ابتدائی سالوں میں، فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے چیئرمین یاسر عرفات نے الجزائر سے فلسطین کا ایک آزاد ریاست کے طور پر اعلان کیا تھا، جس کا دارالحکومت یروشلم تھا، اور الجزائر فلسطین کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے والا پہلا ملک بن گیاتھا۔ فلسطین کو تسلیم کرنے والے بیشتر یوروپی ممالک نے سابق سوویت بلاک کے حصے کے طور پر ایسا کیا جس سے پوری دنیا میں یہ تعداد 143 ہو گئی۔ ہندوستان نے 1988 میں فلسطینی ریاست کو تسلیم کیا تھا۔ اپنے مربوط اعلانات میں،ا سپین، ناروے اور آئرلینڈ نے 28 مئی کو فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کی نقاب کشائی کی۔ ناروے کے وزیر اعظم جوناس گہرا سٹور نے کہا کہ دو ریاستی حل ’’واحد متبادل‘‘ ہے۔ جبکہ آئرلینڈ کے وزیر اعظم سائمن ہیرس نے کہا کہ اس فیصلے سے ’’پرامن مستقبل‘‘ بنانے میں مدد ملے گی۔ فلسطینی رہنماؤں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا – پی ایل او نے اسے ’’تاریخی لمحہ‘‘ قرار دیا۔

آئرش حکومت کا اعلان کوئی تعجب کی بات نہیں ہے، یہ مہینوں سے زیر بحث رہا ہے، جس کے بعد آئرلینڈ حکومت نے سوچا کہ اب نہیں تو کب؟ اور اس نے اس کا اعلان کردیا۔ اسرائیلی حکومت نے ناروے اور آئرلینڈ کے اعلانات پر فوری رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اوسلو اور ڈبلن سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیاہے۔اوسلو کے بیان میں دو بار یہ دلیل دی گئی ہے کہ وہ دونوں طرف سے ’’اعتدال پسند قوتوں‘‘ کو فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ ایک مفلوج امن عمل کو بحال کیا جا سکے۔ ناروے مغربی کنارے میں اسرائیل کی آباد کاری کی پالیسی پر سخت تنقید کرتا ہے، اور وہ 1993 کے اوسلو معاہدے کے ناکام ہونے کے بعد سے اپنی امن حکمت عملی کو تسلیم کرانا چاہتا ہے۔ ناروے خاص طور پر سعودی عرب کے ساتھ وسیع تر امن معاہدے کے لیے کام کر رہا ہے اور اس بات پر زور دیتا ہے کہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اس کا فیصلہ اسی تناظر میں آیا ہے۔

دریں اثنا، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے UN میں فلسطین کے حقوق میں اضافہ کیا ہے اور گرما گرم بحث کے بعد اسے رکن کے طور پر قبول کرنے پر زور دیا ہے۔فلسطین کو 2012 سے UN میں غیر رکن مبصر ریاست کا درجہ حاصل ہے، جو مکمل رکن کے کچھ حقوق کی کمی کی اجازت دیتا ہے۔ رکنیت کا فیصلہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی کر سکتی ہے۔ جمعہ17مئی کو ہونے والے ووٹ کو اسرائیل کی سخت مخالفت کے باوجود اقوام متحدہ کے مکمل ادارے کی طرف سے فلسطینیوں کی حمایت کے اشارے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس نے قرارداد کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ سلامتی کونسل میں اس مسئلے پر ایک اور ووٹ کے لیے فلسطینی کوششوں کی حمایت کرتا ہے۔ تاہم اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر گیلاد اردان نے کہا کہ ادارے نے اپنی صفوں میں ایک ’’دہشت گرد ریاست‘‘ کا خیرمقدم کیا ہے۔ نیز، بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے پروسیکیوٹر دفترنے حماس کی قیادت کے ساتھ ساتھ اسرائیلی رہنماؤں بشمول وزیر اعظم نیتن یاہو کے خلاف گرفتاری کے وارنٹ طلب کرکے، 7 اکتوبر 2023 سے ہونے والے جنگی جرائم کے لیے جوابدہی کی جانب ایک خوش آئند قدم اٹھایا ہے۔وارنٹ کی درخواست، جس کا فیصلہ آئی سی سی کے ججوں کا پری ٹرائل چیمبر کرے گا، قدرتی طور پر اسرائیل پر غیر ریاستی گروپ کے مقابلے میں زیادہ اثر ڈالے گا۔تاہم، آئی سی سی کے پروسیکیوٹر کے لیے اسرائیلی قیادت پر جنگ کے طریقہ کار کے طور پر بھوک سے مرنے اور شہریوں کے خلاف جان بوجھ کر قتل اور حملوں کی ہدایت کرنے کے الزامات کو نظر انداز کرنا ناممکن ہوتا۔ حماس پر قتل و غارت، ریپ،تشدد اور یرغمال بنانے کے الزامات ہیں۔ بہت سے لوگ گرفتاری کے ان وارنٹ کو اہم نہیں سمجھتے ہیں۔ کیونکہ جن لوگوں کے خلاف وارنٹ جاری کیے گئے ہیں، اکثر ان پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے، مثلاً روسی صدر ولادیمیر پوتن اور سوڈان کے صدر عمر البشیرآج تک آزاد گھوم رہے ہیں اور اس وجہ سے یہ امکان ہے کہ نیتن یاہو کے خلاف کوئی عملی کارروائی نہیں ہوگی۔ تاہم، جنگی جرائم کی روک تھام یا سزا دینے میں اس طرح کے اقدامات کی افادیت سے قطع نظر، یہ قدم سفارتی کاوشوں کا باعث بنتا ہے، کیونکہ آئی سی سی کے رکن ممالک ان لوگوں کو گرفتار کرنے اور ان کو آئی سی سی کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔

مزید یہ کہ یہ قدم ایک طرف اسرائیل کی عالمی تنہائی میں اضافہ کر سکتا ہے اور دوسری طرف فلسطین کے سوال پر امریکہ اور اسرائیل کے موقف کو سخت کر سکتا ہے۔ اسرائیل، امریکہ کی طرح، آئی سی سی کا رکن ملک نہیں ہیں۔دوسری طرف، مسٹر نیتن یاہو ممکنہ طور پر اسے اسرائیل میں اپنی پوزیشن کو مضبوط بنانے کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ مجموعی طور پر، یہ تین یوروپی ممالک امید کرتے ہیں کہ ان کا حالیہ فیصلہ نہ صرف فلسطینیوں کے لیے علامتی حمایت کا اشارہ دے گا بلکہ سیاسی عمل کی رفتار بھی تیز کرسکتا ہے ،جس سے انھیں امید ہے لڑائی ختم کرا نے میں مدد مل سکتی ہے۔بہت سے عرب ممالک کا کہنا ہے کہ وہ پولیس کی مدد کریں گے اور جنگ کے بعد غزہ کی تعمیر نو صرف اسی صورت میں کریں گے جب مغربی ممالک فلسطین کو اس سیاسی عمل کے ایک حصے کے طور پر تسلیم کریں گے۔لیکن زیادہ تر دیگر یوروپی ممالک اب بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ تنازعہ کو طویل مدتی دو ریاستی حل کے حصے کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔اس لیے ناروے، آئرلینڈ اور اسپین کی حالیہ پہل کو ایک سفارتی کوشش کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، جس سے کہ زمینی حقیقت تبدیل ہونے کے امکانات بہت کم لگتے ہیں؟ ساتھ ہی فلسطینی کچھ غصے اور مایوسی کے ساتھ یہ سوال پوچھتے نظر آرہے ہیں کہ غزہ کے ہزاروں باشندوں کے مارے جانے کے بعد، صرف چھ مغربی باشندوں سمیت سات امدادی کارکنوں کی ہلاکت کی وجہ سے صورتِ حال میں فرق کیوں پڑا؟ جبکہ غزہ میں کام کرنے والی امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ امدادی کارکنوں پر حملہ کوئی الگ تھلگ واقعہ نہیں تھا بلکہ فلسطینی شہریوں کی زندگیوں کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ تھا۔
تاہم یہ اقدام جنگ میں ایک اہم موڑ پیدا کر سکتا ہے۔ اگلے مہینے یا اس کے بعد، تبدیلی کا اندازہ لگانے کا ایک طریقہ صرف یہ ہوسکتا ہے کہ دیکھا جائے کہ آیا اسرائیل کم فلسطینی شہریوں کو مار رہا ہے، اور خوراک اور طبی امداد کی فراہمی میں آسانیاں مہیا کرا رہا ہے یا نہیں۔ ایک اور امتحان یہ ہوگا کہ کیا مسٹر نیتن یاہو امریکی مخالفت کو مسترد کرتے ہیں اور رفح پر زمینی حملہ کرتے ہیں یا نہیں، جہاں اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس کی باقی ماندہ اکائیوں کو تباہ کر دینا چاہیے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ ایسا اس وقت تک نہیں ہونا چاہیے جب تک اسرائیل وہاں پناہ لینے والے تقریباً 15 لاکھ فلسطینیوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے کوئی راستہ تلاش نہیں کر لیتا ہے۔

مجموعی طور پر ان تین یوروپی ممالک کی پہل فلسطینی ریاست کے قیام میں ایک مثبت پہل ثابت ہوسکتی ہے، لیکن زمینی حقیقت یہی ہے کہ جب تک مغربی دنیا اور خاص طور سے امریکہ اسرائیل کو اسلحہ کی فروخت اور اس کے ساتھ باہمی تجارت کو ختم نہیں کرتے ہیں، تب تک فلسطینی مسئلے کا کوئی دیرپا حل نہیں نکل سکتا ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS