پامال ہوتی سیاسی اخلاقیات

0

19اپریل سے شروع ہوئے پارلیمانی الیکشن کے 6 مرحلے گزر چکے ہیں۔ اب صرف 56 سیٹیں بچی ہیں، جن پر ساتویں مرحلہ میں یکم جون کو الیکشن ہوگا اور 4 جون کو ووٹ شماری ہوگی۔ اس بار کا پارلیمانی الیکشن مجموعی طور پر آمنے سامنے کا الیکشن ہے۔ ایک طرف بی جے پی کی قیادت میں این ڈے اے ہے تو دوسری طرف کانگریس کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد’انڈیا‘ ہے۔ کچھ ہی سیٹیں ہوں گی جہاں سہ رخی اور چہار رخمی مقابلہ ہو۔ بیشتر سیٹوں پر این ڈے اے اوراپوزیشن اتحاد’ انڈیا ‘کے امیدوار بالمقابل ہیں۔’ انڈیا‘کے لیڈران جہاں بے روزگاری، بدعنوانی، غریبی اور مہنگائی کا ایشو زور و شور سے اٹھا رہے ہیں وہیں برسراقتدار اتحاد این ڈی اے کے لیڈران عوام کے بنیادی مسائل کے بجائے جذباتی ایشوز کو ہر ریلی اور جلسے میں اٹھا رہے ہیں۔ انھوں نے سب سے پہلے رام مندر کے نام پر الیکشن لڑنے کی کوشش کی اور ’جو رام کو لائے ہیں ہم ان کو لائیں گے‘ کا نعرہ دیا، لیکن عوام کی جانب سے اس پر کوئی خاص توجہ نہ ملنے پر ہندو- مسلم، پاکستان اور دہشت گردی جیسے موضوعات پر پورا زور صرف کر رہے ہیں۔ بعض لیڈران تو یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اگراپوزیشن اتحاد انڈیا اقتدار میں آیا تو وہ ہندوستان میں اسلامی شریعت نافذ کردے گا، وہ یہ بھی نہیں سوچ پا رہے ہیں کہ دنیا کے 57 مسلم ممالک نے اپنے ملک میں تو شریعت کا قانون نافذ نہیں کیا پھر ایک سیکولر ملک میں جہاں مسلمان بمشکل 15 فیصد ہیں کیسے کوئی شریعت کا قانون نافذ کرسکتا ہے۔ یہ لیڈران شاید عوام کو حد درجہ بے وقوف سمجھ رہے ہیں۔ این ڈی اے نے اب سے10 برس قبل جن ایشوز پر الیکشن لڑا تھا، ان میں مہنگائی، بیروزگاری اور بدعنوانی اہم تھے ،لیکن10 برس کی مستحکم حکومت کے باجود این ڈی اے ان تینوں مسائل کو ختم کرنا تو دور کی بات ہے ان پر قابو پانے میں بھی ناکام رہی۔ مہنگائی رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، بیروزگاری کا یہ عالم ہے کہ لوگوں سے عام طور سے سننے کو ملنے لگا ہے کہ اب سرکاری نوکری تو ملنے سے رہی۔ مقابلہ جاتی امتحانات کے لئے نوجوان فارم بھرتے ہیں، امتحان دیتے ہیں، دوسرے دن پتہ چلتا ہے کہ پرچہ لیک تھا اس لئے امتحان منسوخ۔ جہاں تک بات بدعنوانی کی ہے وہ تو نئے نئے رنگ و روپ میں سامنے آرہی ہے۔ انتخابی بانڈز اس کی ایک مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ این ڈی اے کے لیڈران مہنگائی، بیروزگاری اور بدعنوانی پر بات کرنے کے بجائے جذباتی ایشوز کو ملمع سازی کرکے اٹھا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے پٹنہ میں ایک انتخابی ریلی میں اپوزیشن اتحاد انڈیاپر حملہ کرتے ہوئے مسلم ووٹ بینک کے لیے ‘غلامی’ اور ‘مجرا’ جیسے الفاظ کا استعمال کیا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ملک کی سیاست اخلاقی زوال کے کس پائیدان پر پہنچ چکی ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان پر کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خاندان کے سربراہ کو اپنی آنکھوں کی شرم کبھی نہیں کھونی چاہئے۔ وزیر اعظم کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مودی جی نے بہار میں تقریر کی اور اپوزیشن لیڈروں کے لیے ایسے الفاظ کہے جو ملک کی تاریخ میں کسی وزیر اعظم نے نہیں کہے ہوں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ وزیر اعظم کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ عہدہ کے وقار کو برقرار رکھیں، آج جس طرح وہ (مودی) بول رہے ہیں، افسوسناک بات یہ ہے کہ ان کو حقیقت نظر آنے لگی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’وزیراعظم بھول گئے ہیں کہ وہ ملک کے نمائندہ ہیں، ان کے منہ سے ایسے الفاظ نہیں نکلنے چاہئیں‘۔ کانگریس جنرل سکریٹری نے کہا کہ آج ملک میں 70 کروڑ لوگ بے روزگار ہیں اور ملک میں بے روزگاری 45 سال میں سب سے زیادہ ہے، یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔سرکار اس جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی وہ اس کے تئیں سنجیدہ نظر آرہی ہے۔اس پورے الیکشن میں بہوجن سماج پارٹی کے بارے میں عوام کے درمیان ایک پیغام یہ گیا ہے کہ بہوجن سماج پارٹی،بی جے پی کے لئے ہی کام کر رہی ہے، لیکن بی ایس پی سربراہ مایاوتی جس طرح کے ایشوز کو اٹھا رہی ہیںوہ بی جے پی کی طرح جذباتی ایشوز نہیں بلکہ بنیادی ایشوز ہیں۔ ادھر انھوں نے متعدد بیانات میں کہا ہے کہ کہ ہندوتو کی آڑ میں درج فہرست ذات پر ظلم شباب پر ہے۔ اس کے ساتھ ہی اونچی ذات کے غریب لوگوں کی حالت بھی بہت اچھی نہیں ہے۔ خاص کر برہمن کو پوری ریاست میں بڑے پیمانے پر پریشان کیا جارہا ہے۔ انھوں نے بی جے پی اورآر ایس ایس پر مسلم سماج کے استحصال کا بھی الزام لگایا اور کہا کہ غریبی، مہنگائی اور بے روزگاری مسلسل بڑھ رہی ہے۔

بہرحال این ڈی اے سے وابستہ مختلف ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ سے لے کر وزیر داخلہ اور وزیراعظم تک ہندوؤں اور مسلمانوں میں منافرت پیدا کرنے اور بھائی چارہ کو تار تار کردینے کے لئے جس طرح کی زبان کا استعمال کر رہے ہیں وہ کسی بھی طرح سے جمہوری اور پارلیمانی زبان نہیں ہوسکتی۔ یہ زبان مہذب سماج پر بدنما داغ ہے۔ سیاست کی بھی کچھ اخلاقیات ہوتی ہیں جن کا لحاظ کرنا ہر کسی کے لئے ضروری ہے لیکن اگر ملک کا وزیراعظم ہی سیاسی اخلاقیات کو پامال کرنے پر آمادہ ہو اور الیکشن کمیشن بھی خاموش تماشائی بنا رہے تو پھر عوام کی عدالت ہی اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ سنا سکتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS