سارے اسپتالوں میں علاج نہیں!

0

کبھی شام پررونق ملک ہوا کرتا تھا مگر اب نہیں رہا۔ کبھی شام میں علاج و معالجے کی اچھی سہولتیں ہوا کرتی تھیں مگر اب سارے اسپتال اچھی حالت میں نہیں ہیں تو یہ بتانے کی ضرورت نہیں رہ جاتی کہ وہاں علاج ومعالجے کی کیا سہولتیں ہوں گی۔ ایک رپورٹ کے مطابق، ’شام کے صرف 58 فیصد اسپتالوں اور 53 فیصد پرائمری میڈیکل سینٹر ہی فی الحال کام کر رہے ہیں۔ فیزی شینس فور ہیومن رائٹس نامی این جی او کے مطابق، مارچ 2020 تک 350 طبی مراکز پر مجموعی طور پر595 حملے ہو چکے ہیں۔ اس وجہ سے مجموعی طور پر 923 طبی ملازمین کی موت ہو چکی ہے۔ یہ صورت حال اس وقت ہے جب طبی ملازمین کو جنگ کے دوران بھی ’’محفوظ‘‘ والا درجہ ملا ہوتا ہے۔‘3 مارچ، 2021 کی ’الجزیرہ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، 70 فیصد طبی ملازمین نے شام چھوڑ دیا ہے۔ فی الوقت صورت حال یہ ہے کہ 10,000 لوگوں پر صرف ایک ڈاکٹر کا اوسط ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ ڈاکٹروں کو ہفتے میں لوگوں کی مدد کرنے کے لیے 80 سے 84 گھنٹے تک کام کرنے پڑتے ہیں۔ ایسی صورت میںاس بات کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی کہ حالات ان پر اثرانداز نہیں ہوں گے۔ اگر عام حالات رہتے تو 10 ہزار لوگوں پر ایک ڈاکٹر کا ہونا زیادہ تشویش کی بات نہیں ہوتی مگر تشویش کی بات اس لیے ہے کہ 10 سال سے شام میں پرتشدد واقعات کا سلسلہ جاری ہے، لوگوں کو ڈاکٹروں کی بہت ضرورت ہے اور ڈاکٹر گزرتے دنوں کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں۔ آج ایک ڈاکٹر کے مارے جانے کا مطلب 10 ہزار لوگوں کو پریشان کرنے کے مترادف ہے۔ شام کے حالات واقعی ہر لحاظ سے خراب ہیں۔ فکر میں اضافہ کرنے والی بات یہ ہے کہ ایک کروڑ، 20 لاکھ لوگوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے اور کہیں سے امن کی کرنیں پھوٹتی نظر نہیں آتیں کہ دیگر ملکوں میں پناہ لینے والے خود شامی ڈاکٹرس ہی شامیوں کی مدد کے لیے شام چلے جائیں۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS