کابینہ نہیں، امیدوں میں توسیع

0

اس ہفتہ وزیراعظم نریندر مودی نے مرکزی کابینہ کی توسیع کردی۔ توسیع کا لمبے وقت سے انتظار بھی تھا۔ وزیراعظم کی اس کارروائی کے بعد ٹیم مودی کی جو نئی تصویر ہمارے سامنے نکل کر آئی ہے، اسے کئی معنوں میں تاریخی کہا جاسکتا ہے۔ اس کا تجزیہ بھی کریں گے، لیکن اس سے پہلے مرکزی بجٹ سے اس کے موازنہ کا دلچسپ خیال دماغ میں آرہا ہے۔ جس طرح بجٹ میں ہر طبقہ کا خیال رکھنے کی روایت چلی آئی ہے، اسی طرح نئی کابینہ میں بھی سب کا ساتھ، سب کا وکاس(ترقی) اور سب کے وشواس(اعتماد) کو بنائے رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔یہ سوچ بھی زمین پر عملی شکل اختیار کرنے کی اپنی روایت قائم رکھ سکے، اسی لیے وزیراعظم نے نئے وزرا کو صلاح بھی دی ہے کہ وہ اپنا چہرہ چمکانے کے بجائے اپنے کام پر توجہ دیں گے تو ان کا محکمہ بھی چمکے گا اور ملک کا چہرا بھی دمکے گا۔
ٹیم مودی اپنے کیپٹن کی بتائی اس ٹرک سے ملک کا چہرہ کتنا دمکا پاتی ہے، اس کے لیے اسے تھوڑا وقت دینا ہوگا، لیکن ملک کے شہریوں کے چہرے نئی ٹیم کے اعلان سے ہی دمکنے لگے ہیں۔ آرٹیکل370ہٹنے کے بعد اب ملک میں 28ریاستیں ہیں اور توسیع کے بعد اب ان میں سے 24ریاستوں کا کوئی نہ کوئی نمائندہ ملک کی کابینہ میں شامل ہے۔ حساب تقریباً 90فیصد کا بیٹھتا ہے۔ اس معنی میں یہ توسیع حکومت کے ہر فیصلے میں ریاستوں کے ہر شہری کی آواز شامل ہونے کی جمہوریت کے بنیادی جذبہ کی تکمیل کا قدم ہے۔ آزاد ہندوستان میں جغرافیائی پیمانہ پر اتنی وسیع کابینہ کا صرف ایک واقعہ ذہن میں آتا ہے، جب 1991میں نرسمہاراؤ حکومت میں 26ریاستوں کے لیڈران کو وزارتی عہدے ملے تھے۔ اس دوڑ میں وزیراعظم نے سال2009کی منموہن کابینہ کی برابری کی ہے، جب وزرا کی کونسل میں 24ریاستوں کی نمائندگی تھی۔ اس کے باوجود وزیراعظم کے اس قدم پر تنقید کے امکانات بھی کھول دیے گئے ہیں۔ اس ٹیم میں اترپردیش اور گجرات کی بڑی حصہ داری کو ان ریاستوں میں آنے والے وقت میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے منسلک کرکے دیکھا جارہا ہے۔ کابینہ میں توسیع کا فیصلہ وزیراعظم کا خصوصی حق ہوتا ہے اور اس میں ملک کی ضرورتوں کے ساتھ ہی سیاسی آرزوؤں کی گنجائش کو بھی خارج نہیں کیا جاسکتا۔ لیکن پھر انتخابی حساب مغربی بنگال سے چار وزراکی اینٹری پر فٹ نہیں بیٹھتا۔ وہاں تو ابھی حال میں انتخابات ہوئے ہیں اور حکمراں پارٹی کو جس طرح کی اکثریت ملی ہے، اس سے مستقبل قریب میں حکومت کے گرنے کے آثار بھی نہیں ہیں۔ ہاں، ریاست کے بگڑتے لاء اینڈآرڈر کے سبب ریاست مستقبل میں کس جانب بڑھتی ہے، یہ ابھی نہیں کہا جاسکتا۔ تو کیا اس کا یہ مطلب نکالا جائے کہ مستقبل کی غیریقینی صورت حال کو دیکھتے ہوئے وزیراعظم مغربی بنگال میں بھی طویل جنگ کے لیے تیار ہیں اور اپنے کنٹرول کو وہ ڈھیلا نہیں چھوڑنا چاہتے؟

میڈیا میں بے وجہ کی بیان بازی کام سے فوکس کو ہٹاتی ہے۔ دراصل یہ اس حکومت کے کام کی ثقافت بھی دکھاتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے وزیرداخلہ امت شاہ نے بھی ٹرینی آئی پی ایس افسران کو سوشل میڈیا سے اس بنیاد پر دور رہنے کی صلاح دی تھی کہ اس سے وقت برباد ہوتا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کرنے والوں میں شامل نتن گڈکری بھی اس کام کی ثقافت کی ایک مثال ہیں۔ تو تناظر کے ساتھ پیغام بھی واضح ہے- اچھے کام کو انعام ورنہ رام-رام۔ نئی ٹیم مودی کا یہی سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔

محروم طبقہ کو اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے اور ان کی مناسب سنوائی کا بھروسے مند اسٹیج بننا نئی کابینہ کا ایک اور اہم پہلو ہے۔ اس میں 15ریاستوں سے 27اوبی سی وزرا، 8-8ریاستوں سے 12دلت اور 8آدی واسی وزرا اور 5ریاستوں سے 5اقلیتی وزرا شامل ہیں۔ یعنی موجودہ کابینہ سے وزیراعظم کو الگ رکھا جائے تو 77وزرا میں سے 52وزیر ملک کے اس سیاسی نظام سے آتے ہیں، جسے کچھ وقت پہلے تک اپنے بنیادی حقوق بھی لمبی جدوجہد کے بعد ہی ملتے تھے۔ نئے وزیر بنے بی ایل ورما تو اس لودھ ذات سے آتے ہیں، جسے آزادی کے بعد پہلی مرتبہ کابینہ میں نمائندگی ملی ہے۔ اس سماجی اجتماع کے ذریعہ وزیراعظم نے یہ پیغام بھی دیا ہے کہ ان کے دور میں بی جے پی صرف اعلیٰ ذاتوں اور برہمن-بنیا والی پارٹی نہیں رہی۔ وہ دراصل ان دوسری پارٹیوں جیسی بھی نہیں ہے، جنہوں نے پسماندہ ذاتوں کے نام پر سیاست تو خوب کی، لیکن دیا کچھ نہیں۔ کہنے کی ضرورت نہیں کہ سب کو ساتھ لے کر سب کا وکاس(ترقی) کرنے والی اس سوشل انجینئرنگ نے بی جے پی کے حق میں ایک طرح کا سیاسی اعتماد بھی پیدا کیا ہے، جس کے نتیجے ہم لوک سبھا الیکشن-2014، پھر اترپردیش اسمبلی الیکشن-2017 اور پھر اس کے بعد لوک سبھا الیکشن-2019میں دیکھ چکے ہیں۔
ملک کی قومی ذمہ داریوں اور سماجی ضرورتوں کی تکمیل کے ساتھ ہی اس کابینہ میں نوجوانوں اور تجربہ کا بھی زبردست توازن نظر آتا ہے۔ نئی کابینہ مودی حکومت کی اب تک کی سب سے نوجوان کابینہ ہے۔ اس کی اوسطاً عمر 58.2سال ہے اور 12وزرا کی عمر 50سال سے کم ہے۔ ویسے تو وزیراعظم خود ہمارے ملک کی ترقی پسند سوچ کا نمائندہ چہرہ ہیں، اس پر اب نئی عمر کے وزرا کے آنے سے حکومت میں ایک نئی سوچ کا کمیونی کیشن بھی ہوگا۔ اس کابینہ میں ایک طرف نئی توانائی کا چشمہ نظر آتا ہے تو دوسری جانب تجربہ کا ذخیرہ بھی ہے۔ کابینہ میں چار سابق وزرا اور 18سابق ریاستی وزیر شامل ہیں۔ کل23وزیر تین مرتبہ یا اس سے زیادہ کے ممبرپارلیمنٹ ہیں۔ ان میں 13وکیل، 6ڈاکٹر، پانچ انجینئر اور 7ایڈمنسٹریٹوسروسز سے وابستہ سابق افسران کو جوڑلیں تو اس کابینہ کی قابلیت اپنے آپ ثابت ہوجاتی ہے۔
چیلنج اب اس قابلیت کو ایک مرتبہ پھر زمین پر اتارنے کا ہے، کیوں کہ ان میں سے کم سے کم ایک درجن لوگوں کے لیے تو ہم کہہ ہی سکتے ہیں کہ وہ مودی حکومت کے جن 12سابق وزرا کی خالی ہوئی جگہوں کو پُر کررہے ہیں، ان کی قابلیت بھی سوالات سے پرے تھی۔ اس کے باوجود کچھ معاملات میں تنظیم کی ضرورتوں کو چھوڑ دیا جائے تو زیادہ تر سابق وزرا کو وزیراعظم کے طے کیے معیار پر کھرے نہ اترنے پر اپنی کرسی چھوڑنی پڑی ہے۔
اس لیے حلف لینے کے بعد نئے وزرا کو وزیراعظم سے ملی نصیحت کا تناظر بھی واضح ہے۔ میڈیا میں بے وجہ کی بیان بازی کام سے فوکس کو ہٹاتی ہے۔ دراصل یہ اس حکومت کے کام کی ثقافت بھی دکھاتی ہے۔ کچھ دنوں پہلے وزیرداخلہ امت شاہ نے بھی ٹرینی آئی پی ایس افسران کو سوشل میڈیا سے اس بنیاد پر دور رہنے کی صلاح دی تھی کہ اس سے وقت برباد ہوتا ہے۔ حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کامظاہرہ کرنے والوں میں شامل نتن گڈکری بھی اس کام کی ثقافت کی ایک مثال ہیں۔ تو تناظر کے ساتھ پیغام بھی واضح ہے- اچھے کام کو انعام ورنہ رام-رام۔ نئی ٹیم مودی کا یہی سب سے بڑا امتحان بھی ہے۔
(کالم نگار سہارا نیوز نیٹ ورک کے
سی ای او اور ایڈیٹر اِن چیف ہیں)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS