مہنگائی سے راحت نہیں، تھوک مہنگائی 9ماہ کی بلندترین سطح پر

0

نئی دہلی(ایجنسیاں): کھانے پینے کی اشیاء، سبزیوں، معدنیات، مشینری اور آلات، کمپیوٹر اور الیکٹرانکس سامان کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے تھوک قیمت کے اشاریہ (ڈبلیو پی آئی) پر مبنی افراط زر کی شرح دسمبر 2023 میں بڑھ کر 0.73 فیصد ہو گئی۔ یہ 9 ماہ میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔ مارچ میں افراط زر کی شرح 1.34 فیصد تھی،جبکہ نومبر میں یہ 0.26فیصد اور اکتوبر میں 0.52فیصد تھی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

وزارت تجارت اور صنعت کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق، ہول سیل مہنگائی گزشتہ 7 ماہ تک صفر سے نیچے رہنے کے بعد گزشتہ سال نومبر میں صفر سے اوپرہوئی تھی۔ دسمبر میں تھوک مہنگائی کی سطح 9 ماہ کی بلند ترین سطح پرہے۔

گزشتہ سال دسمبر میں بنیادی اشیاء (اشیاء خورد ونوش، معدنیات اور سبزیوں) کی ہول سیل مہنگائی بڑھ کر 5.78فیصد ہو گئی جو نومبر میں 4.76 فیصد تھی۔ اس دوران ایندھن اور بجلی صفرسے 2.41فیصد نیچے اور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں افراط زر منفی 0.71فیصد رہی۔ڈبلیو پی آئی فوڈ انڈیکس پر مبنی افراط زر کی شرح دسمبر 2023میں بڑھ کر 5.39 فیصد ہوگئی جو نومبر کے پچھلے مہینے میں 4.69فیصد تھی۔ دسمبر میں اشیائے خوردونوش کی مہنگائی کی شرح بڑھ کر 9.38فیصد رہی، جبکہ نومبر میں یہ 8.18فیصد تھی۔ دسمبر میں سبزیوں کی مہنگائی کی شرح 26.30فیصد جبکہ دالوں کی مہنگائی کی شرح 19.60فیصد رہی تھی۔

اس سے قبل حکومت نے 12 جنوری کو خردہ مہنگائی کے اعدادوشمار جاری کیے تھے۔ اس کے مطابق دسمبر میں ہندوستان میں خردہ افراط زر بڑھ کر 5.69 فیصد ہوگئی۔ یہ 4 ماہ میں مہنگائی کی بلند ترین سطح ہے۔ ستمبر میں افراط زر کی شرح 5.02 فیصد تھی، جبکہ نومبر میں یہ 5.55 فیصد اور اکتوبر میں 4.87 فیصد تھی۔ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے، نومبر کی طرح دسمبر میں بھی سبزیوں کی مہنگائی میں بڑا اضافہ ہوا ہے۔ نومبر میں سبزیوں کی مہنگائی 17.7 فیصد سے بڑھ کر 27.64 فیصد ہوگئی۔ دوسری جانب ایندھن اور بجلی کی مہنگائی کم ہو کر0.99 فیصد ہوگئی ہے جو نومبر میں 0.77 فیصد تھی۔

مزید پڑھیں: منی پور میں ایک بار پھر امن بحال کرنا چاہتا ہوں: راہل گاندھی

تھوک مہنگائی میں طویل اضافے کا زیادہ تر پیداواری شعبوں پر منفی اثر پڑتا ہے۔ اگر تھوک کی قیمتیں زیادہ دیر تک بلند رہیں تو پروڈیوسرز اس کا بوجھ صارفین پر ڈال دیتے ہیں۔ حکومت صرف ٹیکس کے ذریعہ ہی ڈبلیو پی آئی کو کنٹرول کر سکتی ہے، مثلاً خام تیل میں زبردست اضافے کی صورت میں حکومت نے ایندھن پر ایکسائز ڈیوٹی کم کر دی تھی، تاہم، حکومت صرف ایک حد کے اندر ٹیکس میں کمی کر سکتی ہے۔ ڈبلیو پی آئی میں، فیکٹری سے متعلقہ سامان جیسے دھات، کیمیکل، پلاسٹک، ربڑ کو زیادہ وزن دیا جاتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS