بم نہیں، خیال ہیں بھگت سنگھ

0

پنکج چترویدی
ابھی 5 مارچ کو دہلی میں اختتام پذیر ہوئے عالمی کتاب میلے کی تھیم آزادی کا امرت اتسو تھی اور اس تھیم پر بنے خاص پویلین میں شہیداعظم بھگت سنگھ کا ایک مجسمہ اور جیل ڈائری کی ایک کاپی رکھی تھی۔ روزانہ ہر ذات اور مذہب کے سیکڑوں نوجوان وہاں آتے، ساتھ میں تصویریں کھنچواتے اور سوشل میڈیا پر چسپاںکر دیتے۔ حالانکہ یہ بات دیگر ہے کہ وہاں نصب بھگت سنگھ کا مجسمہ حقیقت سے بہت دور تھا- سفید براق کرتا پاجامہ، سر پر زعفرانی پگڑی اور ہاتھ پاؤں میں ہتھکڑی اور بیڑیاں۔ نہ کبھی بھگت نے اتنے شاندار کپڑے پہنے، نہ جب وہ جیل میں تھے تو ان کے سر پر پگڑی تھی۔ ہاں کھڑے ہو کر فوٹو کھنچوا رہے بہت سے ایسے نوجوانوں سے جب بات کی تو ان کے لیے بھگت سنگھ محض ایک گولی-بم چلانے والا نوجوان تھا۔ آزادی کے تعلق سے ان کی کیا رائے تھی، وہ کس طرح کا انتظامی نظام چاہتے تھے؟ ایسے زیادہ تر سوالوں کے جوابات صفر تھے۔ بس بھگت سنگھ کے مجسمے کے ساتھ خود کو کھڑا کرکے مصنوعی ہیرو یا پکا محب وطن کا زعم ہی ان موبائل کیمروں میں قید ہورہی تصویروں کا نچوڑ تھا۔
ایک بات سمجھنی ہوگی کہ بھگت سنگھ صرف اس لیے مشہور نہیں ہوئے کہ انہوں نے اسمبلی میں بم پھینکا یا سانڈرس قتل کیس میں گولی چلائی۔ اصل بھگت کی طاقت تھی ان کا 23 سال کی عمر میں پھانسی کے پھندے کو چومنے سے پہلے ملک اور دنیا کے ڈھیر سارے خیالات کو پڑھنا اور اس کی بنیاد پر ایک آزاد مثالی ملک کا خواب دیکھنا۔ بھگت سنگھ کسی مسلح انقلاب کے بجائے نظریاتی انقلاب کی بنیاد پر ملک کی آزادی اور آزاد ملک کے آپریشن کا خاکہ اپنے دل میں بنائے ہوئے تھے۔ خود کو بھگت سنگھ کے خاندان کا کہنے والے ایک فرد اس بات کا جواب نہیں دے پائے کہ بھگت سنگھ نے آزاد ہندوستان میں کس نظام حکومت کی بات کی تھی- ری پبلک یا فیڈرل۔ واضح ہو کہ بھگت سنگھ کے خوابوں کے ملک میں جمہوریت کا وفاقی تصور تھا۔ یہ معلومات کسی مجسمے یا جیل ڈائری کے ساتھ فوٹو کھنچوانے سے تو مل نہیں سکتی۔ آج اسکول اور کالج میں بھگت سنگھ کی تعلیم دینے سے گریز کیا جاتا ہے، اعلیٰ تعلیم میں بھگت سنگھ کی تحریر، تقریر یا خیالات پر تحقیق یا بحث کا امکان بہت کم رہ جاتا ہے، تبھی سوشل میڈیا کے سنسنی خیز نوجوان ایک تصویر، ایک واقعے یا کسی بڑی جرأت کو بھگت سنگھ سمجھ بیٹھے ہیں۔
آج ملک کے بڑے مسائل میں فرقہ پرستی سب سے سنگین اور لاعلاج ہوتی جا رہی ہے، خاص طور پر جب نظام حکمرانی کا بڑا حصہ بالواسطہ طور پر اکثریتی فرقہ پرستی کے حق میں ہو گیا ہے۔ فرقہ واریت ملک کے باہمی تانے بانے کو تو کمزور کرتی ہی ہے،اقتصادی طور پر بھی کمزور کرتی ہے۔ ایسے میں بھگت سنگھ کے مجسمے کے بجائے مئی 1928 کے ’کیرتی‘ میں شائع ہونے والا ان کا مضمون، مذہب اور ہماری آزادی کی جدوجہد کا سبق یا سمعی و بصری زیادہ ضروری تھا جس میں وہ کہتے ہیں- ’مذہب کا پہاڑ تو ہمیں ہمارے سامنے کھڑا نظر آتا ہے۔ فرض کیجیے کہ ہندوستان میں آزادی کی جنگ چھڑ جائے۔ افواج آمنے سامنے بندوقیں تانے کھڑی ہوں، گولی چلنے ہی والی ہو اور اگر اس وقت کوئی محمد غوری کی طرح، جیسا کہ کہاوت بتائی جاتی ہے، آج بھی ہمارے سامنے گائے، خنزیر، وید-قرآن پاک وغیرہ چیزیں کھڑی کر دے، تو ہم کیا کریں گے؟ اگر کٹر مذہبی ہوں گے تو اپنا بوریا بستر لپیٹ کر گھر بیٹھ جائیں گے۔ مذہب کے ہوتے ہوئے ہندو سکھ گائے پر اور مسلمان خنزیر پر گولی نہیں چلاسکتے۔ مذہب کے بڑے پکے انسان تو اس وقت سومناتھ کے کئی ہزار پنڈوں کی طرح ٹھاکروں کے آگے لوٹتے رہیں گے اور دوسرے لوگ مذہب سے پرے یا غیر مذہبی کام کرجائیں گے۔ تو ہم کس نتیجے پر پہنچے؟ مذہب کے خلاف سوچنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن اگر مذہب کے پیروکاروںکے دلائل پر بھی غور کیا جائے تو وہ یہ کہتے ہیں کہ دنیا میں اندھیرا ہوجائے گا، گناہ بڑھ جائیں گے۔‘ یاد کریں حال ہی میں پنجاب میں ایک پولیس تھانے پر حملہ کرتے وقت کچھ جنونیوں نے گروگرنتھ صاحب کو آگے رکھ کر پولیس کو کارروائی کرنے سے روک دیا تھا۔
اسی مضمون میں وہ آگے کہتے ہیں- ’بس، تمام فسادات کا علاج اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ ہندوستان کی معاشی حالت میں سدھار سے ہی ہو سکتا ہے۔ دراصل ہندوستان کے عام لوگوں کی معاشی حالت اتنی خراب ہے کہ ایک شخص دوسرے کو چونی دے کر کسی اور کو بے عزت کروا سکتا ہے۔ بھوک اور غم سے پریشان ہوکر انسان تمام اصول طاق پر رکھ دیتا ہے۔ سچ ہے، مرتا کیا نہ کرتا۔ لیکن موجودہ حالات میں معاشی سدھار ہونا انتہائی مشکل ہے کیونکہ حکومت غیر ملکی ہے اور عوام کی حالت کو بہتر نہیں ہونے دیتی۔ اسی لیے لوگوں کا ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجانا چاہیے اور جب تک حکومت بدل نہ جائے، چین کی سانس نہیں لینی چاہیے۔
لوگوں کو ایک دوسرے سے لڑنے سے روکنے کے لیے طبقاتی شعور کی ضرورت ہے۔ غریب، محنت کشوں اور کسانوں کو واضح طور پر سمجھا دینا چاہیے کہ تمہارے اصل دشمن سرمایہ دار ہیں۔ اس لیے تمہیں ان کے ہتھکنڈوںسے بچ کر رہنا چاہیے اور ان کے ہتھّے چڑھ کچھ نہ کرنا چاہیے۔ دنیا کے تمام غریبوں کے، چاہے وہ کسی بھی ذات، رنگ، مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہوں، حقوق یکساں ہی ہیں۔ تمہاری بھلائی اسی میں ہے کہ تم مذہب، رنگ، نسل اور قومیت و ملک کی تفریق مٹاکر متحد ہو جاؤ اور حکومت کی طاقت اپنے ہاتھوں میں لینے کی کوشش کرو۔ ان کوششوں سے تمہارا نقصان کچھ نہیں ہوگا، اس سے کسی دن تمہاری زنجیریں کٹ جائیں گی اور تمہیں معاشی آزادی ملے گی۔‘
2 فروری 1931کو ان کے مضمون میں آج کے نعرہ بازوں کے لیے 90 سال پہلے پیغام دیا گیا تھا- ’آپ لوگ انقلاب زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ یہ نعرہ ہمارے لیے بہت مقدس ہے اور اس کا استعمال ہمیں بہت ہی سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ جب آپ نعرے لگاتے ہیں، تو میں سمجھتا ہوںکہ آپ لوگ دراصل جو پکارتے ہیں وہی کرنا بھی چاہتے ہیں۔ اسمبلی بم کیس کے وقت ہم نے انقلاب لفظ کی یہ تشریح کی تھی- انقلاب سے ہمارا مطلب معاشرے کا موجودہ نظام اورموجودہ تنظیم کو پوری طرح اکھاڑ پھینکنا ہے۔ اس مقصد کے لیے ہم پہلے حکومت کی طاقت کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ اس وقت حکمرانی کی مشین امیروں کے ہاتھ میں ہے۔ عام لوگوں کے مفادات کے تحفظ اور اپنے نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے- یعنی معاشرے کی تشکیل نو کارل مارکس کے اصولوں کے مطابق کرنے کے لیے- ہم حکومت کی مشین کو اپنے ہاتھ میں لینا چاہتے ہیں۔ ہم اس مقصد کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن اس کے لیے عام لوگوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا چاہیے۔‘
غور کریں کیا کوئی تنظیم آج سردار بھگت سنگھ کے ان خیالات کو دہرانے یا ان پر عمل کرنے کی بات کر سکتی ہے؟ بھگت سنگھ زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے کہہ رہے ہیں لیکن ہم خواندہ بنانے کو تعلیم یافتہ سمجھ لیتے ہیں، اپنے حقوق اور فرائض کے تئیں بیداری، اپنے ماحول کے تئیں حساسیت، جدوجہد کے لیے بے خوف آواز- شہیداعظم اس طرح سے عوام کو تعلیم یافتہ بنانے کی بات کرتے تھے۔ آج بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ زیادہ تر تنظیمیں نعرے تو انقلاب کے لگائیں گی لیکن تعلیم کے نام پر اپنے لیے ووٹ دینے سے آگے کوئی مقصد نہیں رکھتیں۔
8 اپریل 1929 کو اسمبلی میں بم پھینکنے سے پہلے انہوں نے (شاید 5 اپریل کو) ایک خط سکھ دیو کو لکھا تھا، جو 13 اپریل کو سکھ دیو کی گرفتاری کے وقت ان کے پاس سے برآمد کیا گیا اور لاہور سازش کیس میں بطور ثبوت پیش کیا گیا۔ اس خط کا متن خاص طور پر ان نوجوانوں کو نہ صرف پڑھنا چاہیے، بلکہ انسانی رشتے کے اٹوٹ دھاگے کی شکل میں باندھ لینا چاہیے۔ بھگت سنگھ میجنی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں- جہاں تک محبت کی اخلاقی سطح کا تعلق ہے، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ یہ اپنے آپ میں کچھ نہیں ہے، سوائے ایک جذبہ کے، لیکن یہ ایک وحشیانہ جبلت نہیں ، ایک بہت ہی پیارا انسانی احساس ہے۔ محبت اپنے آپ میں کبھی بھی حیوانی جبلت نہیں ہے۔ محبت تو ہمیشہ انسان کے کردار کو بلند کرتی ہے۔ سچی محبت کبھی بھی گڑھی نہیں جا سکتی۔ وہ اپنے ہی راستے سے آتی ہے، لیکن کوئی نہیں کہہ سکتا کہ کب؟
ہاں، میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ایک نوجوان اور ایک دوشیزہ ایک دوسرے سے محبت کر سکتے ہیں اور وہ اپنی محبت کے سہارے اپنے جذبات سے اوپر اٹھ سکتے ہیں، اپنی عفت کو برقرار رکھ سکتے ہیں۔ میں یہاں ایک بات واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ جب میں نے کہا تھا کہ محبت انسانی کمزوری ہے، تو یہ کسی عام آدمی کے لیے نہیں کہا تھا، جس سطح پر کہ عام آدمی ہوتے ہیں۔ وہ ایک انتہائی مثالی صورت حال ہے، جہاں انسان محبت و نفرت وغیرہ کے جذبات پر قابو پا لے گا، جب انسان اپنے اعمال کی بنیاد روح کی ہدایت کو بنالے گا، لیکن جدید دور میں یہ کوئی برائی نہیں ہے، بلکہ انسان کے لیے اچھا اور فائدہ مند ہے۔ میں نے ایک آدمی کے ایک آدمی سے محبت کی مذمت کی ہے لیکن وہ بھی ایک مثالی سطح پر۔ اس کے ہوتے ہوئے بھی انسان میں محبت کا گہرا احساس ہونا چاہیے، جسے وہ کسی ایک ہی فرد تک محدود نہ کر دے، بلکہ اسے عالمگیررکھے۔ میں سوچتا ہوںکہ میں نے اپنی پوزیشن اب واضح کر دی ہے۔ ایک بات میں تمہیں بتانا چاہتا ہوں کہ انقلابی نظریات رکھنے کے باوجود، ہم اخلاقیات کے تعلق سے آریہ سماجی طریقے کے سخت عقیدے نہیں اپنا سکتے۔ ہم بڑھ چڑھ کر باتیں کر سکتے ہیں اور اسے آسانی سے چھپا سکتے ہیں لیکن حقیقی زندگی میں ہم فوراً تھرتھر کانپنا شروع کردیتے ہیں۔‘
بھگت سنگھ کا مجسمہ نصب کرنے والوں سے اب یہی کہنا ہے کہ اس دولت کا استعمال بھگت سنگھ کے خیالات کو جدید ٹیکنالوجی-ملٹی میڈیا کے ذریعے لوگوں تک پہنچانے، اس کے کسی طالبانی حکم کی طرح ماننے کے بجائے اس پر بحث کرنے اور آج کے وقت کے مطابق اس کا تجزیہ اور تحقیق کرنے میں کریں تو ملک میں وسیع پیمانے پر تبدیلی میں بھگت سنگھ کو دیکھا جاسکے گا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS