فیملی پلاننگ کے حوالے سے این ایف ایچ ایس کی امید افزا رپورٹ

0

محمد حنیف خان

آبادی میں اضافہ جہاں ایک افرادی قوت کی علامت ہے وہیں دوسری جانب اس کے بد عواقب بھی دیکھے گئے ہیں۔آبادی اور پیدا وار کے تناسب کو دیکھتے ہوئے دنیا کے بیشتر ممالک میں آبادی میں کمی لانے کے منصوبے ایک زمانے سے نافذ ہیں،ان منصوبوں کے توسط سے کوشش یہ کی جا رہی ہے کہ آبادی میں کمی آئے تاکہ ملک میں پیداہونے والے ہر بچے کی تعلیم و تربیت،غذا اور ملازمت کا بہتر انتظام ہوسکے جس سے زندگی پر سکون گزرے۔اسی لیے یہ نعرہ بھی دیا گیا تھا کہ ’’چھوٹا پریوار سُکھی پریوار‘‘۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ نعرہ آدرش ہوسکتا ہے حقیقت نہیں۔متعدد ایسے کنبے ہیں جو بہت چھوٹے ہیں، اس کے باوجود انہیں بھوکے سونا پڑتا ہے اور ایسے افراد کی بھی کمی نہیں ہے جو کنبوں کی اچھائی و برائی سے کوئی تعلق نہیں رکھتے،وہ تن تنہا زندگی گزار رہے ہیں مگر ان کو بھی دو وقت کی روٹی نہیں مل پا رہی ہے۔جب اس نوع کے سوالات اٹھتے ہیں تو فوراً آبادی میں اضافہ سے اسے جوڑدیا جاتا ہے کہ چونکہ ملک میں آبادی بہت ہے، اس لیے اشیاء خورد و نوش کی قلت کے ساتھ ہی بچوں کی تعلیم وتربیت، علاج و معالجہ اور ملازمت وغیرہ میں دشواری در پیش ہے۔یقینا یہ ایک سبب ہوسکتا ہے لیکن اس سے کہیں بڑا سبب بد انتظامی اور ذخیرہ اندوزی ہے کیونکہ اگرکسی بچے کی پیدائش سے ایک منھ اور ایک پیٹ کا اضافہ ہوتا ہے تو خالق کائنات اسے بھرنے کے لیے اس کو دو ہاتھ بھی دیتے ہیںجس سے جی ڈی پی میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔
ہندوستان میں ہرگفتگو اور ہر مسئلہ کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ایک پہلو وہ ہے جو نفس مسئلہ ہے،مثلاً آبادی بڑھ رہی ہے یاگھٹ رہی ہے،یہ اچھا ہے یا برا ہے،اگربرا ہے تو اس کے تدارک کی کوششیں ہونی چاہیے جس کے لیے منصوبے بنائے جاتے ہیں لیکن اسی گفتگو کادوسرا پہلو وہ ایک چشمہ ہے جس سے صرف ایک ہی چیز اور ایک ہی پہلو دیکھا جاسکتا ہے جسے ہم مذہب یا مذہبی تناظر کہہ سکتے ہیں۔آبادی کے تناسب سے ہمیشہ یہ کہا گیا ہے کہ یہ سب مسلمانوں کی وجہ سے ہورہا ہے،وہی آبادی میں اضافے کے ذمہ دار ہیں جس کیلئے سب سے زیادہ کثرت ازواج کو بطور سبب بیان کیا جاتا ہے،اس کے علاوہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ مسلمانوں میں شعور نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کے یہاں بچوں کی پیدائش زیادہ ہوتی ہے۔یہ دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے مقابلے میں کسی قدر زیادہ ہوسکتاہے کیونکہ اسلام میں فیملی پلاننگ کا مروجہ طریق کار نہیں ہے اور نہ ہی اس کی مذہبی سطح پراس انداز میں حوصلہ افزائی کی گئی لیکن ترقی یافتہ قومیں وہی شمار کی جاتی ہیں جو زمانے کے ساتھ چلنے کا شعور رکھتی ہیں۔ہندوستان کا مسلمان اب اتنا باشعور ہوچکا ہے کہ وہ اپنے مستقبل کے بارے میں سنجیدگی سے فیصلہ کرے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مسلمانوں نے آبادی کے مسئلے میں بھی شعور و آگہی کا ثبوت دیا ہے اور ریکارڈ سطح پر پیدائش میں کمی دیکھی گئی ہے۔نیشنل فیملی ہیلتھ سروے 2020-21(این ایف ایچ ایس)کے مطابق چوتھے(2015-16) اور پانچویں سروے کے درمیان 2.62سے 2.36تک 9.9فیصد کی سب سے تیز گراوٹ دیکھی گئی ہے جو دوسرے طبقات کے مقابلے بہت زیادہ گراوٹ ہے جبکہ ہندوستان کی اکثریت والی آبادی کا معاملہ اس کے برعکس ہے کیونکہ ٹوٹل فرٹلٹی ریٹ(ٹی ایف آر)میں مسلمانوں میں 46.5فیصد کی کمی آئی ہے جبکہ ہندوؤں میں 41.2فیصد کی ہی کمی آئی ہے۔ عیسائیوں میں 34.5، سکھوں میں 33.5فیصد کی کمی آئی ہے۔ مجموعی طور پر آبادی کو کم کرنے میں نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5(این ایف ایچ ایس)کے مطابق مسلمان سر فہرست ہیں۔لیکن دوسری جانب جو جلسوں،جلوسوں اور مذہبی تقاریب میں زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کرتے ہیں، واقعی ان کے یہاں بچوں کی پیداوار میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔جبکہ یہی لوگ سوشل میڈیا پر مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات لگاتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں،ایسی غلیظ زبان کا استعمال کرتے ہیں جس کا اندازہ بغیر اس کو پڑھے ہوئے نہیں لگایا جا سکتا یہ چونکہ سماجی روابط کی ویب سائٹوں پر ایسا کرتے ہیں اس لیے یہ بھی طے ہے کہ یہ پڑھے لکھے لوگ ہیں۔جب کسی ملک میں پڑھے لکھے لوگوں میں نفرت کا جذبہ اس طرح پیدا ہو جائے کہ وہ آبادی میں اضافہ کے لیے خود اپیل کریں اور دوسروں کو اس کے لیے ذمہ دار ٹھہرائیں جبکہ حقیقت سے وہ نابلد رہیں تویقین کرلینا چاہیے کہ زہر ان کے رگ و ریشے میں سماچکا ہے۔مسلمان اپنی سطح پر حکومت کے منصوبوں میں پوری طرح سے تعاون کر رہا ہے جس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ وہ آبادی کم کرنے والوں میں پہلے مقام پر آگیا لیکن دوسری جانب نفرت پھیلانے والوں نے اپنی زبانیں نہیں روکی ہیں، وہ بتدریج آگے ہی بڑھتے جارہے ہیں۔حکومت کی جانب سے اس زہر کو روکنے کی کسی بھی طرح کی کوشش بھی نظر نہیں آتی ہے۔
نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5(این ایف ایچ ایس)سے پیو ریسرچ سینٹر ( Pew Research Center)کی وہ رپورٹ بھی خارج ہوجاتی ہے جس سے مذہبی تنافر میں اضافہ ہوتا ہے۔24ستمبر2021کو جاری اس رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ’’ ہندوؤں کی مسلمانوں کے مقابلے بچہ پیدا کرنے کی شرح قومی شرح سے بھی کم ہے۔ پورے ملک کی اس وقت فی کس بچہ پیدا کرنے کی شرح 2.2ہے جبکہ ہندوؤں کی یہی شرح محض 2.1ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی اس وقت بچہ پیدا کرنے کی شرح سبھی مذاہب سے زیادہ ہے۔‘‘اس طرح کی رپورٹ تیار کرنے والوں کو سرکاری اعداد و شمار بھی نظر میں رکھنے چاہیے،ان کو رپورٹ تیار کرتے وقت کچھ خاص افراد کی خوشنودی نظر کے سامنے نہیں رکھنی چاہیے۔اس طرح کی رپورٹوں سے انہیں کچھ وقت کے لیے تو کچھ فائدے ہوسکتے ہیں لیکن اس سے نفرت کی جو آندھی آسکتی ہے وہ سب کچھ اپنے ساتھ اڑاکر لیے چلی جائے گی۔اس کے باوجو مسلمانوں کو اسلامی احکامات کے تناظر میں اس میں مزید کمی کے لیے کوشاں رہنا چاہیے تاکہ ہر پیدا ہونے والے بچے کی اچھے سے نگہداشت ہوسکے اور وہ اپنی زندگی کو پرسکون گزار سکے۔
اسلام میں فیملی پلاننگ کا مروجہ طریق کار اگر چہ نہیں ہے، اس کے باوجود اس نے متعدد اسباب کی بنا پر اس کی اجازت بھی دی ہے۔جن کا مجموعی طور پر مطلب یہ ہے کہ اگر عورت یا بچے دونوں میں سے کسی ایک کے بیمار اور کمزور ہونے کا اندیشہ ہو، عورت بیمار رہتی ہو۔اسی طرح سے دو بچوں کی پیدائش کے درمیان اتنا وقفہ ضرور رکھنا چاہیے تاکہ اس بچے کی پرورش،تربیت اور تعلیم کا مناسب وقت مل سکے۔دوسرے بچے کی پیدائش کی وجہ سے پہلے بچے پر منفی اثرات نہ پڑیںتو فیملی پلاننگ کا طریقہ اختیار کیا جا سکتا ہے جس کے لیے لفظ ’’عزل‘‘ کا استعمال کیا گیا ہے لیکن وہی شرط نہیں ہے مروجہ طریقے چونکہ زیادہ محفوظ اور سائنٹفک ہیں،اس لیے ان کا استعمال کیا جانا چاہیے۔مروجہ فیملی پلاننگ کا مقصود بھی یہی ہے، اس لیے اس کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے۔یہ جہاں بچوں اور ماں کی صحت کے لیے مفید ہے، وہیں ان کی تعلیم و تربیت اور بہتر زندگی کے لیے بھی ضروری ہے۔لیکن اس کے لیے ممنوعہ طریقوں کا استعمال کسی بھی صورت میں نہیں ہوناچاہیے جس سے قتل جنین لازم آئے یا نس بندی یا کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا جس سے مرد و عورت دونوں میں سے کسی میں بھی توالد و تناسل کی صلاحیت(بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت)ہی ختم ہوجائے کیونکہ یہ ایک ضمنی اور وقتی عمل ہے،جس کے لیے اسی طرح کا طریقہ بھی اختیار کیا جانا چاہیے۔ فیملی پلاننگ کے نام پر مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے والوں کواین ایف ایچ ایس5کی حالیہ رپورٹ دیکھ کر اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے اور جائزہ لینا چاہیے کہ مسلمان کس تیزی سے قومی نصب العین کی طرف بڑھ رہے ہیں جبکہ دوسرے افرادکیسے مذہب کے نام پر قومی نصب العین سے انحراف کرتے ہوئے عوام کو ورغلا رہے ہیں اور نفرت کو فروغ دے رہے ہیں۔ان کو اس رپورٹ کے آزمانے کے بعد سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے قول میں کتنے سچے اور کتنے محب وطن ہیں۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS