شرانگیزی پر لگام

0

ہندوستان میں مسلم دشمنی، اتحاد و سالمیت اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر چہارجانب سے یلغار کی کوششوں کے درمیان عدالتوں کا دم غنیمت محسوس ہورہاہے۔ ابھی کل ہی عدالت عظمیٰ نے ملک سے بغاوت کے قانون پر روک لگاکر جمہوریت کو کچلنے اور مسلم دشمنی نکالنے والے حکمرانوں کو لگام لگائی تھی اور آج الٰہ آباد ہائی کورٹ نے تاج محل کو تیجو مہالیہ بتاکر اس کے 20کمرے اور تہہ خانے کھلوانے کیلئے دی گئی عرضی کو مسترد کرکے فرقہ پرستوں کی بڑھتی مسلم دشمنی کے کارواں پر بریک لگانے کا کام کیا ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے عرضی گزار کو بھی سخت سرزنش کرتے ہوئے اسے تاریخ پڑھنے اور تحقیق کرنے کا مشورہ بھی دیا ہے۔جج جسٹس ڈی کے اپادھیائے نے عرضی گزار سے کہا کہ تاج محل کس نے بنایا ہے، پہلے اس معاملے پر تحقیق کریں۔ یونیورسٹی جا کر اس موضوع پر معلومات اکٹھی کریں۔ایم اے کریں، نیٹ، جے آر ایف اور پی ایچ ڈی کریں اور اگر کوئی روکے تب ہمارے پاس آئیں۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے مفاد عامہ کی بے مغز اور فضول عرضیوں پر بھی اپنے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔
دراصل بھارتیہ جنتاپارٹی کے ایودھیا میڈیا انچارج ڈاکٹر رجنیش سنگھ نے 7 مئی کو عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس میں اس نے عدالت سے مطالبہ کیاتھا کہ تاج محل کے 22 میں سے 20 کمروں کو کھولے جانے کا حکم دیا جائے۔ اپنی عرضی میں تاریخ سے ناواقف بی جے پی کے اس لیڈر نے ان کمروں میں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھنے کا امکان بھی ظاہر کیا ہے۔ عرضی گزارکا دعویٰ ہے کہ ان بند کمروں یا تہہ خانوں کو کھول کر اس کا راز دنیا کے سامنے لایاجانا چاہیے۔اس عرضی کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جسٹس ڈی کے اپادھیائے اور جسٹس سبھاش ودیارتھی پر مشتمل الٰہ آباد ہائی کورٹ کی دو نفری لکھنؤ بنچ نے دوران سماعت ہی عرضی گزار کی نیت بھانپ لی اورکہا کہ عرضی گزار نے مکمل طور پر غیر منصفانہ معاملے پر فیصلہ طلب کیا ہے، ان درخواستوں پر یہ عدالت فیصلہ نہیں کر سکتی۔
تاج محل جیسے عالمی ورثہ کو مذہبی شناخت دینے کی کوشش عرصہ سے ہورہی ہے لیکن عدالتوں نے ان معاملات میں عرضی گزاروں کی حوصلہ شکنی ہی ہے۔اس سے قبل بھی عدالتیں ایسی کئی عرضیاں مسترد کرچکی ہیں۔ ابھی حال کے دنوں میں ہی جے پورکے سابق شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کی رکن پارلیمنٹ دیاکماری نے بھی ایک دعویٰ کیاتھا کہ تاج محل جے پور کے شاہی خاندان کی زمین پر بنایاگیاہے اور وقت آنے پر وہ اس کی دستاویز بھی پیش کرسکتی ہیں۔ سال2000میں تو ایک درخواست گزار نے سنک کی انتہا پار کرتے ہوئے عدالت سے کہا تھا کہ تاج محل دراصل شیو مندر تھا جس پر مغلوں نے قبضہ کرلیا اور پھر بعد میں اسے موجودہ شکل دی گئی۔خود کو تاریخ داں بتانے والے پرشوتم ناگیش اوک (پی این اوک) نام کے اس عرضی گزار کو عدالت عظمیٰ نے سخت سرزنش کرتے ہوئے اس کی عرضی کو سنک پر محمول قرار دیا تھا اور عرضی گزار کے بارے میں انگریزی محاورہ ’’Bee in his bonnet‘‘ کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ایک لایعنی قسم کے جنون میں مبتلا ہے اور اس پر ایک ہی سنک سوار ہے۔ اس وقت یہ معاملہ دب گیا تھا لیکن اب بابری مسجد کو رام جنم بھومی قرار دیے جانے کے بعد سے تو ان جیسے معاملات کاایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔بنارس کی گیان واپی مسجد کو کاشی وشوناتھ مندر، دہلی کی مسجد قوۃ الاسلام اور قطب مینارکو وشنو اسمتبھ، متھرا کی شاہی عیدگاہ کوشری کرشنا جنم بھومی، جونپور ضلع میں واقع اٹالہ مسجد کواٹلا دیوی مندر، مغربی بنگال کے مالدہ کی آدینا مسجد کو آدی ناتھ مندر، مدھیہ پردیش کے دھار ضلع میںکمال مولا مسجد کو بھوج شالا ماتاسرسوتی مندر، مدھیہ پردیش کے ہی ودیشا ضلع میں بیجا منڈل مسجد کو چرچیکا دیوی مندر، گجرات کے احمدآباد کی جامع مسجد کو بھدر کالی ماتا مندر، گجرات کے ہی پٹن ضلع کے سدھ پور کی جامع مسجد کو رودر مہالیہ مندر ہونے کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا اور دیگر تاریخ داں اس طرح کے تمام دعوے مسترد کرتے آئے ہیںاور یہ مشورہ بھی دیتے رہے ہیں کہ عالمی ورثہ قرار پانے والی کسی بھی عمارت کومذہبی رنگ دینا وطن دوستی یا قوم پرستی نہیں ہے۔ تاج محل اور تمام دیگر معاملات میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا بھی بارہا واضح کرچکا ہے کہ اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ تاج محل کبھی مندر تھا یا کوئی دوسری عبادت گاہ تھی جسے منہدم کرکے موجودہ عمارت بنائی گئی ہے۔اس کے باوجود بھارتیہ جنتا پارٹی، آر ایس ایس اوراس کی ذیلی تنظیمیں پیچھے نہیں ہٹی ہیں۔عدالت سے فیصلہ کے بجائے مصالحت اور ثالثی کی وجہ سے بابری مسجد – رام جنم بھومی کا قضیہ نمٹ جانے کے بعد سے انہیں ایسے ہی کسی دوسرے ایشو کی تلاش ہے تاکہ وہ ہند و-مسلم منافرت اور فرقہ پرستی کو فروغ دے کر اپنے اقتدار کو طول دے سکیں۔ اس لیے وہ وقتاً فوقتاً ایسی شرانگیزی کرتی رہتی ہیں۔ تاج محل کے معاملے میں عدالت سے عرضی کا خارج ہونا ایسی شر انگیزی کی را ہ روکنے کی کامیاب کوشش ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS