چین پر شکنجے کا نیا داؤ

0

برہم دیپ الونے

طاقت کا توازن اور اجتماعی سلامتی کے مفروضے فوجی مزاحمت کے اصول پر مبنی ہوتے ہیں۔ حالاں کہ امن کے قیام کے لیے جنگ کی ضرورتوں کو بھی قبول کیے جانے سے کوئی پرہیز نظر نہیں آتا۔ چین کی اسٹرٹیجک، معاشی اور سیاسی خواہشات اور جارحانہ سلوک نے ایشیاپیسفک علاقہ میں جنگ کے خدشات میں اضافہ کردیا ہے۔ اب اس علاقہ کے ایسے ممالک بھی ایٹمی ذخیرہ اور جدید ہتھیار میں اضافہ کے لیے مجبور ہوگئے ہیں جو اب تک نسبتاً پرامن سمجھے جاتے تھے۔ حال میں امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان جو دفاعی معاہدہ ہوا ہے، اسے آکس نام دیا گیا ہے۔ اس معاہدہ کے مطابق امریکہ اپنی پن ڈبّی تکنیک آسٹریلیا کو دے گا۔ ظاہر ہے، اس کے بعد آسٹریلیا کی بحریہ دنیا کی ان چنندہ فوجی طاقتوں کی برابری میں کھڑا ہوگا جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس سمجھی جاتی ہیں۔ کئی دہائیوں قبل امریکہ نے یہ تکنیک برطانیہ سے بھی شیئر کی تھی۔ اب آسٹریلیا اس کا نیا پارٹنربن گیا ہے۔ آسٹریلیا کے تعلق سے امریکہ کا بڑھتا فوجی تعاون کسی فوجی معاہدہ سے بڑھ کر اس پورے علاقہ کے لیے دوراندیشانہ قدم نظر آتا ہے۔
گزشتہ کچھ برسوں میں چین کے سلسلہ میں آسٹریلیا بہت واضح طور پر سامنے آیا ہے۔ چین آسٹریلیا کا سب سے بڑا بزنس پارٹنر رہا ہے، لیکن آسٹریلیا نے بڑے قومی مفادات کی خاطر چین کو چیلنج دینے سے پرہیز بھی نہیں کیا۔ اس کی شروعات 2018میں ہوئی جب آسٹریلیا دنیا کا ایسا پہلا ملک بن گیا جس نے چینی کمپنی خواوے کے 5جی نیٹ ورک پر پابندی عائد کردی تھی۔ اس کے بعد کورونا وبا سے متعلق بھی آسٹریلیا نے عالمی برادری سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ وہ کورونا وائرس کو پروڈیوس کرنے کے سلسلہ میں چین کے کردار کی جانچ کرے۔ چین نے جب آسٹریلیا پر دباؤ بنانے کی کوشش کی تو آسٹریلیا نے پلٹ وار کرتے ہوئے نہ صرف چین میں رہنے والے اویغور مسلمانوں پر مظالم کے تعلق سے اس کی سخت تنقید کی، بلکہ اس کے بہت ہی اہم بیلٹ اینڈ روڈ پروجیکٹ سے وابستہ دو معاہدے بھی رد کردیے۔ غور طلب ہے کہ آسٹریلیا کواڈ گروپ کا ممبر ہے جسے چین مخالف سمجھا جاتا ہے۔
آسٹریلیا اور چین کے مابین گہرے ہوتے تنازع کے پیچھے امریکہ اور ان دونوں ممالک کے ایشیا پیسفک علاقہ میں آپسی مفادات ہیں۔ آسٹریلیا سب سے چھوٹا براعظم ہے جو جنوبی نصف کرہ (southern hemisphere) میں واقع ہے اور شمال اور مشرق میں بحراوقیانوس اور مغرب-جنوب میں بحرہند سے گھرا ہے۔ آسٹریلیا اور چین آپس میں سمندری حدود شیئر کرتے ہیں۔ اس لیے آسٹریلیا جنوبی بحیرئہ چین میں چین کی داداگری سے تشویش میں مبتلا ہے۔ اسے محسوس ہورہا ہے کہ اگر ہندپیسفک علاقہ میں چین کی پن ڈبی اسٹرٹیجی دباؤ ڈالنے کے لیے گھوم سکتی ہیں تو یقینا یہ مستقبل میں مغربی پیسفک علاقہ میں بھی آسکتی ہے۔ آکس معاہدہ کے بعد آسٹریلیا اب ایٹمی طاقت سے چلنے والی پن ڈبیوں کا پروڈکشن کرے گا۔ یہ خاص پن ڈبیاں مہینوں تک پانی میں رہ سکتی ہیں اور لمبی دوری تک میزائلیں داغ سکتی ہیں۔ پھر آسٹریلیا میں ایٹمی پن ڈبیوں کی موجودگی جنوبی نصف کرہ میں امریکی اثر کو بڑھانے میں بھی مددگار ہوگی۔ گزشتہ ایک دہائی میں امریکہ نے ایشیا پیسفک علاقہ میں چین کا سامنا کرنے کے مقصد سے کئی اقدامات کیے ہیں۔ اس نظر سے کواڈ گروپ کی تشکیل اور سرگرمی کے بعد اب آکس بے حد خاص سمجھا جارہا ہے۔ یہ خالص فوجی معاہدہ ہے۔
کواڈ ممالک کے آپسی مفادات سے پرے امریکہ کے حالیہ رُخ کو بے حد جارحانہ سمجھا جارہا ہے۔ اس کا سبب یہ بھی ہے کہ کواڈ کے ممبر جاپان اور ہندوستان، چین کے خلاف اس طرح واضح طور پر سامنے نہیں آئے جیسے تیور آسٹریلیا نے دکھائے۔ حالاں کہ اس کے پیچھے ہندوستان کی اپنی علاقائی اور اسٹرٹیجک مجبوریاں رہی ہیں۔ وہ امریکہ سے مضبوط رشتہ تو چاہتا ہے لیکن اس کے روس اور ایران جیسے سخت امریکہ مخالف ممالک سے بھی رشتے نارمل ہیں۔ وہیں جاپان اپنے معاشی مفادات کے سلسلہ میں زیادہ پرعزم نظر آتا ہے جس میں اس کی چین سے معاشی شراکت داری شامل ہے۔ ظاہر ہے، امریکہ کے لیے اس علاقہ میں آسٹریلیا ایسا خاص ملک بن گیا ہے جو چین سے متعلق مسلسل جارحانہ رُخ اختیار کررہا ہے۔
امریکہ کی نظر انڈوپیسفک ریجن کی اسٹرٹیجک اور اقتصادی اہمیت پر بھی ہے۔ اس علاقہ میں چین نے کئی ممالک کو چیلنج دے کر تنازعات کو بڑھایا ہے۔ چین ون بیلٹ ون روڈ پروجیکٹ کو پورا کرکے دنیا میں اپنا تسلط قائم کرنا چاہتا ہے اور اس کے مرکز میں انڈوپیسفک ریجن کی اہم شراکت داری ہے۔ چین-پاکستان کی بڑھتی شراکت داری نے بھی مسائل میں اضافہ کیا ہے۔ چین پاکستان کی گوادر بندرگاہ کا اہم شراکت دار ہے۔ سری لنکا کی ہن بن ٹوٹا بندرگاہ، بنگلہ دیش کی چٹ گاؤں بندرگاہ، میانما کے سِتوے پروجیکٹ سمیت مالدیپ کے کئی غیرآباد جزیروں پر چینی قبضہ سے ہندوستان کی اسٹرٹیجک اور سمندری سکیورٹی کے تعلق سے چیلنجز میں اضافہ ہوگیا ہے۔ غور طلب ہے کہ انڈوپیسفک ریجن میں 38ممالک شامل ہیں جو دنیا کے کل رقبہ (ٹوٹل سرفیس ایریا)کا 44فیصد، کل آبادی کا 65فیصد، کل جی ڈی پی کا 62فیصد اور دنیا کی تجارت میں 46فیصد ہیں۔ انڈوپیسفک ریجن سے وابستہ بندرگاہیں دنیا کی سب سے زیادہ مصروف بندرگاہوں میں ہیں۔اس کے تحت ایک اہم علاقہ جنوبی بحیرئہ چین آتا ہے۔ جنوبی بحیرئہ چین کا علاقہ بحرہند اور بحراوقیانوس کے درمیان میں ہے اور چین، تائیوان، ویتنام، ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی اور فلپائن سے گھرا ہوا ہے۔ یہاں کئی آسیان ممالک کے ساتھ چین کا تنازع ہے۔ لیکن چین پر معاشی انحصار کے سبب زیادہ تر ممالک چین کو چیلنج دینے میں ناکام رہے ہیں۔

اجتماعی تحفظ کا واضح تصور ہے کہ دنیا میں جنگ کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ طاقت پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جو جنگ کا بنیادی سبب ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چین سے ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتے خطرات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے یوروپ سے اپنی فوج کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آسٹریلیا کے بعد امریکہ کی امیدیں ہندوستان سے وابستہ ہوں گی۔

جہاں تک سوال ہے ہندوستان کا تو چین کے سلسلہ میں ہندوستان کی تشویشات کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ ہندوستانی بحریہ میں اس وقت واحد آئی این ایس اری ہنت ایٹمی پن ڈبی ہی تعینات ہے۔ اس سے پہلے روس سے کرایہ پر لی گئی آئی این ایس چکرایٹمی پن ڈبی ہندوستانی سمندری علاقہ کی رکھوالی رکھتی تھی۔ ابھی تک ہندوستان سمندری سکیورٹی کے تعلق سے کافی حد تک روس پر منحصر رہا ہے۔ چین کا بڑھتا دفاعی بجٹ ہندوستان کے لیے تشویش کی بڑی وجہ ہے۔ چین نے بیلسٹک میزائلوں کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے میں چین کو روکنے کے لیے امریکہ ہی پرعزم نظر آتا ہے۔ اس کے لیے اس کی اپنے دیگر ساتھیوں سے بھی امیدیں بڑھ گئی ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے مابین آکس کی تشکیل کے بعد کواڈ کے باقی معاون ممالک جاپان اور ہندوستان پر فوجی معاہدے کے سلسلہ میں دباؤ بڑھے گا۔ بائیڈن انتظامیہ یہ قبول کرچکا ہے کہ چین ہی معاشی، ڈپلومیٹک، فوجی اور تکنیکی نظریہ سے اس کا حریف ہے جو مستحکم اور کھلے بین الاقوامی سسٹم کے مسلسل چیلنج کو پورا کرنے میں کامیاب ہے۔ ناٹو بھی چین کو اجتماعی تحفظ کے لیے چیلنج بتاکر امریکہ کی چین کے تئیں جارحانہ اور کنٹرول کرنے والی پالیسی کو اپنی مکمل حمایت دینے کا اعلان کرچکا ہے۔
اجتماعی تحفظ کا واضح تصور ہے کہ دنیا میں جنگ کو ختم نہیں کیا جاسکتا، بلکہ طاقت پر کنٹرول رکھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جو جنگ کا بنیادی سبب ہے۔ سابق امریکی وزیرخارجہ مائک پومپیو پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ چین سے ہندوستان اور جنوب مشرقی ایشیا میں بڑھتے خطرات کو دیکھتے ہوئے امریکہ نے یوروپ سے اپنی فوج کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ آسٹریلیا کے بعد امریکہ کی امیدیں ہندوستان سے وابستہ ہوں گی۔ بحرہند سے ہندوستان کے بڑے اسٹرٹیجک اور معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ اس لیے اب پورے امکانات ہیں کہ ہندوستان بھی اپنے سمندری حدود کو مضبوط کرنے کے لیے آکس جیسے معاہدہ کو لے کر آگے بڑھے۔
(بشکریہ: جن ستّا)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS