مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری

0
Image: Times Now

بہتر انسانی طرز عمل اورمہذب معاشرہ کی تشکیل میں مذہب بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔انسانوں کو مذہب کی اسی ضرورت کے پیش نظر کم و بیش دنیا کے تمام ممالک میں فرد کو مذہب پر عمل درآمد کا دستوری حق دیا گیا ہے۔ہندوستان کے آئین میں بھی یہ ضمانت دی گئی ہے کہ اس کے شہری کسی بھی مذہب کو اپنانے، اس پر عمل کرنے اوراس کی ترویج و اشاعت اور تبلیغ کیلئے آزاد ہیں۔ہندوستان کے آئین کی دفعہ25سے 28تک میں مذہبی آزادی کے مختلف نکات بیان کرتے ہوئے اس حق کی صراحت کی گئی ہے لیکن آج کا حکمراں طبقہ اور بھارتیہ جنتاپارٹی شہریوں کے ان حقوق کو تسلیم کرنے سے عملاً انکاری ہے۔ خاص کر وہ ریاستیں جہاں بی جے پی کی حکومت ہے شہریوں کے یہ حقوق بری طرح روندے جارہے ہیں۔ مذہب اسلام کے سلسلے میں تو حکمرانوں اور بی جے پی کا رویہ انتہائی معاندانہ اور شرپسندانہ ہوگیا ہے۔ اسلام کے ماننے والوں اوراس مذہب کی تبلیغ و اشاعت کے کام میں مصروف مسلمانوںکے خلاف ریاستی جبر اپنی پوری طاقت کے ساتھ رو بہ عمل آگیا ہے او ر چن چن کرا یسے لوگوں کو پس زنداں کیاجارہاہے جو اسلام کی دعوت توحید بلند کرنے کا داعیہ لیے ہوئے میدان عمل میں ہیں۔
اترپردیش کے مظفر نگر کے مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری مسلمانوں اور اسلام کے خلاف اس حکومتی عناد اور شرپسندی کی تازہ مثال ہے۔مولانا کلیم صدیقی لساڑی گیٹ ہمایوں نگر کی ماشاء اللہ مسجد کے ایک پروگرام میں شرکت کے بعد اپنے آبائی گاؤں پھلت ضلع مظفر نگر واپس جارہے تھے، اس دوران وہ نماز عشا کیلئے میرٹھ میں رکے، نماز سے فراغت کے بعد جب وہ پھلت کیلئے روانہ ہوئے تو سکیورٹی ایجنسی نے مولاناکلیم صدیقی اوران کے دیگر چار رفقا کو اپنی حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا۔میرٹھ سے مظفر نگر میں مولانا کا گاؤں پھلت تقریباً پینتالیس منٹ کی مسافت پر واقع ہے لیکن جب وہ چار پانچ گھنٹوں کے بعد بھی اپنے گائوں نہیں پہنچے اور ان کا موبائل فون بھی بند ملا تو ان کے رشتہ داروں اور رفقاکو تشویش ہوئی۔ جب لساڑی گیٹ تھانہ سے رابطہ کیاگیا تو پولیس نے بتایا کہ مولانا کی ’ مشکوک سرگرمیوں‘ کے پیش نظر انہیں اوران کے دوسر ے ساتھیوں کو اے ٹی ایس نے اپنی تحویل میں لے لیاہے اور تفتیش کیلئے انہیں نامعلوم مقام پر لے جایاگیا ہے۔بعدازاںحکام نے بتایا کہ مولانا اوران کے رفقاکو اینٹی ٹیررسٹ اسکواڈ(اے ٹی ایس) نے باقاعدہ گرفتار کرلیا ہے اورانہیں مظفر نگر سے لکھنؤ لے جایا گیا ہے۔
لکھنؤ میں اے ٹی ایس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل آف پولیس (لاء اینڈ آرڈر) نے اسلام کے داعی کبیر مظفر نگر کے رہائشی مولاناکلیم صدیقی پر دو سنگین الزامات عائد کیے ہیں۔اے ٹی ایس نے کہا کہ مولانا کلیم صدیقی ہندوستان میں تبدیلی مذہب معاملہ کے سب سے بڑے سرغنہ ہیں اور انہیں اس کام کیلئے بھاری غیر ملکی فنڈنگ ہوتی ہے۔ اے ٹی ایس کا کہنا ہے کہ مولانا کلیم صدیقی ہندوستان کا سب سے بڑا تبدیلی مذہب سنڈیکیٹ چلاتے ہیں،مختلف طرح کے تعلیمی اور سماجی اداروں کی آڑ میں غیر مسلموں کو گمراہ کر کے اور ڈرا دھمکا کر ان کا مذہب تبدیل کراتے ہیں۔ اس کیلئے بیرون ممالک سے فنڈنگ کی جارہی ہے۔اس سے قبل بھی ان ہی الزامات میں پولیس محمد عمر گوتم اور مفتی جہانگیر قاسمی کو بھی گرفتار کرچکی ہے۔ ان دونوں علمائے کرام کی گرفتاری کوتین ماہ سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن پولیس اوراے ٹی ایس اب تک اپنا الزام ثابت نہیں کرپائی ہے۔
ملکی آئین اور انسانی بنیادی حقوق کی رو سے تبدیلی مذہب نہ تو کوئی جرم ہے اور نہ کسی مذہب کی دعوت دینا اور اس کی ترویج و اشاعت کیلئے کام کرنا قابل مواخذہ ہوسکتا ہے۔ اس کے برخلاف ریاست کا یہ فرض ہے کہ شہریوں کو دی گئی مذہبی آزادی کے اس حق کا احترام کرتے ہوئے اس کی حفاظت یقینی بنائے۔حکومت نہ تو تبدیلی مذہب پر پابندی لگاسکتی ہے اور نہ دعوت دین کا کام کرنے والوں کی زبان بندی کا حق رکھتی ہے۔رضاکارانہ طور پر بغیرکسی لالچ کے اپنی مرضی سے اگر کوئی شخص کوئی دوسرا مذہب قبول کرتا ہے تو یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ معاشرہ میں اس شخص کی نئی مذہبی شناخت کوخطرات سے تحفظ فراہم کرے۔لیکن حکومت اس آئینی فریضہ کی انجام دہی کی بجائے تبدیلی مذہب کو ’ جبریہ تبدیلی مذہب‘ کا نام دے کر ایک طرف شہریوں کے بنیادی حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہے تو دوسری طرف اس سے سیاسی فائدہ بھی حاصل کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔مولانا کلیم صدیقی کی گرفتاری کو بھی دنیا اسی تناظر میں دیکھ رہی ہے۔رات کے اندھیرے میں کسی عالم دین کو گرفتار کرنا اور اول جلول الزامات عائد کرنے کو حکومت کی شرپسندی اور مسلمانوں کے خلاف عناد کے علاوہ کوئی دوسرانام نہیں دیاجاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS