نیا انتخابی ایشو: ہنومان چالیسا

0

ہندوستان میں ہندوتو کی سیاست ایودھیا میں رام جنم بھومی اور رام مندر کے گرد گھومتی رہی تھی لیکن عدالت عظمیٰ کی جانب سے بابری مسجد کی جگہ کو رام مندر کیلئے سونپے جانے اور وہاں ’ عظیم الشان‘ رام مند ر کی بنیاد پڑنے کے ساتھ ہی یہ مسئلہ ’ ختم‘ ہوگیااور ان کے ہاتھ سے ایک بڑا انتخابی ایشو نکل گیا۔ اب مذہب کی سیاست کرنے والی یہ پارٹیاں ہر وہ ایشوز اٹھارہی ہیں جس سے معاشرے کی ہم آہنگی کو ختم کرکے فرقہ واریت، مذہبی شدت پسندی اور مسلم دشمنی کو بڑھاوا دیا جاسکے۔اذان کے مقابلے پر ہنومان چالیسا کو لانا فرقہ پرست سیاسی جماعتوں کی اسی مہم کا حصہ ہے۔ ہنومان چالیسا کے نام پر مسلمانوں کے خلاف اب ہنومان بھکتوں کوکھڑاکیاجارہاہے۔یہ ہنومان بھکت جموں و کشمیر سے گوا تک اور دہلی سے مہاراشٹر تک لائوڈ اسپیکر پر اذان کے مقابلے میں ہنومان چالیسا کا پاٹھ پڑھنے کیلئے بضد ہیںاور اپنی سادہ لوحی میں یہ نہیں سمجھ پارہے ہیں کہ ہنومان سے ان کی عقیدت کو یہ سیاسی جماعتیں اپنی فرقہ پرستی کا ایندھن بناکرا پنے اقتدار کی روٹی سینکناچاہتی ہیں۔
مہاراشٹر میں اذان کے خلاف بھارتیہ جنتاپارٹی اور مہاراشٹر نونرمان سینا کا ہنومان چالیسا ایپی سوڈ بھی اسی سیاست کا حصہ ہے جس میں ایم ایل اے روی رانا اوران کی رکن پارلیمنٹ اہلیہ نونیت کور رانا بھی کود پڑیں۔یہ دونوں آزاد ارکان قانون سازاسمبلی اور پارلیمنٹ میاں بیوی نے ہنومان چالیسا کے پردے کی آڑ میں مہاراشٹر کی فرقہ وارانہ فضا خراب کرنے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی، اگر انہیں تھوڑی سی بھی ڈھیل مل جاتی تو کچھ بعید نہیں تھا کہ مہاراشٹر میں فرقہ وارانہ فساد کا منصوبہ کامیاب ہوجاتا۔ ان دونوں میاں بیوی نے لائوڈ اسپیکر پر اذان دیے جانے کی مخالفت میں مہاراشٹر کے وزیراعلیٰ ادھو ٹھاکر ے کے گھر ’ماتوشری‘ کے سامنے ہنومان چالیسا کا پاٹھ پڑھنے کا اعلان کیاتھا اوراس کیلئے ہنومان بھکتوں کی ایک فوج بھی تیار رکھی تھی۔ لیکن اس موقع پر انتظامیہ نے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں زن و شو کو گرفتار کرکے فساد پھیلانے کے منصوبہ پر ہی پانی پھیر دیا۔ ان دونوں پرا پنے زہرآلود بیانات سے مذہب اور ذات کی بنیاد پر فساد پھیلانے کیلئے ممبئی کے کھار تھانہ میں تعزیرات ہندکی دفعہ 355الف کے تحت مقدمہ بھی درج کرلیاگیا ہے۔
لائوڈ اسپیکر سے اذان دیے جانے کا معاملہ ایسا نہیں ہے کہ کوئی نیا معاملہ ہو۔یہ معاملہ ملک کی مختلف عدالتوں میں زیر غور ہے اوراس پر عدلیہ کی جانب سے اب تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے لیکن فرقہ پرست سیاسی جماعتیں اوران کے بونے لیڈر اس مسئلہ کو سڑک پر لاکر جہاں اپنی روایتی مسلم دشمنی کا ثبوت دے رہے ہیں، وہیں برادران وطن کے مذہبی جذبات کو انگیخت کرکے اپنی سیاست ہموار کرنے میں لگے ہیں۔ممبئی میں اس معاملے کاازسرنوآغاز بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیا ہے۔موہت کمبوج نام کے بی جے پی لیڈر نے اس معاملہ پر 15 اپریل کو ممبئی کے پولیس کمشنر کو عرضداشت دے کر لائوڈ اسپیکر پر اذان سے صوتی آلودگی میں اضافہ کی شکایت کی تھی لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے ہنومان چالیسا کا پاٹھ پڑھنے کیلئے مندروں میں مفت لائوڈ اسپیکر کی تقسیم کا اعلان بھی کردیا۔
اس کے اس اعلان سے ہی یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ معاملہ صوتی آلودگی کا نہیں بلکہ بھارتیہ جنتاپارٹی اوراس سے وابستہ لیڈروں کی نظریاتی آلودگی کا ہے۔ دوسری طرف مہاراشٹرکی سیاست میں حاشیہ پر پہنچ جانے والے مہاراشٹر نونرمان سینا کے سربراہ راج ٹھاکرے نے بھی اپنی دوسری سیاسی اننگ کیلئے اذان کا ایشو ہی منتخب کیا اور حکومت اور مسلمانوں کو 3مئی تک مسجدوں سے لائوڈ اسپیکراتارے جانے کا الٹی میٹم بھی دے دیا۔ اس کے بعد سے ہنومان بھکت کا چولا اوڑ ھ کرمہاراشٹر نونرمان سینا کے شدت پسند کارکنان مہاراشٹر خاص کر ممبئی میں جگہ بہ جگہ لائوڈ اسپیکر لگاکر ہنومان چالیسا کا پاٹھ کرنے لگے۔مسلمانوں کے خلاف اس شر انگیزی کو امراوتی کی ایم پی نونیت کور رانا اوران کے شوہر ایم ایل اے روی رانا نے خوب ہوا دی، جن مندروں میں لائوڈ اسپیکر نہیںتھا، وہاں مفت لائوڈ اسپیکر تقسیم کیا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہ آگ ممبئی سے نکل کر ملک کے دوسرے علاقوں میں پھیل گئی، جس کے بعد مہاراشٹر کی ادھوحکومت کو کل جماعتی میٹنگ بلانی پڑی اور میٹنگ کے اختتام پر ریاست کے وزیرداخلہ نے اپنا واضح موقف بیان کرتے ہوئے کہا کہ صوتی آلودگی کے معاملے میں حکومت 2005میں دی گئی سپریم کورٹ کے رہنما اصولوں کی پاسداری کرے گی۔لاؤڈاسپیکر پر اذان اورہنومان چالیسا تنازع میں نظم و نسق برقرار رکھناان کی حکومت کا پہلا قدم ہے اور قانون شکن عناصر کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔مسئلہ کے حل کی سمت میں مہاراشٹر حکومت کی اس کوشش کو ایک مناسب قدم سمجھاجاسکتا ہے لیکن بھارتیہ جنتاپارٹی نے اس میٹنگ کا بائیکاٹ کرکے یہ کھلا عندیہ دے دیا کہ وہ اس معاملے کوحل کرنے کیلئے تیار نہیں ہے، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ اس مسئلہ کو اگلا انتخابی ایشو بنارہی ہے۔یہ صورتحال بتارہی ہے کہ حکمراں جماعت اور اس سے وابستہ لیڈروں کو ملک میں بڑھتی بے روزگاری، مہنگائی، معاشی ابتری اور ملک کی ترقی سے کوئی سروکارنہیں،اقتدار پر قبضہ اور جہاں اقتدار میں نہیں ہیں وہاں اقتدار میں واپسی ہی ان کا واحد مقصد ہے اوررام مندر کا مسئلہ دم توڑنے کے بعد انہیں اس کیلئے نیا ایشو ’اذان -ہنومان چالیسا ‘ مل گیا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS