ہندوستان کیلئے نئے چیلنجز

0

ڈاکٹر وید پرتاپ ویدک
ہندوستان کی خارجہ پالیسی سے براہ راست تعلق رکھنے والے بہت سے واقعات ایک ساتھ پیش آئے اور پیش آرہے ہیں۔ چین کے وزیر خارجہ وانگ یی بھارت پہنچ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں یوکرین کی مدد کے لیے جو تجویز پیش کی گئی ہے، اس کی حمایت صرف چین نے کی ہے۔ ہندوستان اس میں بھی غیرجانبدار رہا ہے۔ امریکہ کے صدر جو بائیڈن یوروپ پہنچ چکے ہیں۔ یوروپی ممالک کے نئی دہلی میں مقیم سفیروں نے روس کی مخالفت میں ایک مشترکہ مضمون شائع کیا ہے۔ یہ کام وہ پہلے ہی اسلام آباد میں بھی کر چکے ہیں۔G-7ممالک کے گروپ نے روس پر کچھ نئی پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ ہمارے وزیر خارجہ جے شنکر نے پارلیمنٹ میں ہندوستان کی یوکرین پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کئی دلائل پیش کیے ہیں۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے ناٹو کی رکنیت کی بات تو ترک کر دی ہے لیکن یوروپی یونین کی رکنیت کا پر زور مطالبہ کیا ہے۔ ایک ماہ گزر گیا لیکن روس یوکرین جنگ رکنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ یوکرین کے عوام بڑی بہادری سے لڑ رہے ہیں۔ یوکرین کے کئی شہر منہدم ہو گئے ہیں اور تقریباً80لاکھ افراد ملک چھوڑ کر باہر چلے گئے ہیں۔ دوسری جانب روس کے بھی 15سے20ہزار فوجیوں کی ہلاکت اور طیاروں کی تباہی کی اطلاعات ہیں۔ یوروپ پر بھی ایٹمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں لیکن زیلنسکی کی درخواست کے باوجود ولادیمیر پوتن بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وقت یہ سمجھنا مشکل ہو رہا ہے کہ یہ جنگ کیسے ختم ہوگی؟ یہ بھی قدرے حیران کن ہے کہ زیلنسکی اب تک محفوظ کیسے ہیں؟ ہوسکتا ہے کہ پوتن انہیں زندہ ہی پکڑنا چاہتے ہوں۔ورنہ روس کے پاس ایسے فوجی ہتھیار خاطرخواہ تعداد میں ہیں، جن سے وہ زیلینسکی کے ٹھکانے پر حملہ کرسکیں۔روس نے سلامتی کونسل میں یوکرین کو مدد فراہم کرنے کی جو تجویز رکھی ہے، اس سے بڑا ظالمانہ مذاق کیا ہو سکتا ہے؟ اگر روس حملہ نہیں کرتا یا اب بھی اسے بند کر دے تو یہ اپنے آپ میں اس کا بہت بڑا احسان ہو گا۔ روس نے یوکرین کو ایسا گہرا دھچکا پہنچایا ہے، جتنا اسے دوسری جنگ عظیم میں بھی نہیں پہنچا تھا۔ روس نے پوری دنیا میں زبردست بدنامی مول لے لی ہے۔ ہندوستان کو اب سوچنا ہوگا کہ وہ کب تک روس کی حمایت کرتا رہے گا؟ چین نے روسی مدد کی تازہ ترین پیشکش کی حمایت کرکے روس کے گہرے دوست اور محافظ کا درجہ تو حاصل کر لیا ہے لیکن یوکرین کے سوال پراس نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہندوستان کی طرح غیرجانبدار نہیں ہے۔ یوکرین کے سوال پر ہندوستان اور چین کے رویوں میں تو واضح فرق نظر آہی رہا ہے، لیکن اسلام آباد میں وانگ یی نے کشمیر پر پاکستان نواز بیان دے کر اپنے دورہ ہند کو بے وقعت بنا دیا ہے۔ ان کی اور روسی نمائندے کی اچانک کابل روانگی سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اب افغانستان کو بھی پاکستان کی طرح اپنا مہرہ بنانا چاہتے ہیں۔ یہ تمام واقعات ہندوستانی وزارت خارجہ کو اپنی اب تک کی پالیسیوں پر نظرثانی کرنے پر مجبور کر یں گے۔
(مصنف ہندوستان کی خارجہ پالیسی کونسل کے چیئرمین ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS