چین کے ساتھ مذاکرات وقت کی بربادی

0

پروفیسر عتیق احمد فاروقی
گزشتہ 17جولائی کو لداخ کے ’چشُل مولڈو‘سرحد میٹنگ پوائنٹ پر ہندوستان اورچین کے درمیان کورکمانڈر سطح کے مذاکرات ہوئے ۔ قریب 12گھنٹے کی یہ میٹنگ بناکسی ٹھوس نتیجے کے ہی ختم ہوگئی۔ اس میں صرف اسی بات پر اتفاق رائے ہوا کہ مذاکرات کو جاری رکھاجائے۔ 16ویں دور کے اس مذاکرہ کے اگلے ہی دن ہندوستان اورچین کی وزارت خارجہ کے ذریعہ جاری مشترکہ پریس اعلامیہ میں کہاگیا ،’’11مارچ کو منعقد پچھلی 15ویں میٹنگ میں ہوئی پیش رفت کی بنیاد پر دونوں فریقین رابطہ بنائے رکھنے اورفوجی وسفارتی کڑیوں کے ذریعے بات چیت جاری رکھنے اورجلد ازجلدمدعوں کے باہمی طور پر قابل قبول حل کی سمت میں کام کرنے پر متفق ہوئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پورے اعلامیہ نئی امید اورباہمی اعتماد کی چاشنی میں لپٹی ہوئی دکھائی دیتی ہے لیکن اگر اس کے مفہوم کو بیان کیاجائے تو یہ مشہورقول کافی ہوگا کہ ’بوجھ سے لدی ہوئی گدھی پورے شہر کا چکر کاٹنے کے بعد اپنے ٹھکانے پروہیں آکھڑی ہوئی جہاں سے چلی تھی ‘۔ نہ تو اس اعلامیہ میں اورنہ دونوں فریقین کے کسی افسر کے پاس اس سوال کاجواب ہے کہ 11مارچ کی میٹنگ میں کس طرح کی پیش رفت ہوئی تھی اورمذاکرہ کے اس نئے دور میں یا پھر گزشتہ 27مہینوں سے چلے آرہے مذاکرات میں لداخ کے زمینی مورچے پر فوجی کشیدگی کو کم کرنے کیلئے کیا ٹھوس اقدامات کئے گئے ہیں ؟
اگراس سفارتی لفاظی سے الگ زمینی حقیقت دیکھی جائے تو 20مارچ 2020کے بعد لداخ کی سرحد پر کشیدگی گھٹنے کے بجائے مسلسل بڑھ رہی ہے۔ چینی فوجیوں نے پینگونگ جھیل کے علاقے میں آگے بڑھ کر فنگر4تک اپنا قبضہ جمالیاہے۔ چین کی اس جنگی بڑھت کے جواب میں ہندوستانی فوج کے ماہر سمجھے جانے والے تبتی دستے ’وکاس ریجیمنٹ-‘22(ٹوٹو ریجیمنٹ کے نام سے مشہور)کی مدد سے اس علاقے کی کیلاش چوٹیوں پر راتوں رات مارکرنے والے اسلحہ جات نصب کردئے گئے جس نے پورے علاقے میں تعینات چینی فوجیوں کیلئے وجود کا بحران کھڑا کردیا۔ اس خطرے سے پریشان چین کی پہل پر فوجی سطح پر مذاکرات کا جوسلسلہ شروع ہوا اس کے ابتدائی مرحلوں میں ہی ہندوستانی فریق چین کی اس یقین دہانی پر کیلاش چوٹیوں سے ’ٹوٹو ‘اور اسلحہ کو ہٹانے پر راضی ہوگیاکہ چین بھی اس دوران ہندوستانی علاقوں کو خالی کردے گا۔ اسی امید میں ہندوستانی فوج نے تو کیلاش چوٹیاں خالی کردیں لیکن چینی فریق ہندوستانی علاقوں کو خالی کرنے کے بجائے تخلیقی اوردوراندیشی مذاکرات کو جاری رکھنے سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں ۔ اتناہی نہیں اس بیچ چینی فوجیوں نے پینگونگ جھیل کے بیچ ایسا دہرا پُل بھی بناڈالا جسے محض ڈیڑھ گھنٹے کے اندر ٹینکوں اوربختر بند گاڑیوں کو سیدھے فنگر 4تک لاکر ہندوستانی فوج کیلئے نئی مصیبت کھڑی کرسکتے ہیں۔
دراصل گلوان جھڑپ میں ہندوستانی فوج کی زوردار جوابی کارروائی اورلمبی مدت تک پڑنے والی شدت کی سردی سے چین یہ سمجھ چکاہے کہ اس کے فوجیوں میںاس علاقے میں پورے سال تعینات رہنے کا دم نہیں ہے۔ اس لئے چین نے ہندوستان کے ساتھ مذاکرات کو لمبی مدت تک کھینچ کر ان کی آڑ میں اپنی حکمت عملی کو گزشتہ دوسال کے اندر برّی فوج کے بجائے ہوائی فوج اورمیزائلوں پر مبذول کرلیاہے۔ لداخ سرحد سے لگی ہوئی تبتی اور شنجیانگ(مشرقی ترکستان)کے علاقوں میں نئی ہوائی پٹیاں بنانے اور میزائلیں تعینات کرکے اس نے دباؤ میں اضافہ کردیاہے۔ خیال رہے کہ شنجیانگ پر 1949 اورتبت پر 1951 سے چین نے جبراً قبضہ کیاہواہے۔
ہندوستان میں پالیسی سازوں کو یہ یاد رکھناضروری ہے کہ چینی حکمت عملی (Strategy)میں حریف سے بات چیت کا صرف ایک ہی مطلب ہوتاہے کہ اسے باتوں میں الجھائے رکھ کر اس دوران اپنی قلعہ بندی کو اتنا مضبوط کرلیاجائے کہ موقع آنے پر بناجنگ کے ہی مخالف گروپ مذاکرہ کی میزپر گھٹنے ٹیکنے کو مجبور ہوجائے۔ ہمارے ملک کو یہ بھی نہیں بھولناچاہیے کہ 1981 میں گفتگو رابطہ کے پہلے دورمیں ہی چینی لیڈران نے سرحد تنازعہ کو کنارے رکھ کر اقتصادی اورتجارتی رشتے بنانے کا جو جال پھینکاتھا ہندوستان آج بھی اس میں پھنساہواہے۔ 2021ء میں ہند-چین تجارت ایک سوپچیس ارب ڈالر تھی جس میں چینی برآمدات کا حصہ 97؍ارب ڈالر سے زیادہ رہا اور گلوان جھڑپ کی تلخی اور’ میک اِن انڈیا‘مہم کے باوجود 2020 کے مقابلے اس تجارت میں چالیس فیصد کا اضافہ ہوا۔ ساتھ ہی 1993 سے لیکر 2020 تک کم ازکم آٹھ مذاکرات میں چین نے ایک بار بھی ہندوستان کو کوئی رعایت نہیں دی۔ الٹے ان کی آڑ میں ہندوستان کے خلاف اپنی تیاری کو اور مضبوط کیا۔
’چین کی مذاکرہ حکمت عملی ‘کی ایک تاریخی مثال 1949 میں شنجیانگ کے شدت پسند مسلم یغور لیڈران کو چیئرمین ماؤ کا ’خاندان‘اور’بھائی بھائی ‘جیسے دلفریب الفاظ کے ساتھ مذاکرات کی دعوت دی۔ ماؤ نے سبھی ترکی ذاتوں اور قبیلوں کے زیادہ تر سرداروں کو بات چیت کیلئے بیجنگ بلایا۔ اِس کیلئے سوویت یونین سے ایک ہوائی جہاز کا بھی انتظام کرلیالیکن وہ ہوائی جہاز بیجنگ پہنچنے سے قبل ہی راستے میں بم دھماکے میں تباہ ہوگیا۔ اس طرح چین کے نوآبادیاتی قبضہ کے خلاف لڑنے والے یغور لیڈران کی پوری نسل ایک جھٹکے میں ختم ہوگئی۔ یوروپ کے پارلیمنٹ کے الٹی میٹم سے ڈرے ہوئے چین نے 2002میں دلائی لامہ کے ساتھ مذاکرات تو شروع کئے لیکن وہ اسے کسی نہ کسی بہانے 2010تک ٹالتاگیا ۔ پھربھی چین نے تبت کی دارالحکومت لہاسہ کو بلٹ ٹرین سے جوڑکر وہاں سڑکوں اورفوجی ٹھکانوں کا نیا جال بچھالیا۔ ساتھ ہی تبت نے ہوان چینی شہریوں کو بڑی تعداد میں بساکر پورا پاسا ہی پلٹ دیا۔اب اس نے بات کرنے سے بھی انکار کردیاہے۔ چین کی اس ’مذاکرہ حکمت عملی‘اوراس کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے ہندوستان کے سیاسی ،سفارتی اورفوجی قیادت کو اچھی طرح سمجھ لیناچاہیے کہ چین کے مذاکرات ایسے اسٹیج جیسے ہوتے ہیں جس میں پردے کے سامنے تومسکراہٹ اورعشق کا ناٹک چلتاہے لیکن پردے کے پیچھے تلواروں کی دھار تیز کی جاتی ہے۔مذاکرہ میں کوئی حرج نہیں لیکن ان مذاکرات سے امن کی امید میں اپنی فوجی تیاری چھوڑ دینا خودکشی ہوگی۔
rvr

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS