میڈیا،معاشرہ اور مستقبل!

0

سلمان عبدالصمد
میڈیا اور سیاست کے درمیان ایک عجیب سی قربت بڑھتی جارہی ہے۔اس کے باوجود موقع بہ موقع اہل سیاست اسے نصیحت کر نے سے نہیں چوکتے۔ ہوناتو یہ چاہیے تھا کہ میڈیا اہل سیاست کو نصیحت کرے۔ اس لیے سوال پیدا ہوتاہے کہ میڈیا کو اس قربت کا کیا فائدہ ملا؟ ادھر چیف جسٹس آف انڈیا نے بھی میڈیا کے رویے پر برہمی کا اظہار کیا ہے اور اسے جمہوریت کے لیے نقصان دہ بتایا ہے۔
چند برس قبل وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک مراٹھی اخبارکی رسم رونمائی کے موقع پر صحافیوں کو جن ذمے داریوں کا احساس دلایا وہ کامیاب صحافیوں کے لیے یقینا ً بے حدضروری ہے۔انھوں نے کہا تھا کہ تنقید مفید ہے نہ کہ الزام تراشی،اس لیے میڈیا کو جمہوریت کے افادی پہلوؤںکا دائرہ وسیع کرنے کے لیے تنقید ی بصیرت کا سہارا لینا چاہیے۔ آج الزام تراشی کا بازارگرم ہے۔ یہی سبب ہے کہ جمہوریت کمزور ہوتی جارہی ہے اورحکومتیں غلط راہوں پر چلی جاتی ہیں۔
جمہوریت کے استحکام،سیکولرزم کے فروغ اور سماج کارخ موڑنے میں میڈیا کا ناقابل فراموش کردار ہے۔ ظاہر ہے وہی میڈیا اپنا فرض منصبی ادا کرسکتاہے جو بے باک ہو،بے لاگ ہو،بے لوث ہو اور غیر جانب دار بھی۔ تاہم یہ کیسے ممکن ہے کہ الزام تراشی سے دامن بچاتے ہوئے میڈیا حکومت کے کاموں پر مثبت تنقید کرے۔ کیوںکہ آ ج ’میڈیا‘توآزادہے پر’جرنلسٹ ‘نہیں۔’میڈیا ادارے‘چلانے والے آزاد ہیں،پر ’قلم‘ چلانے والے نہیں۔1980سے عالمی میڈیا کی صورت حال پر رپورٹ پیش کرنے والے امریکی فر یڈم ہاؤس کی رپورٹ کے مطابق کارپوریٹ میڈیا گھرانے میں جرنلسٹوں کے الجھنے کے معاملے میں انڈیا 78ویں نمبر پرہے۔ میڈیا، سیاست اور کارپوریٹ سیکٹر میں گم ہوگیا ہے۔ شاید میڈیا کے آزاد جسم میں سیاست نے مجبوری کی روح پھونک دی ہے۔ فانی کی زبان میں میڈیا سیاست سے یوں گویا ہے:
جسم آزادی میں پھونکی تو نے مجبوری کی روح
خیر جو چاہا کیا اب بتا ہم کیا کریں
میڈیا اورسیاست نے مصلحت پسندی کے نیام میں رہنے کاعہدکرلیا ہے۔ حالاں کہ میڈیا کی یہ دوستی یا مصالحت خود جمہوریت کے لیے المیہ ہے۔ شاید اب میڈیاکو میڈیاسے ہی جنگ درپیش ہے۔ اگر میڈیا والے خود میڈیا میں شفافیت لانے کی کوشش کریں تو کہا جاسکتا ہے کہ گھر کے معاملات گھر میں حل کیے جارہے ہیں۔ اس لیے کہ میڈیا کو خود میڈیا سے ایک جنگ کرنی چاہیے جس میں میڈیا کی بقا کا مقصد شامل ہو۔ ورنہ میڈیا سے سیاست کی قربت خود میڈیا کی بنیاد اور سلامتی کے لیے مضر ہے۔ آج حال یہ ہے کہ اِدھر میڈیا سماجی ہوا، اُدھر میڈیا والے سیاسی ہوگئے۔ پھر ملٹی میڈیا سیٹ نے بھی سیاست کو سُجھا دیا کہ جب میںجیب کی دنیا میں سما سکتا ہوں تو ’ملٹی سے آزاد میڈیا‘ جیب میںکیسے سکون نہیں پاسکتا ہے۔
2010میں سابق کانگریسی لیڈر راؤ اندر جیت سنگھ کی قیادت میں میڈیا کا جائزہ لینے کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں دیگر پارٹی کے31اراکین پارلیمنٹ شامل تھے۔ اس کمیٹی نے 2013میں رپورٹ پیش کی تھی۔ رپورٹ کے نکات اور شفارسات کچھ ایسے ہیں جن پر اگر عملدرآمد ہوںتو میڈیا میںشفافیت آسکتی ہے۔ کمیٹی نے پیڈ نیوز کی روک تھا م کے تئیں پریس سے متعلق تمام اداروں کو ناکام بتایا تھا۔ پریس کاؤنسل آف انڈیا،ایڈیٹرس گلڈ آف انڈیا،نیوز براڈ کاسٹر آف ایسوسی ایشن،براڈ کاسٹر نیوز ایڈیٹرس کی ناکامی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مکمل جواب دہ میڈیا کمیشن کی شفارش کی تھی۔ ساتھ ہی الیکشن کمیشن کو مزید حقوق دیے جاے کی وکالت بھی شامل تھی۔اسی طرح کانگریس نے 2009-10 میں محکمہ اطلاعات ونشریات اور الٰہ آباد ایڈمنسٹریٹو اسٹاف کے توسط سے میڈیاگھرانوں کے متعلق رپورٹ تیار کرائی تھی۔ کانگریس کے علاوہ سابق وزیر برائے اطلاعات ونشریات پرکاش جاؤڈیکر نے بھی میڈیا کو آزاد اور فعال بنانے کا عندیہ ظاہر کیاتھا۔ چند دنوں قبل چیف جسٹس آف انڈیا نے بھی میڈیا ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہوا ہے کہ اب میڈیا کی حیثیت نہ عوامی سطح پر کے بارے میں تبصرہ کیا تھا ۔محفوظ ہے اور نہ ہی سیاسی سطح پر۔ یہاں تک کہ قانونی تناظر میں بھی اسے مشکوک نظروں سے دیکھا جارہا ہے۔
ایک منفرد پیرایے میں کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت کے’چار بچوں‘ میں سے ایک بچہ میڈیا بھی ہے۔ اس لیے وہ جمہوریت کی وراثت میں برابر کا حق دار ہے مگر غور کریں کہ مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ کس قدر لذت وسکون سے آشنا ہے مگر میڈیا پریشان ہے۔اس پریشانی کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس نے بھائیوں کے درمیان اپنی وقعت نہیںبنائی بلکہ’بھائی سیاست‘ کی محکومی قبول کرلی۔ بھائی ہونے کے باوجود سیاست میڈیا کے ساتھ وہی سلوک کررہی ہے جو ایک محکوم کے لیے سزاوار ہے۔ سوال یہاں یہ ہے کہ جو میڈیا حقوق کو بحال نہ رکھ سکے وہ آج عوام کے حقوق کی حصول یابی میں کیسے کامیاب ہوسکتا ہے۔
اب یہاں میڈیا کے سماجی پہلو اور مستقبل کے ضمن میں چند باتیں کرنا لازمی ہے۔ مارسل میکلوہان نے جس دنیا کے متعلق پیشین گوئی تھی اُس دنیا میں آج ہم آپ راج کررہے ہیں۔ کیوںکہ دنیا ایک گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے۔ دنیا کو گاؤں بنانے میں بلاشبہ میڈیا کا کردار ہے۔ایک گاؤں میں خوشی کی خبر جس سرعت سے پھیلتی ہے، اسی سرعت سے غم کی خبریںبھی۔ اس کے علاوہ یہ پہلو بھی اہم ہے کہ منٹوں میں ملک تباہ نہیں ہوسکتا یا نہیں کیا جاتا ہے۔البتہ سکنڈوں میں گاؤں صفحہ ہستی سے نابود ہو سکتا ہے۔ اب جب کہ میڈیا نے دنیا کو گاؤں میں تبدیل کردیا ہے تو اس گاؤں کی زندگی کتنی ہے؟!
ہمیں اس پہلو پر بھی سوچنا ہے کہ دنیا کو گاؤں میں تبدیل کرنے کا فریضہ میڈیا نے انجام دیا ہے اور آثار بتاتے ہیں کہ میڈیا کا چل چلاؤ ہے۔پوری دنیا میں مروجہ میڈیا کا وجود نہیں رہ جائے گا۔ لگتا ہے کیونکہ ہر عرو ج کو زوال کی راہ پر چلنا ہے۔ میڈیا اپنے مکروہ عروج پر ہے۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ کسی چیز کی بہتا ت ہو جا تی ہے تو از خود اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ اس لیے میڈیا کو عروج وزوال کے تناظر میں دیکھیں یا بہتا ت کے پس منظر میں،جلد یا بہ دیر اس کا زوال مقدر ہے۔ لگتا ہے کہ اطلاعات کی ترسیل کی کوئی اور صورت جلوہ گر ہوگی۔ کبوتر کے سفرسے ہم نے سوشل میڈیا تک کا سفر طے کرلیا ہے۔ اب اس کی نئی صورت کیا ہوگی،وقت اس کی تصویر ہمارے سامنے جلد پیش کردے گا۔ موجودہ دنیا میڈیا کی کتنی زیر اثر ہے اس کا اس سے ہی اندازہ کرلیجیے کہ ہماری فکر کا دھارا میڈیا متعین کررہا ہے۔ ہماری نفسیات کا مسئلہ ا س سے جڑا ہوا ہے۔ میڈیا کی برق رفتاری نے انسانوں کو بھی برق رفتار بنادیا ہے۔ نفسیاتی طور پر جلدی بازی ہمارے مزاج کا حصہ بن گئی ہے۔ہمارے رہن سہن طرز فکر کو متاثر کررہا ہے اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے نفسیات اور اعصاب کو متاثر کررہا ہے۔ میڈیا سے متاثر ہوکر قوانین بنائے جانے لگے ہیں۔جب میڈیا کا زوال شروع ہوگا تو ہمارے معاشرے کا کیا ہوگا؟میڈیاکی صناعی کا کیا ہوگا؟ آج فقط ذرائع ابلاغ ترسیل نے ذہنیت بدرہی ہے۔ پڑوسیوں کی ذہنیت بدل گئی۔سونے کا انداز تبدیل ہو گیا۔ اظہارِ عشق کے اصول بدل گئے۔ اس لیے جس طرح میڈیا کا مستقبل ایک سوال ہے، اسی طرح میڈیا کے مخلوق گاؤں کی بقا کا مسئلہ بھی اہم ہے! میڈیا کا ستارہ گردش میں ہے تو اس دنیا کا کیا ہوگا؟ گاؤں والی دنیا کہاں تک سفر کرے گی؟اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیںکہ میڈیا کا رشتہ فقط سیاست سے نہیںہے بلکہ ہمارے سماج کے مستقبل سے بھی ہے۔ جو میڈیا ہمارا حال متعین کرنے کا دعوی کررہا ہے،وہ کس طرح ہمارے مستقبل کا نقشہ تیار کرے گا، یہ ایک سنجیدہ مسئلہ ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS