نیلم مہاجن سنگھ: صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کی جرأت کو سلام

0

نیلم مہاجن سنگھ

یوم آئین کے موقع پر عدلیہ کو آئینہ دکھایا گیا۔ سو سنار کی ایک لوہار کی۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرموجی مجھے آپ پر بہت فخر ہے جو لوگ صدردروپدی مرمو کو ربڑ اسٹامپ اور محض پسماندہ ذات کی آدی باسی کے زمرے میں رکھ رہے تھے، صدر جمہوریہ نے ان کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کیا ہے۔ ہندوستان کی آئین کے دن کے موقع پر سپریم کورٹ میں خطا ب کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے جسونت چندرچوڑ ، وزیر قانون کرن رجیجو، جسٹس سنجے کشن کول کی موجودگی میں دروپدی مرمو کی بات میں ہر ایک شہری کا کرب موجود ہے۔ بنیادی حقوق اور بنیادی فرائض کی طرف توجہ مبذول کرائی گئی۔ 76سالوں میں بھی ہندوستانی شہریوںکو 1861 کے آئی پی سی اور سی آر پی سی سے جوجھنا پڑتا ہے۔ ہندوستان اب آزادی کے امرت کال کی طرف گامزن ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے کہا تھا کہ آزادی کا امرت مہوتسو پورا ہوگیا ہے۔ اگلے 25سال کو ہندوستان کو وشو گرو بنانے کے لئے سبھی کو محنت کرنی ہے۔ سب کا وکاس، سب کاپریاس، عدلیہ ، منتظمہ اور مقننہ کو آئین پر عمل آوری کرنا ضروری ہے۔ مگر لگاتار تاریخ پہ تاریخ سے لوگ کورٹ کچہری سے دور بھاگنے لگے ہیں۔ جبکہ عدلیہ آئین کے تحفظ کے لئے پابند عہد ہے۔ پھر اسمبلی، لوک سبھا، راجیہ سبھا، سرکاری انتظامیہ اور عدلیہ کا بنیادی مقصد سماج میں توازن اور تحفظ کا احساس بنائے رکھنا ہے۔ مگر ایسا لگتا ہے کہ یہ تینوں بازو آزاد ہندوستان کی جنتا کو ڈراکر، دباکر رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ سبھی صدور میں محترمہ دروپدی مرمو نے عدلیہ کو واقعی میں آئینہ دکھایا ہے جہاں ایک طرف اکیسویں صدی میں واسیودیوکٹمبکم کی بات ہوتی ہے وہیں ججز اور عدلیہ اور ان کے فیصلوںپر غور اور اظہار خیال کرنے پر توہین عدالت تسلیم کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا ہے کہ نیچے کی عدالتوں کے مجسٹریٹ ضمانت دینے سے ڈرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ان کے فیصلوں پر لوگ شک کرنے لگیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا دھننجے جسونت چندرچوڑ جی نے پھر ان ججوں کو کہا کہ ان ججوں کو اپنے عہدوںپر فائز رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یہی بات صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے اپنے خطاب میں کہی۔ دروپدی مرمو کا یہ کرب ہر شہری کا کرب ہے۔ ویسے کرپشن اور کیش ایٹ ڈور کانڈ، نرمل یادوجج مسرور قدوسی کانڈ، اوڈیشہ ہائی کورٹ اخلاقی زوال، دہلی کے معطل جتیندرکمار کا قابل اعتراض حالت میں آنے والا ویڈیو، تیاگی لکھن پور اور اس کے شوہر کورشوت خوری کے الزام میں گرفتار کیا گیا، پونے کی ارچنا جاڈکر، ہماچل کے گورو شرما کو برخاست کیا گیا، تلنگانہ کا رادھے کرشن مورتی، الہ آباد کے نرائن شکلا، دیگر ایسی مثالیں ہیں جن سے ججوں اور عدلیہ کی اہمیت اور وقار کو عوامی سطح پہ کافی نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ، یوروپ وغیرہ میں کورٹ اور عدلیہ انسانی زندگی کے اہم امور ہیں۔ ان سب نے عام لوگوں کو ڈرایا ہے۔ پھر متاثرین کو وقت پر انصاف بھی نہیں مل رہا ہے۔ یہاں میرا کہنا ہے کہ قتل، عصمت ری، ڈکیتی، منشیات جیسے کیسوںکے معاملات ہی نہیں بلکہ میں سمجھتی ہوں ہندوستان کی آزادی کے 76سال کے بعد بھی ہم سامراجوادی برطانوی قانونوں کو ہی تسلیم کر رہے ہیں۔ ہندوستان کے آئین میں کیا کہا گیا ہے۔ ’’ہم ہندوستان کے لوگ،ہندوستان کو ایک مکمل مقتدر سماجوادی نظام اور غیرجانبدار، جمہوریت بنائیںگے اور اس کے ساتھ اس کے تمام شہریوںکو سماجی، اقتصادی اور سیاسی انصاف، اظہار خیال کی آزادی، اتحاد اور مذہب پر عمل آوری کی آزادی، وقار اور مواقع فراہم کرانے کے لئے اور ان سب میں انسان کے وقار ملک کے اتحاد اور سلامتی کے جذبات بڑھانے کے لئے پرعزم ہوکر اس آئین ساز ایوان میں آج تاریخ 26؍11؍ 1949کو پاس ہوئے اس آئین کو اختیارکرتے ہیں۔‘‘
میرے خیال میں انصاف پر مبنی نظام ایسا ہونا چاہئے جو شہری کے بنیادی حقوق کو تحفظ فراہم کرے مگر زیادہ تر وکیل دولت اور زیادہ توجہ حاصل کرنے کے لئے شہریوں کو صرف موکل ہی سمجھتے ہیں اور اس سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ یعنی وہ صرف ایک شے ہیں۔ صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو نے سبھی ناقدوں کے منہ ہمیشہ کے لئے بند کردیے ہیں۔ میں ایک چھوٹے سے گائوں سے آتی ہوں جہاں سہولتوں کی شدید کمی ہے۔ تین لوگوںکو ہی خدا مانا جاتا ہے، ٹیچر، ڈاکٹر اور وکیل۔ جب لوگ تکلیف میں ہوتے ہیں تو ان تینوںکی ہی مدد لیتے ہیں۔ ان کی زندگی کی بھر کی کمائی، جائیداد سب برباد ہوجاتی ہے۔ جب میں ممبراسمبلی تھی تو مجھے ہوم اسٹینڈنگ کمیٹی کا صدر بننے کا موقع ملا، مجھے کئی جیلوںمیں جانے کا موقع ملا۔ میں سمجھنا چاہتی تھی کہ لوگ جیل میں کیوں بند ہیں۔ میں نے اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ سرکار کو سونپی۔ کچھ اصلاحات ہوئیں پر جو میں چاہتی تھی وہ نہیں ہوا۔ جب میں اوڈیشہ، جھارکھنڈ کی گورنر کے وقت جھالسا میں گئی جب ایک ہی دن میں پانچ ہزار کیس نمٹائے گئے۔ لوگوں میں جھگڑے ہوجاتے ہیں، مگرایسے سیکشن اور دفعات ان پر لگا دی جاتی ہیں جن کا کوئی جواز نہیں ہوتا۔ پھر ان کو ضمانت نہیں ملتی ہے، لوگ ڈرے ہوئے رہتے ہیں۔ یہ ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ انہیں وکیل نہیں ملتے، ان کی زمین جائیداد، گھر کے برتن تک سب بک جاتے ہیں۔ مقننہ،منتظمہ اور عدلیہ آئین کے تین اجزا کو مل کر کام کرنا چاہئے۔ یہ ضروری ہے۔ آپ عام آدمی کے لئے سوچیں۔ ان کے مسائل کا ازالہ کرنا چاہئے۔ جیلوں کی کیا ضرورت ہے، نہیں چاہئے اور جیل۔ ان سب کو ختم کریں، کئی گھر برباد ہوگئے ہیں، مقدمات پر سماعت سالوں سال چلتی ہے، بے قصور لوگ جیلوںمیں بند ہیں کیا یہ صحیح ہے۔انہوں نے اس موقع پر کہا کہ آپ سب لوگ بہت باشعور اور علم والے ہیں اور مستقبل کے جج ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتی ہوں کہ بے قصور عام لوگوں کو جیل سے باہر نکالو، جیل کھچاکھچ بھرے ہوئے ہیں پھر اب ہیومن رائٹس پر بھی بحث ہورہی ہے۔ یہاں وزیر قانون کرن رجیجو جی بھی بیٹھے ہیں آپ کچھ سوچئے، میں نے کافی کچھ تو کہہ دیا ہے جو میں نہیں بول رہی ہوں اسے آپ سمجھئے۔‘‘ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو
یہ سب سننے کے بعد شاید چیف جسٹس آف انڈیا اور دیگر ریاستوں کی ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس اور ججز کے من میں اپنے فرائض کے تئیں احساس ذمہ داری بڑھے گا جو بات ہر ہندوستانی کا المیہ ہے وہ عزت مآب دروپدی مرمو نے آنسوئوں اور جذبات کے ساتھ ملک کے سامنے رکھ دی ہے۔ ضلع عدالتوںکا تو برا حال ہے اور 90فیصد جھوٹے فوجداری مقدمے چل رہے ہیں ۔ کیا آزاد ہندوستان کے شہری، پولیس انتظامیہ، کورٹ کچہری کو پسند کرتے ہیں۔ اس کا جواب آپ خودہی دیجئے ہم ہندوستان کے شہری صدر جمہوریہ ہند دروپدی مرمو کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور ان کو سلام کرتے ہیں کہ انہوںنے اتنا حوصلہ دکھایا کہ بھرے ہوئے ایوان میں جہاں سبھی عدالتوں کے چیف جسٹس اور ججز تھے ان کے سامنے عام آدمی کی دلی جذبات کو پہنچایا۔ محترمہ کو بہت بہت مبارک باد۔ اب دیکھنا ہے کہ ہائی کورٹ کے مختلف جج اور چیف جسٹس آف انڈیا کتنی دردمندی سے اس کرب کو محسوس کرتے ہیں۔ کیا قدم اٹھاتے ہیں امید کرتے ہیں کہ ہندوستان کے شہریوں کو ہندوستان میں عدالتی اصلاحات کا فائدہ پہنچے گا۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور سالیسٹر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS