نئی قیادت اور نئی فکر وضع کرنے کی ضرورت: علی خان، محمودآباد

0

علی خان، محمودآباد

جب 1925 میں ہیڈگیوار نے آر ایس ایس کی بنیاد رکھی تو ان سے ساورکر نے پوچھا کہ جب ہندو مہاسبھا موجود ہے تو پھر ایک نئی تنظیم قائم کرنے کی کیا ضرورت ہے- ہیڈگیوار نے ساورکر کو جواب دیا کہ ابھی سیاست کرنے کا وقت نہیں ہے- پہلے ذہن سازی اور ذہنوں کو تابع بنانا زیادہ ضروری ہے۔ اس ابتدائی دور میں آر ایس ایس اس کے سربراہ اس بات کو سمجھ گئے تھے کہ سیاسی اقتدار آخر میں معاشرتی حقائق پر مبنی ہوتا ہے۔ اس وقت آر ایس ایس کا موقف بہت صاف تھا کہ وہ ہندو دھرم کے ماننے والوں کو متاثر کر کے ایک سیاسی ہدف کے لئے متحد کرنا چاہتے تھے۔ ان کے نظریات بنیادی طور پر مسلمانوں، عیسائیوں اور کمیونزم (اشتراکیت) کی ضد میں قائم ہوئے تھے۔یعنی ان کا کہنا تھا کہ بنیادی طور پر ملک اور خاص کر ہندووں کے لئے یہ سب گروہ بہت خطرناک تھے۔ تقریباً 2001 تک ان کے نظریوں میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی لیکن پھر 2002کے بعد رفتہ رفتہ بظاہر ان کی بعض نظریوں میں کچھ فرق آیا۔ یہاں یہ واضح کر دینا ضروری ہے کہ ان تبدیلیوں کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اب آر ایس ایس نے اپنا پرانا موقف چھوڑ دیاہے۔
2001 میں امریکہ پر حملوں کے بعد دنیا میں ’اچھے‘ مسلمانوں کی تلاش ہونے لگی اور اس بات پر چرچا ہونے لگی کہ آیا اسلام ایک شدت پسندمذہب ہے یا نہیں اور کیا مسلمان اپنے مذہبی عقائد کی بنا پر متعصب اور متشدد ہوتے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد 2002 میں گجرات میں خوفناک خونریزی ہوئی۔ اس وقت کے سربراہوں نے فوراً دہشت گردی اور عالمی سازش کی بات کرت ہوئے مسلمانوں کی طرف اشارہ کیا۔ ہندوستان میں بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ کون’اچھا‘ مسلم ہوتا ہے۔
2004 میں آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ قائم کروایا جس کے سرپرست اندریش کمار تھے اور ہیں۔ اس کے بعد جب 2014 میں بی جے پی نے قومی انتخابات میں کامیابی حاصل کی تو ’اچھے‘ مسلمان کی تلاش جاری رہی اور کبھی بعض صوفی حضرات کو اہمیت دی گئی تو کبھی بعض شیعوں کو کیونکہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے اعلیٰ کمان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کے رسم و رواج سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھارتی ثقافت کو اہمیت دیتے ہیں۔ اس میں گویا مضمر یہ تھا کہ باقی سب مسلمانوں پر سیاسی اعتبار سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ اس زمانے میں کئی بین الاقوامی کانفرنسیں وغیرہ منعقد کی گئیں اور مسلمانوں کے آپسی نظریاتی اختلافات کا سیاسی نفع پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ان دو گروہ کے کچھ لوگ اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ بی جے پی اور آر ایس ایس ان کی ہمدرد بن گئی تھی۔ اس ہی زمانے میں آر ایس ایس نے یہ کہنا شروع کیا کہ سب مسلم غیر نہیں ہوتے ہیں بلکہ بیشتر ہندوستانی مسلمانوں کے اجداد تو ہندو ہی تھے لہٰذا ان کو گھر واپسی کر لینی چاہئے نہیں تو کم از کم خود کوہندو تو سمجھنا چاہئے۔2019 میں سی اے اے قانون کی وجہ سے مسلمانوں میں وقتی طور پر اتحاد قائم ہوا اور کورونا آنے سے قبل ایسا لگ رہا تھا کہ شاید مسلمانوں کی ایک نئی سیاسی قیادت اس تحریک سے نکل کر سامنے آئے۔ پھر 2022 کے یو پی کے انتخابات میں جب مسلمانوں نے بے نظیر طور پر متحد ہو کر بلا استثنائے مسلک و مکتب فکر بی جے پی کے خلاف ووٹ ڈالا تو انتخابات کے بعد بی جے پی نے ایک بار پھر سے اپنا موقف بدلا اور حیدرآباد میں اعلان کیا کہ اب وہ پسماندہ مسلمانوں کو مرکزیت دے گی اور 2022 کے نومبر میں انہوں نے نگرپالیکا کے انتخابات میں390 سے زیادہ مسلمانوں کوبی جے پی کا چنائو نشان دیا۔ اس مدت میں بی جے پی اور اس سے قبل بی جے پی نے یہ بھی تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ مسلم خواتین کے حقوق کی محافظ ہیں۔
اس مختصر سی تاریخ سے کچھ باتیں واضح ہوتی ہیں۔ اولاً اپنے سیاسی مفاد کے لئے آر ایس ایس وقتی طور پر بظاہر اپنا موقف بدلنے کے لئے تیار رہتی ہے اور ایسے بیانات جاری کرتی ہے جس سے لگتا ہے کہ اب اس کا موقف سخت نہیں رہا۔ آپ کو یاد ہوگا کہ 2022 میں کچھ نمایاں مسلمانوں کا ایک وفد موہن بھاگوت سے ملنے گیا تھا۔ اس وقت بھاگوت نے کہا تھا کہ لوگوں کو ہر مسجد میں شو لنگ نہیں ڈھونڈھنا چاہئے اور وہ کچھ دن بعد ایک مسجد کی زیارت بھی کرنے گئے تھے- اس وقت کچھ لوگ بہت خوش ہوئے لیکن آج حجاب کا مسئلہ، سر عام مسلمانوں کے قتل کے اعلانات، بلڈوزر راج، احتساب اورسیاسی مخالفین پر سخت قانونی کارروائی، مسلمانوں کو گئو کشی کے فرضی الزامات کے تحت گھیر گھیر کر قتل کرنا اس بات کی دلیل ہیں کہ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں۔ اب گیان واپی میں پوجا کی اجازت، متھرا عیدگاہ کے سلسلہ میں قانونی کارروائی اور ہلدوانی و دیگر علاقوں میں خوفناک تشدد اس بات کی دلیل ہے کہ بنیادی طور پر کچھ نہیں بدلاہے۔
مندرجہ بالا تاریخی تجزیہ سے دوسری بات یہ اخذ کی جا سکتی ہے کہ آج بھی مسلمانون کے مذہبی اختلافات یعنی داخلی اختلافات کا فائدہ اس ہی طرح سے اٹھایا جاتا ہے جیسے استعماری دور میں اٹھایا جاتا تھا۔ تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان اپنا سیاسی ایجنڈہ نہیں طے کر پاتے ہیں۔ ہم وقت کے ساتھ کیوں نہیں بدلتے؟ ہم تاریخ سے کیوں نہیں سیکھتے؟
1912 میں علامہ شبلی نعمانی نے مسلم گزٹ میں ایک مضمون لکھا تھا جس کا عنوان ’لیڈروں کا قصور ہے یا لیڈر بنانے والوں کا؟‘ تھا۔ اس میں انہوں نے اس وقت یہ لکھاتھا کہ ان کو کوئی مسلم لیڈر نہیں نظر آتا تھا کیونکہ زیادہ تر لوگ مذہبی رہنما تھے۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی لکھا تھا کہ مسلمانوں کی ترقی اور فلاح و بہبودی کے امکانات تب تک ہیچ رہیں گے جب تک قوم میں گوکھلے جیسا شخص نہیں پیدا ہوگا۔ آپ خود تصور کیجئے کہ باوجود تمام بڑے بڑے لوگوں کے علامہ شبلی کو یہ سیاسی خلا کیوں نظر آئی؟ مضمون کے آخر میں انہوں نے کہاتھا کہ جب تک قوم کی قیادت مذہبی رہنما کریں گے تب تک قوم کے سیاسی مقاصد نہیں مکمل ہو پائیں گے کیونکہ وہ آپس کے مذہبی مسائل میں الجھے رہیں گے۔ بقول ان کے مذہبی قائد اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنے میں مشغول رہیں گے۔ آج آزادی کے75 برس بعد بھی اگر تجزیہ کیا جائے تو واضح ہو گا کہ 1947 سے لے کر آج تک مسلمانوں کے بیشتر سیاسی لیڈروں نے تین باتوں کی بنا پر قوم کے نام پر سیاست کی: مذہبی، ثقافتی شناخت اور زبان۔ ایسا نہیں ہے کہ ان مسائل کے اپنی اہمیت نہیں ہے لیکن ان کو مرکزیت دے کر دیگر امور کو ثانوی درجہ دیا گیا۔ آئیڈنٹیٹی یعنی شناخت پر مبنی سیاست کا ہمیشہ فقط یہی نتیجہ ہوتا ہے کہ ساری سیاست احساس کمتری کے اردگرد پھرتی رہتی ہے۔
اب تو خیر بی جے پی نے مسلمانوں کی مذہبی شناخت کو بھی مرکزی اہمیت دی ہے، لیکن قوم کے لئے اب ضروری یہ ہے کہ وہ جس طرح سے اس کی مخالفت کرے اور یہ واضح کر دے کہ ہمارے داخلی مذہبی، ثقافتی اور لسانی امور کے ہم ذمہ دار ہیں اور ہم فقط اس مساوات اور ان حقوق کا تحفظ چاہتے ہیں جو دستور میں محفوظ ہیں۔ اس لڑائی کو لڑنے کے لئے ہم کو نئی سوچ اپنانی پڑے گی، نئی قیادت کھڑی کرنی پڑے گی، اپنا محاسبہ کرنا پڑے گا اور حالات حاضرہ اور سیاق و سباق کو ملحوظ رکھتے ہوئے نئی حکمت عملی اپنانی پڑے گی۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS