انسانی ہوس کا نتیجہ ہیں قدرتی آفات

0

مزید سے مزید کی تلاش جب لالچ اور ہوس میں بدل جاتی ہے تو انسان قصداً اورا رادتاً ایسے کام کرتا ہے جو کارخانہ قدرت سے صریحاً چھیڑخانی اور قدرتی ماحول میں دخل اندازی ہوتی ہے۔ نتیجہ میں اس کے منفی اثرات بھی انسان کو جھیلنے پڑتے ہیں۔ یہ اثرات کہیں زلزلے اور آتش فشاں کے ارضیاتی مظاہر کے بطورسامنے آتے ہیں تو کہیں وبا اور متعدی بیماریاںدنیا میں انسانوں کی لاشیں سجانے کا سامان کردیتی ہیں۔ کہیں قدرتی آگ جل اٹھتی ہے اور جنگلات خاکستر ہوجاتے ہیں توکہیں سمندروں میں آنے و الے طوفان دنیا کے ایک بڑے حصہ کو تہہ و بالاکرجاتے ہیں۔ تیز ہوائیں انسانی آبادی اور تعمیرات کو زمین بوس اور خوراک کے ذخائر،رسل و رسائل اور مواصلات کے ذرائع تہس نہس کردیتی ہیں۔ہولناک طوفان، شدید بارش، سیلاب، برف باری، خشک سالی اور دھند کا قہر بھی قدرتی آفت کی شکل میں نازل ہوتے ہیں۔آج دنیا قدرت کے اسی قہر و غضب کا شکار ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ برس سے کورونا وائرس کی وبا جھیل رہے ہندوستان کو اسی دوران تین بڑے سمندری طوفانوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ گردابی طوفان، تیز ہوائیں اور سمندر کی بپھری ہوئی غضب ناک لہروں نے کئی ریاستوں میں قیامت کامنظر تخلیق کردیا ہے۔ گزشتہ سال ان ہی ایام میں آنے والے طوفان ’ امفان‘ کے بعد بازآباد کاری کی کوششوں کو جہاں کورونا وائرس نے نقصان پہنچایا وہیں ’تاکتے ‘ اور ’ یاس‘ نامی طوفانوں نے مغربی ہندوستان اور مشرقی ہندوستان کی کئی ریاستوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔گزشتہ ہفتہ گوا سے لے کر کرناٹک، مہاراشٹراور گجرات کے ساحلی علاقوں میں بھاری تباہی مچاتے ہوئے آگے بڑھ جانے والا گردباد ’تاکتے‘ اپنے پیچھے تباہی اور بربادی کے جو نقوش چھوڑ گیا ہے اسے ہموار کرنے میں عرصہ درکار ہے۔ اسی درمیان اور ایک چیلنج ’ یاس‘ طوفان کی شکل میں آکھڑا ہوا ہے۔خلیج بنگال کے اوپر بننے والے گہرے دبائو کی وجہ سے پیدا گردباد ہولناک اور بھیانک طوفان کی شکل اختیار کرکے ہندوستان کی مشرقی ریاستوں میں رہنے والوں کو کئی دنوں سے خو ف زدہ کیے ہوئے ہے۔
یہ انتہائی خوفناک اور خطرناک طوفان اڈیشہ میں قہر وغضب برساتا ہوا اب بنگال میں داخل ہوگیا ہے۔ سمند ر میں اٹھنے والے خطرناک مد کی وجہ سے سمندر کا پانی بہار اور جھارکھنڈ تک جاپہنچا ہے۔ اڈیشہ میں لینڈسلائڈ اور لینڈ فال کا عمل شروع ہوچکا ہے جو نہ جانے کتنوں کو بے در و چھت کرنے کا سبب بنے گا۔ وہاں 130سے140کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوابہہ رہی ہے جس میں مکان کی چھتیں کاغذ کی طرح اڑرہی ہیں۔ اڈیشہ کے ساحلی اضلاع سے تقریباً6لاکھ لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کیاگیا ہے۔
مغربی بنگال میں ہر چند کہ ریاستی حکومت نے پیش بندی اور حفاظتی اقدامات کررکھے ہیں،15لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیاگیا ہے لیکن یہ طوفان ان کوششوں کیلئے ایک خطرناک چیلنج بنا ہوا ہے۔ طوفان کی شدت کے آگے یہ حفاظتی اقدامات طفلانہ کوشش محسوس ہورہے ہیں اور ریاست کے ساحلی اضلاع میں تباہی تصور سے بھی زیادہ ہوگئی ہے۔’ یاس‘ مدنی پور کے دیگھا میں ساحل سے ٹکرایا ہے اور وہاں تباہی مچارکھی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی کے بعد بنگا ل میں آنے والا یہ سب سے خطرنا ک طوفان ہے۔کئی سارے علاقے پانی میں غرق ہوچکے ہیں۔30 ہزار سے زیادہ مکانات منہدم ہوگئے ہیں۔ 51 ڈیموں کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ ساحلی علاقوں میں 60 کلومیٹر پشتے تباہ ہوئے ہیں۔اربوںروپے کی املاک و تعمیرات ختم ہوگئی ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ قدرتی آفت صرف ہندوستان پر ہی قہر برسا رہی ہے۔ سال 2000 سے اب تک قدرتی آفات کے 11ہزار واقعات دنیا بھر میں سامنے آئے ہیں جن میں سے کچھ کی شدت اور تباہی کم تھی جب کہ کچھ ایسے شدید تھے کہ سمندروں میں موجود سیکڑوں جزائر کا نام و نشان تک مٹ گیا۔ ان ہی برسوں میںان آفات سے2.56کھرب ڈالرکی املاک کا نقصان ہوا ہے اور 5لاکھ کے قریب ہلاکتیں ریکارڈ کی گئی ہیں۔امریکہ میں آنے والا طوفان ’کیٹرینا‘ اور میانمار و سری لنکا کوتہ وبالا کرجانے والا طوفان ’ نرگس ‘ بھی ان ہی برسوں میں آئے ہیں۔
سائنس دانوں کے مطابق ان سب طوفانوں اور قدرتی آفات کی اکلوتی وجہ غیر متوازن ہوجانے والا ماحولیات ہے ۔ حضرت انسان نے اپنے لالچ اور ہوس کی تسکین کا سامان کرنے کیلئے ماحولیات اور قدرتی وسائل و ذرائع کا اس بری طرح استحصال کیا ہے کہ ان کا توازن بگڑ چکا ہے اور کرۂ ارض کے بیشتر مقامات انسانی رہائش کیلئے ناموزوں ہوچکے ہیں۔ توانائی کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہونے والی صنعتی آلودگی، کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھن اور کلروفلورو کاربن جیسی زہریلی گیسیں پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہے اور زمین کے کرہ سے اوزون کی تہہ کو تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ کرۂ ارض کے اوسط درجہ حرارت میں غیرمعمولی اضافہ ہوچکاہے۔ جسے عام اصطلاح میں گلوبل وارمنگ کہاجارہاہے۔ اس گلوبل وارمنگ پر تشویش دنیا کے تمام ملکوں کو ہے لیکن اپنی مادی ترقی کو بریک لگاتے ہوئے اسے کم کرنے یا ماحولیات کو متوازن رکھنے کی سمت کوئی پہل کرنے کو تیار نہیں ہے۔اس طرح کی قدرتی آفات سے بچنے کی واحد سبیل قدرتی وسائل کا استحصال بندکرکے ماحولیات کو متوازن بنانے میں ہی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS