ڈاکٹر ریحان اختر
انسان کے لئے بیماری کوئی غیر فطری چیز نہیں ہے ،صحت کا اعتدال سے ہٹ جا نا اور بیماری کا شکار ہو جا نا فطرت انسانی کے خلاف نہیں ہے۔ جبکہ یہ بیماری ایک طرح سے زندگی کی علامت اور اس کا جز و لا ینفک ہے۔ غلطی انسان سے ہو تی ہے پتھر اور درخت سے غلطی سر زد نہیں ہوتی ہے۔ انسانوں کی ایک بڑی جماعت کا کسی غلط راستہ پر پڑ جا نا ، اپنی سفلی خواہشات اور پست درجہ کے مقاصد کی تکمیل کے پیچھے دیوانہ ہو جا نا تاریخ انسانی اور تقدیر انسانی کے لئے بھی شدید تشویش کا باعث نہیں ہے۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ بگڑے ہوئے حالات میں پنجہ آزمائی کر نے ، فتنہ و فساد ،ظلم و تشدد اور انتشار و بد نظمی پیدا کر نے والی طاقتوں سے آنکھیں ملانے والے اپنی سہولتوں ، عزتوں اور بعض اوقات حکومت و اقتدار کو خطرہ میں ڈال کر میدان عمل میں اترنے والے نا یاب و کم یاب ہو جائیں ، اصل تشویش کی بات یہ ہے کہ انسان با رہا اسی بد نیت ، فساد انگیز اور انتشار پسند طاقتوں ، قیادتوں یا سازشوں کے شکار ہو تے جا رہے ہیں اور اب ایسا نظر آنے لگا ہے کے انسانیت سکرات کے عالم میں ہے اور جلد ہی دم توڑ دے گی۔
لیکن تاریخ بتلاتی ہے کہ ایسے ہر موقع پر جبکہ ملک و قوم اور معاشرہ و سماج ظلم و تشدد کے طوفان بلا خیز میں گھرا ہوا ہو تو کچھ ایسے افراد میدان میں پیش پیش رہے ہیں جنہوں نے کشتئی انسانیت کو ساحل محبت و اخوت سے ہمکنار کرایا ، زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حا لات کا مقابلہ کیا۔ ان غلط رہنمائوں اور قیادتوںکے مد مقابل دیوار آہنی بن کر کھڑے ہو گئے اور جان عزیز تک کی با زی لگا نے سے گریز نہیں کیا۔ انسانی تہذیب کا تسلسل جو ابھی تک قائم و دائم ہے یہ در حقیقت انہیں لوگوں کا رہین منت ہے جو بگڑے ہوئے حا لات میں میدان کار زار میں اترے اور انہوں نے زمانے کے چیلنجز کو قبول کیا اور باطل قوتوں سے پنجہ آزمائی کی اور آج انہیں کی بدولت انسانیت زندہ ہے ان جیالوں کو ملک و قوم کی طاقت کا حقیقی سر چشمہ قرار دیتے ہوئے مولانا علی میاں کہتے ہیں ’’ ملک کی طاقت کا حقیقی سر چشمہ اور پھلنے پھولنے کے لئے اس کا سب سے بڑا سہارا ایسے حق گو اور بے لاگ انسانوں کا وجود ہے جو بڑے سے بڑے نا زک اور جذباتی موقعوں پر ظلم کو ظلم ، نا انصافی کو نا انصافی اور غلط کو غلط کہہ سکے۔
اس وقت ملک و قوم اور سماج و معاشرے کے لئے بڑا خطرہ انسانوں میں ظلم و تشدد، فتنہ و فساد اور نفرت کا مزاج پیدا ہو نا ہے اور اس سے بھی بڑھ کر اس نا سور کو نا پسند کر نے والوں کا اور اس کے سد باب کے لئے جان و مال کی بازی لگا دینے والوں کا فقدان ہے ، کسی بھی ملک و سماج کے لئے سب سے بڑا خطرہ ( خواہ وہ دنیا کا قدیم سماج ہو یا تہذیب جدید کا سماج ہو ) یہ ہے کہ اس کے اندر ظلم و تشدد ، فتنہ و فساد اور فرقہ پرستی و عصبیت کا مزاج پیدا ہو جائے ، پھر اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس ظلم و جور ، فتنہ و فساد کو نا پسند کرنے والے اس ملک و معاشرہ میں انگلیوں پر بھی گنے نہ جا سکتے ہوں ، دور بیں تو دور بیں خورد بین سے بھی ان کو دیکھا نہ جا سکتا ہو ، جب ایسے افراد کی کسی ملک و قوم یا سماج و معاشرہ میں کمی ہو تی ہے تو اس سماج ، معاشرہ اور سوسائٹی کو کوئی طاقت بچا نہیں سکتی ہے ، جب بھی کسی معاشرہ میں ظلم و بر بریت ، عصبیت و فرقہ واریت پھیلنے لگی ہو اور تیزی کے ساتھ اس نے اپنی جڑوں کو مضبوط کر لیا ہو اور اس ظلم و ستم کو پسندیدہ نگاہوں سے داد تحسین ملنے لگی ہو ،جب ظلم و تشدد ، فتنہ و فساد کے لئے یہ معیار بن گیا ہو کہ ظالم کون ؟ظالم کی قومیت کیا ؟ جس پر ظلم و ستم کی موسلا دھار بارش کی ایک ایک بوند نشتر چبھو رہی ہے اس کا فرقہ کیا ؟ ظالم و جابر اور فرعون و طاغوت کی زبان کیا ہے ؟ ظالم کس برادری سے تعلق رکھتا ہے ؟ تو پھر عالم انسانیت کے لئے عظیم خطرہ پیدا ہو تا ہے۔ جب انسانیت کو اس طرح خانوں، فرقوں میں بانٹا جا نے لگا ، جب آدمی اخبار و رسائل میں کسی ظلم و زیادتی کی خبر دیکھے تو سب سے پہلے اس کی نگاہیں یہ تلاش کریں کہ کس فرقہ و جماعت کی طرف سے یہ بات شروع ہو ئی ، اس میں نقصان کس کو پہنچا ،کس کے خاندان کو تہہ تیغ کیا گیا ، کس کے کارخانوں ، فیکٹریوں ، کا رو باروں ، دکانوں کو نذر آتش کیا گیا ، جب ظلم و ستم اور جا بر و ظالم ہو نے کا فیصلہ کرنے کا یہ معیارو پیمانہ بن جا تا ہے تو پھر اس وقت ملک و معاشرہ کو کوئی حکومت ، کو ئی طاقت ، کوئی ذہانت، کوئی سر مایہ اور بڑے بڑے منصوبہ بند طریقہ کار نہیں بچا سکتے جس کا نتیجہ یہ ہو تا ہے کہ ملک و معاشرہ بظاہر مضبوط ہو تا ہے لیکن اس کا باطن کھوکھلے پن کا شکار ہو جا تا ہے۔
فرقہ پرستی ، جا رحیت اور تشدد کا کھلا رجحان ملک کو زمین دوز اور دھماکہ خیز سرنگوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا ہے جو بالآخر ملک و معاشرہ کو لے ڈو بے گی۔ گا ندھی جی اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھتے تھے کہ فرقہ وا رانہ منافرت ، تشدد اور جا رحیت ، نفرت و عداوت کا یہ آتش فشاں پہلے ملک کی آبادی کے اہم عنصروں (ہندو مسلم ) کے درمیان اپنا کام کرے گا پھر مذہبی اختلاف ، طبقات اور برادریوں کی صف آرائی اور نسلی ، لسانی ، صوبائی و علاقائی تعصب کی شکل میں وجود میں آئے گا۔ اس کے ظہور کے بعد پھر یہ آگ لپٹوں کی طرح پھیل جائے گی اور ملک کے امن پسند شہریوں کواپنا لقمہ تر بنا لے گی۔ پر سکون خرمن انسانیت کو نفرت و عداوت کے شعلوں سے جلا کر خا کستر کر دے گی اور یہ وطن عزیز بکھر جائے گا۔ موجودہ حا لات کی طرف سر سید نے بہت پہلے ہی اشارہ کر دیا تھا کہ ہندو مسلم یہاں کا حسن ہے ہندوستان ایک خوبصورت دلہن کی طرح ہے ،ہندو مسلم اس کی دو خوبصورت آنکھیں ہیں اگر ان میں سے ایک بھی آنکھ حادثہ و ظلم کا شکار ہوتی ہے تو اس ملک کا حسن مجروح ہو جا ئے گا۔
عالم انسانی میں کوئی چیز اس سے زیادہ خطر ناک اور تشویش انگیز نہیں کہ انسان انسان سے نا امید ہو جائے ، انسانیت کی جگہ بہیمیت و درندگی لے لے اور اس نفرت کے جنوں میں عورتوں اور معصوم بچوں پر دست درازی کرے اور غنچوں کے کھلنے اور مسکرانے سے پہلے ہی مسل کر رکھ دے۔ تعلیم و تربیت ہو یا کہ اصلاح و ترقی ، معاشی خوشحالی ہو یا کہ سیاسی استحکام یہ نشیمن جس شاخ پر قائم ہے اور ہمیشہ جس شاخ پر قائم رہے گا وہ انسانی زندگی کے تحفظ اور امن و امان کی فضا ہے اس لئے نشیمن کو بچانے اور بنانے کے منصوبوں اور اس کی تربیت و تنظیم کی بحثوں سے پہلے اس خوبصورت ہندوستان اور امن و امان کے گہوارہ کی حفاظت ہر شہری کا اولین فریضہ ہے۔
کوئی کام شدید جدوجہد ، خطرات اور قر بانیوں کے بغیر نہیں ہو سکتا قوم کی صحیح تعمیر اور انسانیت کا احترام اور با ہمی اعتماد و محبت پیدا کر نے کے لئے ہم کو ایک مجنونانہ اور سر فروشانہ جدوجہد کی ضرورت ہے ، آج ہندوستان تاریخ کے ایک نا زک اور فیصلہ کن مو ڑ پر کھڑا ہے ، ایک راستہ ہمیشہ کی تباہی ، نہ مٹنے والا انتشار و اختلاف اور نہ ختم ہو نے والے زوال کی طرف جا تا ہے ، اور ایک راستہ ہمیشہ کے امن و امان ، اتحاد و یکجہتی ، آپسی الفت و محبت اورخیر کی طرف جا تا ہے لیکن ہر ایسے موڑ پر کچھ ایسے لوگ سامنے آجاتے ہیں جو تاریخ کا رخ اور واقعات کا دھارا بدل دیتے ہیں ان کی دلیری ، صاف گوئی اور ان کی جاں بازی پورے ملک و قوم کو بچا لیتی ہے یہی لوگ در حقیقت قوم و ملک کے مسیحا ہو تے ہیں۔ہمیں ایک ایسے اتحاد و اتفاق ، محبت و بھائی چارہ کی ضرورت ہے جس کی آزادی ہند کے متوالے شہیدان وطن پنڈت رام پرساد بسمل اور اشفاق اللہ خاں تھے۔
پنڈت رام پرساد اور اشفاق اللہ خاں آپسی بھائی چارہ کے حسین گلدستہ تھے ، دونوں کا کھانا پینا اکثر و بیشتر ایک ہی تھالی میں ہو تا تھا ، نماز کے وقت پنڈت رام بسمل اپنے چھوٹے اشفاق اللہ خاں کو خود وضو کراتے اور نماز پڑھنے کے لئے جائے نماز بچھاتے تھے ، اور بعینہ یہی صورت حال اشفاق اللہ کی بھی ہوتی تھی جب پنڈت رام بسمل کی پوجا یا ہون کا وقت ہوتا تھا تو اشفاق اللہ خاں بھی ان کی دل سے مدد کر تے تھے، ان دونوں کے ما بین کوئی مذہبی ، علاقائی اور قومی بھید بھاد بالکل نہ تھا وہ دونوں ہندوستانی معاشرہ و سماج کے لئے ایک مثال تھے جونسل نو کے لئے اخوت و بھائی چارگی کا آئینہ ہو۔ ٹھیک ایسی ہی ایک مثال قومی یکجہتی و ہندو مسلم اتحاد کے لیے مولانا حسرت مو ہانی بھی تھے آپ بھی اپنے استاد محترم لو کمانیہ تلک کے ہمراہ اکثر مہا راشٹرا کے گنپتی کے تیو ہار میں شریک ہوا کر تے تھے یہ تیو ہار تلک جی نے مہا راشتر کو منظم و متحد کر نے کے لئے شروع کیا تھا۔ در اصل مولانا حسرت مو ہانی اپنے قول ،عمل اور فعل سے ہندوستان کے کروڑوں ہندو مسلم کو یہ دعوت دینا چاہتے تھے کہ ایک سچا ہندوستانی کیسا ہو نا چاہئے اور اس کا احترام سب سے بڑا عقیدہ ہو نا چاہئے۔ جب ہر انسان کی ایسی سوچ ہو گی اور لوگ ایک دوسرے کے مذاہب کا دل سے احترام کریں گے تو اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ انسان آپسی نفرت سے کوسو دور بھاگیں گے اور ایک دوسرے کو خوشی خوشی گلے لگائیں گے اگر کبھی کسی کے ساتھ کوئی نا گہانی واقعہ پیش بھی آجائے گا تو اس کے ساتھ کندھا سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں گے جب حالات ایسے ہوں گے تو قومی یک جہتی کے فروغ کے لئے ہمیں بڑے بڑے اجلاس و کانفرس وغیرہ کا اہتمام کر نے کی ضرورت نہیں پڑے گی بلکہ اتحاد ، پیار محبت ، قومی یکجہتی کو تو خود بخود ہی فروغ ملے گا۔
[email protected]
قومی یکجہتی : فقدان کے اسباب اور حل
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS