معیشت پر مرکوز قومی سلامتی پالیسی!

0

صبیح احمد
پاکستان ’آئندہ 100برسوں تک ہندوستان کے ساتھ عداوت نہیں چاہتا۔‘ پاکستان کی نئی اور پہلی قومی سلامتی پالیسی سے پاکستانی حکام یہی نتیجہ اخذ کر رہے ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتہ ملک کی پہلی قومی سلامتی پالیسی کے 62 صفحات پر مشتمل غیر کلاسیفائڈ حصہ کو عام کرتے ہوئے ہندوستان کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیا اور فوجی حمایت یافتہ اپنی حکومت کی اس نئی پالیسی کو شہریوں کی خوشحالی اور ترقی کے لیے فوجی طاقت کے بجائے معیشت پر مرکوز قرار دیا۔ حالانکہ 100 صفحات پر مشتمل اصل دستاویز کلاسیفائڈ زمرے میں رہے گا۔ دراصل عمران خان نے 2022-2026 کے لیے 5 سالہ قومی سکیورٹی پر سرکار کے نظریہ کو پیش کیا ہے۔ بہرحال یہ ایک بہت ہی مثبت اور خوش آئند قدم ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے اور اس پالیسی پر من و عن عمل کیا جائے تو صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ بر صغیر سمیت خطہ کے تمام ملکوں کے لیے ترقی اور خوشحالی کی ایک نئی راہ کھلے گی۔ دیگر ممالک بھی اس سے ترغیب حاصل کرنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔
وزیراعظم عمران خان کی پیش کردہ نئی سکیورٹی پالیسی کو شہریوں پر مبنی فریم ورک پر تیار کیا گیا ہے اور فوجی طاقت پر مرکوز ایک رخی سکیورٹی پالیسی کے بجائے اس میں معاشی نظام کو بڑھاوا دینے اور ملک کی معاشی حالت کو مضبوط کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ قومی سلامتی کمیٹی اور کابینہ سے منظور شدہ سکیورٹی پالیسی کے پبلک اڈیشن کو جاری کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ سابقہ سرکاریں پاکستان کی معیشت کو مضبوط بنانے میں ناکام رہیں اور اب پاکستان کی ’خارجہ پالیسی میں معاشی سفارت کاری کو آگے لے جانے پر زور ہوگا۔‘ وزیراعظم نے ملک اور شہریوں کی خوشحالی اور ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی پر بھی خصوصی طور پر زور دیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان کی سکیورٹی وہاں کے شہریوں اور عام لوگوں میں پنہاں ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ عمران خان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’قومی سکیورٹی کے نظریے میں بغیر تفریق کے، بنیادی حقوق اور سماجی انصاف کی گارنٹی کے ساتھ قومی تال میل اور لوگوں کی خوشحالی ترجیح ہونی چاہیے … ہمارے شہریوں میں عظیم صلاحیت کو حاصل کرنے کے لیے نتائج پیش کرنے والی بہتر حکمرانی ضروری ہے۔‘ پالیسی پر کامیاب عمل آوری کی اہمیت کی نشاندہی کرتے ہوئے وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ یہ پالیسی شہریوں کو مرکز میں رکھ کر تیار کی گئی ہے۔ یعنی ملک کی قومی سلامتی پالیسی مکمل طور پر عام شہریوں پر مرکوز ہے۔ پاکستان کے قومی سلامتی مشیر معید یوسف جو ایک امریکی تھنک ٹینک کے سابق تجزیہ کار رہ چکے ہیں، کا اس دستاویز کو تیار کرنے میں اہم کردار رہا ہے۔ اس پالیسی کا ہر سال اور جب بھی نئی حکومت قائم ہوگی، جائزہ لیا جائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ 7 سال کے ’تزویراتی غور و فکر‘ کے بعد یہ پالیسی تیار کی گئی ہے اور گزشتہ سال دسمبر میں اس کو حتمی شکل دی گئی۔
حالانکہ پالیسی میں دفاع، داخلہ، خارجہ اور معیشت جیسے شعبوں کے حوالے سے مستقبل کا تصور پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن خطہ میں موجودہ بد اعتمادی اور آپسی چپقلش کے ماحول میں پالیسی کا کلیدی نکتہ یہ ہے کہ بالخصوص ہندوستان کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کرنے کے ساتھ ساتھ مسئلہ کشمیر کے حل کو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات کا اہم موضوع قرار دیا گیا ہے۔ قومی ہم آہنگی اور استحکام کو کمزور بنانے میں دہشت گردی کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے عمران خان نے ایک طرح سے دہشت گردی کے موضوع پر ہندوستان کے موقف کی ترجمانی کی ہے۔ ہندوستان کا برسوں سے موقف رہا ہے کہ خطہ کی خوشحالی اور ترقی میں دہشت گردی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ لیکن اس پالیسی میں پیش کردہ اس دعویٰـ کی ہندوستان کے ذریعہ ہمیشہ تردید کی جاتی رہی ہے کہ ’پاکستان اپنی سرزمین پر کسی بھی دہشت گردانہ سرگرمی میں ملوث گروپ کے خلاف زیرو ٹالیرنس کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔‘ یہ بھی قابل غور ہے کہ پاکستان کی قومی سلامتی پالیسی میں ہندوستان کا کم از کم 16 بار ذکر کیا گیا ہے۔ کسی دوسرے ملک کا نام اتنی بار نہیں لیا گیا ہے۔ مسئلہ کشمیر کو ’کلیدی‘ موضوع قرار دیا گیا ہے اور اس سلسلے میں پاکستان اپنے دیرینہ موقف پر ہی قائم نظر آ رہا ہے۔ لیکن باہمی تعلقات کے حوالے سے داخلی اور خارجی سطح پر ’امن کی پالیسی‘ کے تحت ’ہندوستان کے ساتھ رشتے بہتر بنانے کی خواہش کا اظہار‘ کیا گیا ہے۔ حالانکہ کشمیر کو پاکستان کے ’اہم قومی پالیسی‘ کا موضوع قرار دیا گیا ہے لیکن نئی سلامتی پالیسی میں تجارتی اور کاروباری تعلقات کو بہتر بنا کر قریب ترین پڑوسیوں کے ساتھ امن کی خواہش کا اظہار کیاگیا ہے۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ ایک طرف تو پاکستان اپنے شہریوں کی خوشحالی اور ترقی کے لیے معاشی ترقی پر مرکوز پالیسی وضع کرنے پر زور دے رہا ہے، لیکن دوسری طرف پاکستان نے ابھی تک افغانستان جانے والی 50 ہزار ٹن گیہوں پر مشتمل ہندوستانی امداد کے لیے ٹرانزٹ روٹ فراہم نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنی زمینی سرحدوں کے ذریعہ افغان کے ساتھ ہندوستانی اشیا کی تجارت کی اجازت دیتا ہے۔ جہاں تک نظریاتی سطح پر پالیسی سازی کا معاملہ ہے، پاکستان کا یہ ایک بہت ہی خوش آئند قدم ہے لیکن اگر وہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کے لیے واقعی سنجیدہ ہے تو اسے اپنے قول و فعل میں یکسانیت پیدا کرنی ہوگی۔ جغرافیائی اور سیاسی پالیسیوں کی اپنی الگ نوعیت ہوتی ہے۔ ملکوں کے درمیان اختلافات ہوتے ہیں جن کے حل ہونے میں ایک دو سال نہیں بلکہ دہائیاں یا صدیاں تک لگ جایا کرتی ہیں۔ اس لیے قومی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو ان اختلافات کا اسیر نہیں بنایا جانا چاہیے۔ اس حوالے سے ہندوستان چین کے درمیان حالیہ تجارتی حصولیابی ایک بہترین مثال پیش کر رہی ہے۔ ہندوستان اور چین نے اس سال تب ایک اہم اور چونکانے والی کامیابی حاصل کی جب ان کی باہمی تجارت نے 100 ارب ڈالر کے تاریخی اعداد و شمار کو پار کر لیا۔ چونکانے والی اس لیے کیونکہ گزشتہ سال مشرقی لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان پیدا ہونے والی کشیدگی اور اس کے نتیجے میں غیر اعلانیہ طور پر ایک طرح سے چینی سامان کے بائیکاٹ کے رجحان اور ’آتم نربھر بھارت‘مہم پر خصوصی توجہ کے باوجود دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار میں حیران کن اضافہ ہوا۔
اگر ہندوستان اور پاکستان کے درمیان اسی طرزپر تجارتی اور کاروباری رشتے استوار کرنے میں کامیابی ملتی ہے تو برصغیر میں خوشحالی اور ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے اور جس کا ثمرہ خطہ کے عوام کے لئے انقلابی تبدیلی لا سکتا ہے۔ اس کے لیے سیاسی سطح پر دانشمندانہ جرأت اور اقدام کی ضرورت ہے۔ بہرحال عمران خان کی اس پیش قدمی کو ایک موقع دینے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS