مسلمان خاص برتاؤ کانہیں، دستور کے مطابق جائز حقوق کا متمنی: علی خان محمودآباد

0

علی خان محمودآباد

کچھ روز قبل انتخابات کا پہلا دور ختم ہوا۔شاید بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو یہ محسوس ہوا ہے کہ نتیجے اس حد تک ان کے موافق نہیں ہوں گے، جتنا وہ چاہتے ہیں، لہٰذا اتوار کے دن وزیراعظم نے راجستھان کے بانسواڑا میں ایک تقریر میں کانگریس پارٹی اور سابق وزیراعظم منموہن سنگھ پر حملہ کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس نے یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستان کی زمین پر سب سے زیادہ مسلمانوں کا حق تھا اور گویا آج بھی کانگریس کا یہی ارادہ ہے۔تقریر کے کچھ جملے مندرجہ ذیل نقل ہیں:
’’ پہلی جب ان کی سرکار تھی، اُنہوں نے کہا تھا کہ دیش کی سمپتی پر پہلا ادھیکار مسلمانوں کا ہے۔ اس کا مطلب یہ سمپتی اکٹھا کرکے کس کو بانٹیں گے؟ جن کے زیادہ بچے ہوتے ہیں اُن کو بانٹیں گے، گھس پیٹھیوں کو باٹیںگے۔کیا آپ کی محنت کی کمائی کا پیسہ گھس پیٹھیوں کو دیا جائے گا؟ آپ کو یہ منظور ہے؟ ‘‘
اس سے پہلے گوشت کھانے والوں کی مغل ذہنیت پر تبصرہ کیا گیا تھا، یہ بھی کہا گیا تھا کہ دانش علی کو پارلیمان میں جانے کا حق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ وہ بھارت ماتا کی جے نہیں کہتے۔ یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان عورتوں پر وزیراعظم کا احسان ہے جس کا وہ صدیوں تک چرچا کریں گی۔ یہ تین طلاق قانون کے متعلق کہا گیا۔ اُترپردیش کے وزیراعلیٰ نے لوجہاد اور قصائیوں کی بات کی اور تمام دیگر چھوٹے بڑے بی جے پی کے لیڈروں نے بھی اشتعال انگیز بیانات جاری کیے۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ بی جے پی کا حقیقی چہرہ کون سا ہے؟
ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے انتخابات سے قبل یا انتخابات کے دوران بی جے پی کے مکھوٹے بدل جاتے ہیں۔2019 میں بھی شمشان اور قبرستان کی بات کی گئی تھی، ایسی باتیں خاص کر اس وقت ہوتی ہیں جب بی جے پی کی اعلیٰ قیادت اور تجزیہ کاروں کو لگتا ہے کہ الیکشن خطرے میں ہے۔ ایسے مواقع پر بی جے پی کا اصل روپ دکھائی دیتا ہے۔ اگر گزشتہ 10برسوں کے انتخابات کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ جیت کے بعد یا عام دنوں میں اکثر بی جے پی کی اعلیٰ کمان نے مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کی لیکن یہ واضح ہے کہ یہ محض ایک سیاسی چال ہوتی ہے تاکہ قومی یا بین الاقوامی سطح پر ان پر یہ الزام نہ لگے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف ہیں۔ وقتاً فوقتاً اور مصلحتاً بی جے پی نے یہ تاثر دینا چاہا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے،بلکہ اس مقصد کے لیے بی جے پی نے مسلمانوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ مسلمان جو بی جے پی کی حمایت کرتے ہیں، اب کیا کریں اور کیسے لوگوں کو قائل کریں؟
2004میں آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ قائم کیا۔ امریکہ میں9/11کے حملوں کے بعد اور گجرات میں2002 کے بعد دنیا اس جستجو میں تھی کہ ’’اچھا‘‘مسلمان مل جائے گوکہ ایک بڑے طبقے نے یہ کہا تھا اور آج بھی کہتا ہے کہ اسلام ایک متشدد مذہب ہے لہٰذا مسلمانوں پر کبھی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا ہے۔مغربی ملکوں نے اس تحقیق میں کرورڑوں ڈالر لگا دیے اور بعض لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ صوفی اور کچھ دیگر ’’غیر سیاسی‘‘ گروہ قابل بھروسہ ہوسکتے ہیں۔ہندوستان میں شیعوں کے متعلق بھی طے کیا گیا کہ یہ ’’اچھے‘‘ مسلمان ہو سکتے ہیں۔2014کے بعد بی جے پی نے باقاعدہ صوفیوں اور شیعوں کے بڑے بڑے اجلاس منعقد کیے۔ 2016میں ورلڈ صوفی فورم کا ایک بین الاقوامی جلسہ منعقد ہوا۔ اس دوران بی جے پی نے مسلمان عورتوں کو بھی متاثر کرنے کی کوشش کی۔ وزیراعظم نے بھی ایک خاموشی اختیار کی گوکہ ان کی پارٹی کے دیگر افراد نے ہندوتو کے ایجنڈے کو اشتعال انگیز تقریروں اور تشدد کے ذریعے زندہ رکھا۔ 2019میں شہریت ترمیمی قانون جب نافذ کیا گیا تو پھر سے لوگوں کو لگا کہ بی جے پی نہیں بدلی ہے۔ان احتجاجات نے بلا استثنائے مذہب و ملت مسلمانوں کو متحد کیا۔پھر کورونا کی وجہ سے عوام اور حکومت کی توجہ وبا کی طرف مرکوز ہوئی۔ اس زمانے میں بھی آپ سب کو ’’کورونا جہاد‘‘ وغیرہ کے الزامات یاد ہوں گے۔2022 میں جب اترپردیش میں مسلمانوں کا کم از کم 79فیصد ووٹ متحد ہو کر بی جے پی کے خلاف سماجوادی پارٹی کو ملا اور یہ واضح ہو گیا کہ ان کی فرقہ وارانہ پالیسی کامیاب نہیں ہوئی تو ایک نیا حربہ اپنایا گیا۔ جولائی2022میں حیدرآباد میں وزیراعظم نے پسماندہ مسلمانوں سے ہمدردی جتاتے ہوئے اعلان کیا کہ بی جے پی کے کارندوں اور رہنماؤں کو پسماندہ مسلمانوں کو مرغوب کرنے کی کوشش کرنا چاہیے۔بلدیاتی انتخابات میں391 مسلمانوں کو بی جے پی کا ٹکٹ بھی دیا گیا لیکن جیسے انور علی صاحب اور دیگر لیڈروں نے کہا کہ پسماندہ مسلمان ہی بی جے پی کے تعصب اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں۔2022کے بعد دہلی اور کرناٹک میں بھی اشتعال انگیز تقریروں کے ذریعے عوام کو بھڑکانے کی کوشش کی لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ 2014-2024 تک آر ایس ایس اور بی جے پی کے رہنماؤں نے اکثر یہ تأثر قائم کرنے کی کوشش کی کہ وہ مسلمانوں کے خلاف نہیں ہیں بلکہ ہمدرد ہیں،کوئی مسلمانوں کے وفود سے ملا تو کسی نے درگاہوں میں چادریں بھجوائی لیکن ایسی علامتی سیاست کا کوئی گہرا اور دیرپا اثر نہیں ہوتا ہے۔
بانسواڑا کی تقریر کے بعد علی گڑھ میں وزیراعظم نے اپنی تقریر میں کہا کہ سعودی ولی عہد سے خاص سفارش کر کے انہوں نے ہندوستان کے حج کوٹے میں اضافہ کروا دیا۔ ممکن ہے راجستھان کی تقریر پر ہنگامے کی وجہ سے نرم پہلو اختیار کیا گیا لیکن سوشل میڈیا کے دور میں ان دو متضاد تقریروں اور پیغامات کو کیسے سمجھا جائے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے پی کی سیاست کی وجہ سے تاریخ میں پہلی بار مسلمان سیاسی طور پر متحد ہو رہے ہیں گوکہ بی جے پی یہ الزام حزب اختلاف پر لگاتی ہے۔ 1937کے مسلم لیگ اور کانگریس کے الیکشن تک میں مسلمان متحد نہیں تھے۔ آزادی کے بعد حال تک مسلمان کے ووٹ کئی جگہ بٹے ہوئے تھے۔ حد تو یہ ہے کہ بنگال کے مالدہ اُتر میں 2019 میں بی جے پی جیت گئی، باوجود اس کے کہ وہاں مسلمانوں کی آبادی45فیصدہے۔ اس کا سبب یہ تھا کہ کانگریس اور ٹی ایم سی دونوں نے مسلمان کھڑے کیے تھے۔جب 2014 میں بی جے پی جیتی تھی تو ہم نے وزیراعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا تھا جو آج بھی ٹائمس آف انڈیا کی ویب سائٹ پر ہے،جس کا عنوان Letter to my Prime Minister ہے۔اس میں راقم نے یہ لکھا تھا کہ اب اقتدار حاصل کرنے کے بعد ان کو بھی ہندوستانیوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے اس وقت ہم جانتے تھے کی ایسا ہونا ناممکن ہے لیکن وہ خط اس لیے لکھا تاکہ کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ آپ نے کبھی بی جے پی کو موقع نہیں دیا۔10 سال ہوگئے ہیں اور آج تشدد اور تعصب عروج پر ہے۔ ہندوستان کا مسلمان کوئی خاص برتاؤ نہیں، بس یہ چاہتا ہے کہ اس کو بھی وہ تمام حقوق ملیں جن کا وعدہ دستور کرتا ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ جب سیاست کسی ڈر یا کسی گروہ یا قوم یا فرقہ کی ضد میں کی جاتی ہے تو وہ کبھی بھی مثبت سیاست میں تبدیل نہیں ہو پاتی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS