رئیسی کا پاک دورہ اور عالمی سیاست

0

کسی ملک کے سربراہ، وزیراعظم یا صدر کے عام دوروں کی بھی اہمیت ہوتی ہے اور اگریہ دورہ بدلے ہوئے حالات میں کیا جائے تو اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے پاک دورے کی بڑی اہمیت ہے۔ ایرانی صدر اس وقت پاکستان کے دورے پر گئے ہیں جب اسرائیل اور ایران کے مابین تنازعات کے بڑھنے کا اندیشہ ہے۔ روس کی وجہ سے بھی ایران، امریکہ اور یوروپی ممالک کے نشانے پر ہے۔ دراصل ان ملکوں کے لیے یوکرین جنگ کوئی عام جنگ نہیں ہے۔ یوکرین کی شکست یوروپی ممالک کے اس خوف میں اضافہ کر دے گی کہ روس نے خود کوسوویت روس کے وارسا پیکٹ کے دنوں میں لے جانے کی ابتدا کر دی ہے۔ غالباً اسی لیے امریکی کانگریس نے یوکرین کے لیے61 ارب ڈالر کی امداد منظور کی ہے۔ امریکہ نے پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کی 4 سپلائر کمپنیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ان کمپنیوں میں سے 3 چین کی کمپنیاں ہیں ، ایک کمپنی بیلاروس کی ہے۔ امریکہ کے اس قدم سے بظاہر یہ لگتا ہے کہ اس نے پاکستان کو نشانہ بنایا ہے مگر اس نے پاکستان کے ساتھ چین اور بیلاروس کو ہی نہیں، روس کو بھی نشانہ بنایا ہے، کیونکہ ان دونوں کے روس سے مستحکم تعلقات ہیں۔ ادھر امریکی ایوان نمائندگان نے اسرائیل کے لیے 26 ارب ڈالر کی ہنگامی امداد منظور کرکے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ ہر طرح سے اسرائیل کی مدد کرتے رہیں گے۔ ایسی صورت میں اہل غزہ سے ان کی زبانی ہمدردی کی کوئی اہمیت نہیں رہ جاتی ہے مگر انہیں اپنا کچھ بھرم بھی رکھنا ہے تاکہ ان کی انسانیت کی باتوں پر عالمی برادری کا اعتماد بالکل ہی ختم نہ ہو۔ یہ بات الگ ہے کہ غزہ کے معاملے میں عالمی برادری نے امریکہ اور بیشتر یوروپی ملکوں کی اصل انسانیت دیکھ لی ہے، یہ سمجھ لیاہے کہ ان کے نزدیک انسان کون ہے، کن لوگوں کی جانوں کی اہمیت نہیں ہے۔ عالمی برادری نے یہ بھی دیکھ لیا ہے کہ شام میں ایرانی سفارتخانے پر حملے کی مذمت امریکہ اور اس کے اتحادی ملکوں نے نہیں کی لیکن اسرائیل پر اس کے حملے کی مذمت کرنے میں ان کی طرف سے تاخیر نہیں کی گئی۔ اس حملے کا جواب دے کر اسرائیل نے یہ اشارہ دے دیا ہے کہ غزہ جنگ نے اس کا حوصلہ بڑھا دیا ہے۔ اسے کسی ملک کی پروا نہیں۔ یہ صورتحال ایران کے لیے عام صورتحال نہیں ہے۔ غالباً اسی لیے ایران کے صدرابراہیم رئیسی آج بروز پیر، 22 اپریل، 2024 کو سہ روزہ دورے پر پاکستان گئے ہیں۔ اس دورے کے پہلے ہی دن ایران اور پاکستان کے مابین 8 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پردستخط ہوئے۔ ان میں دونوں ملکوں کے درمیان سیکورٹی تعاون کا معاہدہ بھی شامل ہے۔

پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے ان کی ’تمام شعبوں میں تفصیلی گفتگو ہوئی۔ ایران اور پاکستان کے تعلقات صرف 76سال سے نہیں، پاکستان کو سب سے پہلے ایران نے تسلیم کیا۔‘ یہ باتیں اپنی جگہ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ابھی چند مہینے پہلے ہی ایران اورپاکستان کے درمیان تعلقات کافی تلخ ہوگئے تھے۔ دونوں نے ایک دوسرے پرحملہ کیا تھا، ان حملوں کو ’دہشت گردوں کے خلاف کارروائی‘ قرار دیا تھا۔ اس وقت یہ امید نہیں کی جا سکتی تھی کہ ایران کے صدر رئیسی اتنی جلدی پاک دورے پر جائیں گے مگر ایران کے اسرائیل سے تنازع نے حالات بدل دیے ہیں۔ ایران، پاکستان سے بگاڑ کر رکھنا نہیں چاہتا۔ غالباً چین بھی یہی چاہتا ہے۔ ایرانی صدرابراہیم رئیسی کا پاکستان آنا اور آج ہی رات سابق پاک وزیراعظم نواز شریف کا 5 روزہ چین کے دورے کے لیے روانہ ہونے کا پروگرام کیا پہلے سے طے شدہ عام پروگرام ہے یا کچھ خاص بات ہے؟ ان حالات پر وطن عزیز ہندوستان کو گہری نظر رکھنی ہوگی۔ایران سے اس کے اچھے تعلقات ہیں اور ان تعلقات کی ایران کی طرح ہی اس کے لیے بھی بڑی اہمیت ہے۔ وطن عزیز کے روس، اسرائیل اور امریکہ سے بھی مستحکم تعلقات ہیں۔ یوکرین جنگ میں اس نے مثالی غیرجانبداری دکھائی ہے مگر اسرائیل اور ایران کا تنازع اگر جنگ کی طرف بڑھ جاتا ہے، اس میں امریکہ اور اس کے اتحادی براہ راست شامل ہوتے ہیں تو ملک عزیز ہندوستان کے لیے حالات مختلف ہوجائیں گے، اس لیے دیکھنے والی بات یہ ہوگی کہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کے دورۂ پاک اور نواز شریف کے دورۂ چین کا اصل مقصد کیا ہے؟ یہ دورے عالمی حالات کی کن تبدیلیوں کی طرف اشارہ ہیں؟
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS