محمد فاروق اعظمی
ملک کے شمال سے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک جن جن علاقو ںمیں مسلمانوں کی آبادی کسی ایک جگہ مرکوز ہے اور وہاں ان کی اکثریت کو منتشر کرنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کیے جارہے ہیں۔گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ملک کی مختلف ریاستوں سے ایسی کئی خبریں موصول ہوئی ہیں جن کے بین السطور یہی کہانی گردش کررہی ہے کہ صدیوں سے آباد مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن قرار دے کر ان سے زمینیں خالی کرائی جائیں اور ان کی آبادی کو منتشر کیا جائے۔ پہلی خبر سری نگرسے آئی۔اس جنت ارضی کے علاقہ نشاط اسٹیٹ کی ایک آبادی میں 5جون کوپٹواری کے ساتھ پولیس کی ایک ٹیم پہنچی اور وہاں کے15مکینوںکو دو ہفتوں کے اندر ان کے گھرخالی کرنے کا حکم دیا۔ پولیس انتظامیہ اور پٹواری کا کہنا ہے کہ یہ 15مکین غیرقانونی قابضین ہیں اور زمین کا اصل مالک سریندر ولدمکندر ہے۔ان 15مکینوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے باقاعدہ یہ زمین 1970کی دہائی میں خریدی ہے اور اس پر مکان بنایا ہے۔خریداری کے دستاویزا ت بھی ان کے پاس ہیں۔دوسری خبر آسام سے آئی۔ جہاں خود وزیراعلیٰ نے مسلمانوں سے زمینیں خالی کرانے کی مہم چھیڑ رکھی ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں کی زیادہ آبادی ہونے کی وجہ سے وہ سرکاری زمینوں پر قبضہ کررہے ہیں اور ایک دن ایسا آئے گا کہ وہ ان کے گھر تک پہنچ جائیں گے۔ وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما نے ریاست میں زمام اقتدار سنبھالتے ہی مسلما نوں کے خلاف بزن بول دیا ہے۔ریاست کے ڈارنگ ضلع میں واقع سیپ جھر قصبہ میں180بیگھہ زمینوں سے مسلمانوںکو بے دخل کیاگیا جب کہ ہوجئی ضلع کے کاکی تارنگ، کریم گنج اور سوٹیاقصبہ میں2005بیگھہ زمینیں مسلمانوں سے خالی کروائی گئی ہیں۔آسا م کے وزیراعلیٰ ہیمنت بسواسرما کے نشانہ پر ریاست کے ڈھوبری، بونگائی گائوں، گوال پاڑہ، موری گائوں، جنوبی سالمارا، کامروپ، کوکراجھار، چیرانگ، کچھر،کریم گنج، ہوجئی، ہیلاکانڈی اور ڈارنگ اضلاع ہیں۔ ان اضلاع کا زیادہ تر رقبہ جنگلات پر مشتمل ہے اور یہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے۔وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ اراضی پر سے قبضہ ختم کرانے کی مہم اس وقت تک جاری رہے گی جب تک مسلمانوں کو زمینوں سے بے دخل نہ کردیاجائے۔
مسلم اکثریتی علاقوں میں ’ترقی‘ کے نام پر کیے جانے والے ان اقدامات کی حقیقت ان علاقوں کے مکین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اچھی طرح سمجھ رہی ہے۔ ۔۔۔کشمیر، آسام ہو، لکش دیپ مسلم اکثریت والے دوسرے علاقوں میں حکومت کا جبر، اشتعال انگیز اقدامات اور امتیازی قانون سازی یہ سارے اقدامات سازش کی نشاندہی کرتے ہیں۔
تیسری خبر جو سب سے پہلے آئی تھی وہ مرکزی خطہ جزیرہ لکش دیپ سے متعلق ہے جہاں لکش دیپ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ریگولیشن2021منظور کیاجارہاہے۔اس نئے قانون کے تحت حکومت جب چاہے کسی کی رہائشی، آبی یا صنعتی کوئی سی بھی زمین بغیر وجہ بتائے کبھی بھی اپنے قبضہ میں لے سکتی ہے۔ملک کے انتہائی جنوب میں ریاست کیرالہ سے 300کلومیٹر دور بحیرہ عرب میں واقع اس جزیرہ میں کئی اور قانون بھی بنائے جارہے ہیں جن میں بیف پر پابندی اور شراب کی کھلے عام فروخت کی اجازت دیاجانااور بغیر وجہ بتائے کسی کو بھی گرفتار کرلینے اور اس گرفتاری کو صیغہ راز میں بھی رکھنے کا حق انتظامیہ کو حاصل ہوجائے گا۔یعنی کوئی بندہ کب غائب ہوجائے کہا نہیں جاسکتا ہے نہ اس کی کوئی دادفریاد اور نہ کوئی عدالت سے رجوع کرپائے گا۔اس جزیرہ میں ایک تیسرا قانون بھی نافذ ہونے والا ہے جس کے بعد مقامی بلدیہ کے انتخاب میں حصہ لینے والوں کیلئے لازم ہوجائے گا کہ وہ بچے پیدا نہ کریں۔ جن کے بھی دو سے زیادہ بچے ہوں گے انہیں انتخاب میں حصہ لینے کا حق نہیں ہوگا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ملک کے ان تینوں مسلم اکثریتی خطوں میں جو اقدامات کیے جارہے ہیں ان کی وجہ ترقی بتائی گئی ہے۔ سابقہ ریاست جموں و کشمیر الگ الگ خطوں میں تقسیم بھی اسی ترقی کے سبب ہوئی تھی اور ریاست کے گورنر منوج سنہا کا ہر قدم بھی اسی دعوے کے ساتھ اٹھ رہاہے کہ وہ کشمیر میں دودھ اور شہد کی نہریں بہانے کا کام کررہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب دنیا کے ہر شخص کی آرزو ہوگی کہ وہ کشمیر کی ترقی سے اپنی آنکھیں سیراب کرے۔ اس ترقی کیلئے وہاں کے مکینوں کو بے دخل کرنا بھی ضروری ہے تاکہ ’کار ترقی‘میں کوئی مزاحم نہ ہوسکے۔
آسام میں مسلمانوں کی ان کی زمین سے بے دخلی کی کارروائی کے پیچھے بھی یہی وجہ بتائی جارہی ہے۔ ریاست کے مسلمانوں کی پسماندگی اور زبوں حالی سے ہیمنت بسواشرما انتہائی آزردہ ہیں، ان کی راتوں کی نیند اڑ گئی ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ جتنی جلد ہوسکے وہ مسلمانوں کی جھولی میں ترقی کے ثمرات ڈال سکیں۔لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ ریاست کے مسلمان انتہائی پسماندہ، ناخواندہ، دنیا سے ناآشنا اورترقی کے اصل مفہوم و معنی سے بے خبر ہیں۔ جب تک ا نہیں ان کی زمینوں سے ہٹایا نہیں جائے گا اور ان کی آبادی کم نہیں کی جائے گی، ترقی کے دروازے ان پر بند رہیں گے۔ اس دروازے کو کھولنے کی واحد کلید ان کے پاس ہے اور وہ ہے مسلمانوںکو زمین سے بے دخل کیاجائے اور ان کی آبادی کم سے کم کی جائے۔حیرت انگیز با ت یہ بھی ہے کہ آبادی کم کرنے کی پرزور، اشتعال انگیز اور جارحانہ مہم شروع کرنے والے ہیمنت بسوا سرما خود کثیرا لاولاد ہیں اور اب بھی وہ عطائے خداوندی سے مایوس نہیں ہیں۔حیرت اور بھی سوا ہوجاتی ہے جب حکومت کے جاری کردہ آبادی سے متعلق اعداد و شمار پر نظرجاتی ہے۔ دسمبر2020میں جاری کیے گئے قومی خاندانی صحت سروے5-(نیشنل فیملی ہیلتھ سروے5-) ڈاٹا کے بموجب آسام میں مسلمانوں کی افزائش آبادی کی شرح کم ہوکر2.4فیصد ہوگئی ہے جب کہ 2005-06میں جب قومی خاندانی صحت سروے 4-کیاگیا تھا تو یہ شرح3.64فیصدتھی۔
بعینہٖ یہی صورتحال مجموعہ الجزائر لکش دیپ کی ہے جہاں گجرات سے پہنچنے والے ایڈمنسٹریٹر پرفل پٹیل آبادی پر قدغن لگانے کاقانو ن بنا رہے ہیں۔ 32 مربع کلومیٹر تک پھیلے ہوئے لکش دیپ کے 36 جزائر میں کل 62ہزار نفوس آباد ہیں اور یہاں کی آبادی میں شرح افزائش فقط6.23فیصد ہے۔باوجود اس کے ایڈمنسٹریٹرپرفل پٹیل کی خواہش ہے کہ آبادی کم کرنے کا جتن کیاجائے تاکہ مسلمانوں کی اکثریت والے اس جزیرہ کی ’ترقی‘ ہوسکے۔پرفل پٹیل کا دعویٰ ہے کہ لکش دیپ میں آزادی کے 70 سال بعد بھی کوئی ترقی نہیں ہوئی ہے۔ان کی انتظامیہ کی کوشش ہے کہ وطن عزیزمیں ہورہی ترقی کی روشنی اس جزیرہ تک بھی پہنچے اور جزیرہ کی آبادی اپنی تاریک زندگی کو روشن و آباد کرے۔اس ’ کارترقی‘ کیلئے97فیصد مسلم آبادی والے اس جزیرہ میں شراب خانوں کے قیام کی کھلی اجازت، بیف ذبیحہ پر پابندی، آبادی پر کنٹرول اور زمینوں پر قبضہ لازمی ہے۔
مسلم اکثریتی علاقوں میں ’ترقی‘ کے نام پر کیے جانے والے ان اقدامات کی حقیقت ان علاقوں کے مکین ہی نہیں بلکہ پوری دنیا اچھی طرح سمجھ رہی ہے۔ لاکھ انکار کیاجائے مگر سچائی یہ ہے کہ ہندوستان کی موجودہ حکومت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کررہی ہے ۔ کشمیر، آسام ہو، لکش دیپ مسلم اکثریت والے دوسرے علاقوں میں حکومت کا جبر، اشتعال انگیز اقدامات اور امتیازی قانون سازی یہ سارے اقدامات اسی کی نشاندہی کرتے ہیں۔اسلام کی حقانیت تسلیم کرنے کے بجائے اس سے خوف زدگی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت کی شکل اختیار کرلی ہے ۔جمہوریت، سیکولرزم کے تمام تر دعوے اور آئین کی پاسداری کا حلف اٹھانے والی حکومت کے یہ اقدامات اسی نفرت کانتیجہ ہیں جنہیں ’ مسلمانوں کی ترقی‘ کا خوبصورت نام دیاجارہاہے۔
[email protected]