خریداری میں اضافہ ہوگا تو کم ہوگی مہنگائی

جیسے جیسے لوگ ضروری خریداری سے ہٹ کر گھومنے پھرنے اور باہر کھانے پر خرچ کرنے لگیں گے، ویسے ویسے مہنگائی میں راحت ملنے کے آثار ہیں

0

آلوک جوشی

۔۔۔باقی کچھ بچا تو مہنگائی مار گئی۔ 1974میں آئی سپرہٹ فلم ’روٹی، کپڑا اور مکان‘ کا یہ گانا آج کے حال پر ایک قدم فٹ بیٹھتا ہے۔ کورونا کی بیماری اور اس سے پیدا ہوئی بے روزگاری کی مار جھیل رہے ملک کو اب مہنگائی بھی بری طرح ستا رہی ہے۔
پٹرول اور ڈیژل کے چرچے تو ہوئے بھی، پٹرول کی قیمت سنچری لگا بھی چکی ہے۔ بنگال الیکشن ختم ہونے کے بعد سے گزشتہ ہفتہ تک ان کی قیمتوں میں22مرتبہ اضافہ ہوچکا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک نیا میم چل رہا ہے- پٹرول کا نیا بھاؤ، 25روپے پاؤ! مذاق اڑانے کا انداز دلچسپ ہوسکتا ہے لیکن پٹرول کوئی پاؤ بھر تو لیتا نہیں ہے۔ پاؤ، یعنی 250گرام اور اس سے بھی کم یعنی، 100یا 50گرام میں جو تیل فروخت ہوتا ہے، وہ ہے کھانے کا تیل۔ مگر پٹرول-ڈیژل کے چکر میں اس کی قیمت پر خاص بات چیت نہیں ہورہی ہے، جب کہ اس کی قیمت میں بھی کم آگ نہیں لگی ہوئی ہے۔ گزشتہ کچھ ماہ میں تو ان تیلوں کی مہنگائی بہت تیز ہوئی ہے۔ سرسوں کے تیل نے تو ڈبل سنچری مار دی، لیکن چرچا ویسی ہی ہوئی، جیسے سچن، دراوڑ اور گنگولی کے آگے متالی راج کی بلے بازی کی ہوتی ہے۔
سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مونگ پھلی کا تیل 20فیصد، سرسوں کا تیل 44فیصد سے زیادہ ونسپتی تقریباً 45فیصد، سویا تیل تقریباً53فیصد، سورج مکھی کا تیل56فیصد اور پام آئل تقریباً54.5فیصد مہنگا ہوا۔ یہ اعدادوشمار28مئی، 2020سے 28 مئی 2021کے دوران کا حال بتاتے ہیں۔
مئی میں ہی اپریل ماہ کے لیے تھوک مہنگائی کے جو اعدادوشمار آئے ، اس میں مہنگائی میں اضافہ کی شرح 11سال کی نئی بلندی پر نظر آرہی ہے۔ گزشتہ سال کے مقابلہ 10.5فیصد اوپر۔ ظاہر ہے، تھوک قیمتوں کا اثر کچھ ہی وقت میں خردہ بازار میں نظر آتا ہے اور وہ نظر بھی آرہا ہے۔ کرانہ کے سامان، یعنی گھر میں روزمرہ استعمال کی چیزیں اوسطاً40فیصد مہنگی ہوگئی ہیں، جب کہ کھانے کے تیل کی قیمتوں میں50فیصد سے زیادہ اضافہ ہوچکا ہے۔ اور، ابھی حالات یہی بتارہے ہیں کہ ان کی قیمتوں میں اضافہ کا سلسلہ رکنے والا نہیں ہے۔

امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ سے ان امیروں کے درمیان بھی کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، جنہیں دیکھ کر ہم اور آپ سوچیں گے کہ انہیں مہنگائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کی تشویش کی ایک بڑی وجہ مہنگائی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ وابستہ یہ خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے اگر شرح سود میں اضافہ ہونے لگے تو شیئر بازار پر دباؤ بن سکتا ہے اور دوسری طرف قرض لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔

صرف تیل نہیں، سبھی کموڈٹیز کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ کموڈٹیز کاروباری اور سٹے بازوں کا کہنا ہے کہ اس وقت تیزی کا ایک سپرسائیکل، یعنی مہاتیزی چل رہی ہے۔ پوری دنیا میں کھانے پینے کی چیزیں اور باقی استعمال کی چیزیں، جیسے دھاتوں اور کچے تیل کی قیمتوں میں بھی مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس تیزی کی ایک بڑی وجہ وہی ہے جو شیئربازار میں تیزی کی ہے۔ یعنی وبا سے نمٹنے کے لیے سرکاری راحت پیکیجز کی رقم بڑے پیمانہ پر بازار میں آنا۔ امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے ممالک میں کورونا راحت کے نام پر نوٹ چھاپ چھاپ کر عوام کو جو پیسہ تقسیم کیا جارہا ہے، وہ گھوم پھر کر ایکٹیوٹی اور کموڈیٹی بازار میں پہنچ رہا ہے۔
اس کے علاوہ امریکہ اور ارجنٹائنا کے کچھ حصوں میں قحط پڑنے کی وجہ سے سویا کی فصل کمزور ہوئی ہے۔ اور اگلے سال بھی وہاں کسان اس کی کھیتی سے بچنے کی سوچ رہے ہیں۔ یعنی خطرہ ابھی اور بڑھنے والا ہے۔ پوری دنیا میں کھانے کے تیل کی قیمتیں بڑھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ تیل اب صرف کھانے کے لیے استعمال نہیں ہوتے، بلکہ بہت سے ممالک میں ان کا استعمال پٹرول اور ڈیژل کے ساتھ ایندھن کے لیے بھی ہونے لگا ہے۔
دوسرا بڑا مسئلہ یہ ہے کہ کورونا کی وجہ سے کاروبار بھی رکا پڑا ہے اور پیداوار بھی۔ لیکن ڈیمانڈ میں کمی کے بجائے اضافہ ہورہا ہے۔ چین جیسے کچھ ملک اس وقت اپنا ذخیرہ بڑھانے کے لیے یہ تیل خرید رہے ہیں، جس کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ ہندوستان میں کھانے کے تیل کی کھپت تقریباً 2.4کروڑ ٹن ہے، جب کہ پیداوار ایک کروڑ ٹن کے آس پاس ہی ہوتی ہے۔ ایسے میں 1.3ٹن سے اوپر، یعنی ضرورت کا 56فیصد تیل درآمد کرنا پڑتا ہے۔ اب پوری دنیا کے بازار میں تیزی کا اثر تو نظر آنا ہی ہے۔ اوپر سے ٹیکس اور ڈیوٹی اسے اور مہنگا بناتے ہیں۔
مہنگائی کی یہ بیماری صرف ہندوستان میں نہیں، پوری دنیا میں کورونا کی ہی طرح پھیل رہی ہے۔ پڑوسی ملک پاکستان میں مہنگائی تقریباً 11فیصد پر پہنچ گئی ہے تو امریکہ میں مئی میں خردہ قیمتوں کا انڈیکس پانچ فیصد پر پہنچ گیا، جو وہاں 2008کے بعد سے سب سے اونچی سطح ہے۔ مہنگائی کے ہی ایک دوسرے اعدادوشمار ہیں، کورپرائز انڈیکس، یعنی ضروری چیزوں کی قیمتوں کی رفتار کا میٹر۔ امریکی سینٹرل بینک فیڈ ریزرو اپنی پالیسی کے لیے اسی میٹر پر نظر رکھتا ہے۔ اس میں کھانے پینے کی چیزوں اور پٹرول کی قیمتیں ہٹاکر دیکھنے پر 3.1فیصد کا اضافہ نظر آرہا ہے۔ یہ 1992کے بعد سے سب سے زیادہ ہے۔ ادھر چین میں یہی اعدادوشمار 0.9فیصد ہے۔ اس لحاظ سے چین کے حالات بہت اچھے نظر آرہے ہیں، مگر فیکٹری گیٹ انفلیشن، یعنی فیکٹری میں بنے سامان کی قیمتوں میں اضافہ کی رفتار 9فیصد سے اوپر پہنچ چکی ہے۔ چین میں مہنگائی کی وجہ سے امریکہ جانے والے چین کے سامان کی قیمتیں بھی 2.1فیصد کی رفتار سے بڑھ گئی ہیں، اور پوری دنیا میں اس خطرہ کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سستا مال برآمد کرکرکے دنیا کے بازار پر قبضہ کرنے والا چین کہیں اب مہنگائی تو ایکسپورٹ نہیں کرنے والا ہے۔
ادھر امریکہ میں مہنگائی میں اضافہ سے ان امیروں کے درمیان بھی کھلبلی سی مچی ہوئی ہے، جنہیں دیکھ کر ہم اور آپ سوچیں گے کہ انہیں مہنگائی سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کی تشویش کی ایک بڑی وجہ مہنگائی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ وابستہ یہ خدشہ ہے کہ اس کی وجہ سے اگر شرح سود میں اضافہ ہونے لگے تو شیئر بازار پر دباؤ بن سکتا ہے اور دوسری طرف قرض لینا بھی مشکل ہوجائے گا۔ لیکن چین ہو یا امریکہ، مہنگائی کے اس بحران سے نکلنے کا راستہ تو کورونا کا ٹیکہ لگنے کے بعد ہی نظر آئے گا۔ جیسے جیسے لوگ باہر نکلیں گے، اور زیادہ خریداری سے ہٹ کر گھومنے پھرنے اور باہر کھانے پر خرچ کرنے لگیں گے، ویسے ویسے مہنگائی میں راحت ملنے کے آثار ہیں۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی ضروری ہوگا کہ لوگوں کے روزگار کا انتظام ہو۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
(بشکریہ: ہندوستان)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS