جی-7 ممالک اور چین

0

جی-7 کا 47 واں سربراہ اجلاس 11 سے 13 جون تک برطانیہ کے علاقے کورنوال میں منعقد ہوا۔ اس سربراہ اجلاس پر عالمی برادری کی نظریں مرکوز تھیں، کیونکہ جی-7 ترقی یافتہ اور طاقتور ملکوں کا گروپ ہے اور اب تک کی عالمی تاریخ نے یہی ثابت کیا ہے کہ دنیا کی دِشا اور دَشا کے تعین میں ترقی یافتہ ملکوں کے رجحانات اور ترجیحات اہم رول ادا کرتے ہیں۔ مطلب یہ کہ بیشتر پسماندہ یا ترقی پذیر ملکوں کی اپنی سوچ نہیں ہوتی، انہیں اسی سوچ میں ڈھلنا پڑتا ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کی سوچ ہوتی ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد دنیا بڑی حد تک دو گروپوں میں اور کسی حد تک تین گروپوں میں منقسم تھی۔ ایک امریکہ کے اتحادیوں کا گروپ تھا، دوسرا سوویت یونین کے اتحادیوں کا اور تیسرا گروپ ناوابستہ تحریک سے وابستہ ملکوں کا گروپ تھا مگر ناوابستہ تحریک کے بیشتر ملکوں کا جھکاؤ بھی امریکہ یا سوویت یونین میں سے کسی ایک کی طرف تھا،اس لیے سمجھا جاتا تھا کہ دنیا بڑی حد تک دو گروپوں میں بٹی ہوئی ہے۔ اس وقت امریکہ کی یہ کوشش رہتی تھی کہ وہ خود کو سب سے زیاہ طاقتور ثابت کرے۔ اسی کوشش کے تحت اس نے ’مارشل‘ پلان کے تحت مغربی یوروپ کے ملکوں کی مدد کی تھی، ناٹو کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ سوویت یونین کی بھی یہ کوشش تھی کہ وہ امریکہ کے سامنے خود کو برتر ثابت کرے ۔ اسی لیے اس نے وارسا پیکٹ کی تشکیل کی تھی اور دیوار برلن کی تعمیر ہوئی تھی تاکہ دنیا کو یہ بات سمجھائی جا سکے کہ جرمنی کی ہی تقسیم نہیں ہوئی ہے، دنیا بھی دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے فدیل کاسترو کو ہٹانے کی کوشش کی تھی تاکہ کیوبا پر سے سوویت یونین کے اثرات ختم کیے جا سکیں۔ اس کے بعد وہاں سوویت یونین نے میزائلیں نصب کر دیں اور میزائل کرائسس کی نوبت آگئی۔ دنیا کنیڈی کی سمجھداری سے بچ گئی ۔ امریکہ کو بڑا موقع اس وقت ہاتھ لگا جب سوویت یونین سے سرحدی تنازع کی وجہ سے چین کی پوزیشن کمزور ہو گئی تھی۔ امریکہ نے چین سے تعلقات کی شروعات کی اور 1972 میں امریکی صدر رچرڈ نکسن نے چین کا دورہ کیا۔ اس دورے نے اس وقت امریکہ کی پوزیشن بدلی اور چین کے لیے نئی پوزیشن میں آنے کی راہ ہموار کر دی۔ آج دنیا اسی 1972کو یادکر رہی ہے۔ جی-7 سربراہ اجلاس کی اہم باتوں کا تذکرہ بھی امریکہ-چین تعلقات کی وجوہات اور تعلقات کے ابتدائی دنوں کی باتوں کو یاد کیے بغیر ممکن نہیں، کیونکہ اس کے بعد امریکہ خوش فہمی میں مبتلا ہو گیا تھا، سوویت یونین کے بکھراؤ کے بعد تو وہ بالکل مطمئن سا ہو گیا تھا۔ اسی لیے جنگوں میں اس نے خود کو اور اپنے اتحادیوں کو الجھا دیا اور چین اور روس جیسے ملکوں کو حالات سے فائدہ اٹھانے کا موقع دے دیا۔
آج حالات یہ ہیں کہ چین کے 2028 تک امریکہ کو پیچھے چھوڑ کر نمبر وَن اقتصادی طاقت بننے کی بات کہی جا رہی ہے۔ ظاہر سی بات ہے، یہ صورت حال نہ امریکہ کے لیے ٹھیک ہوگی اور نہ دنیا کے لیے، کیونکہ امریکہ کی پالیسی پر چاہے جتنی بھی تنقید کی جائے مگر اس سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اس نے اکثر موقعوں پر ملکوں کو خواہ مخواہ تنگ کرنے سے گریز کیا ہے، ملکوں کی خود مختاری کی عزت کی ہے مگر چین کب کس ملک کے علاقے پر دعویٰ کر دے، یہ کہنا مشکل ہے۔ جیسے جیسے اس کی اقتصادی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہے، اس کی توسیع پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔ امریکہ کے پاس پانچ چھ سال کا وقت ہے۔ اسی عرصے میں اسے چین سے ہر محاظ پر مقابلہ کرنا ہے ۔ ٹرمپ کی مدت صدارت میں امریکہ نے چین سے ٹریڈ وار شروع کی تھی، جی-7 کے حالیہ سربراہ اجلاس کے اہم نکات کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اس کا دائرہ وسیع ہوگا۔ جی-7 کے ملکوں کے ساتھ امریکہ چین کا ناطقہ بند کرنے کی کوشش کرے گا۔ اسے کتنی کامیابی ملے گی، یہ کہنا فی الوقت مشکل ہے، کیونکہ امریکہ پر سب سے زیادہ قرض جاپان کے بعد چین کا ہے۔ چین نے دنیا بھر کے ملکوں کو قرض دے رکھے ہیں، وہ چین کے قرضوں سے نجات ملے بغیر امریکہ کے ساتھ کھڑے ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گے۔ پھر یہ کہ امریکہ نے چین کے علاوہ روس سے بھی تعلقات کشیدہ بنا رکھے ہیں۔ اس کا فائدہ بھی چین کو ملے گا۔ چین امریکہ کے خلاف روس کو اسی طرح استعمال کرنا چاہے گا جیسے 70 کی دہائی میں امریکہ نے سوویت یونین کے خلاف چین کو استعمال کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہی حالات ہیں جو چین کے لیے باعث تقویت ہیں اور وہ کھل کر اپنی آرا ظاہر کر رہا ہے، چنانچہ جی-7 سربراہ اجلاس میں امریکہ سمیت دیگر ملکوں نے چین کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئے منصوبے پر اتفاق کیا، جس کے تحت ترقی پذیر ممالک میں جی-7 ممالک انفرااسٹرکچر پر رقم صرف کریں گے، تو لندن میں چینی سفارت خانے کے ترجمان نے کہا کہ ’وہ دن کب کے چلے گئے جب چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔‘مطلب یہ کہ فی الوقت چین مرعوب ہونے کے لیے تیار نہیں۔ ایسی صورت میں وطن عزیز ہندوستان کو بے حد محتاط قدم اٹھانا چاہیے، کیونکہ سچ یہ بھی ہے کہ امریکہ اپنے مفاد پر رشتوں کو قربان کرتا رہا ہے!
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS