مسلم ممالک: ڈفلی الگ، راگ ایک!

0

ہر ملک کے لیے اس کا اپنا مفاد ہی سب سے زیادہ اہم ہوتاہے۔ اسی مناسبت سے اس کی پالیسی میں تبدیلی آتی ہے جیسے گزشتہ برسوں میں ایک سے زیادہ مسلم ملکوں، بالخصوص عرب ملکوں کی اسرائیل پالیسی میں تبدیلی آئی۔ پہلے وہ دکھایا کرتے تھے کہ ان کے لیے مسجد اقصیٰ کی اہمیت اپنے مفاد سے کہیں زیادہ ہے جبکہ اس وقت مسجد اقصیٰ کو اتنازیادہ خطرہ نہیں تھا، پہلے وہ دکھایا کرتے تھے کہ ان کے لیے فلسطینیوں کا مفاد ان کے اپنے مفاد سے کم عزیز نہیں ہے جبکہ پہلے فلسطینیوں کے حالات اتنے بدتر نہیں تھے مگر مسجد اقصیٰ کی حفاظت پر جب انہیں زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی تو ان کا دھیان امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے پر مرکوز ہو گیا۔ دراصل انہوںنے اونچی عمارتوں کی تعمیر کو ترقی کا پیمانہ مان لیا تھا اور دفاعی طور پر مضبوط نہیں بن سکے۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطینیوں کو نظرانداز کرنے پر انہیں مجبور ہونا پڑا۔ اسرائیل سے ابراہم معاہدہ کرکے مسلم ملکوں نے بتا دیا کہ ان کے لیے اہمیت کا حامل ان کا اپنا مفاد ہے، کچھ اور نہیں۔ یہاں تک کہ سعودی عرب کے بھی اس معاہدے سے وابستہ ہونے کی باتیں کہی جا رہی تھیں لیکن حماس کے حملے نے حالات بدل دیے ہیں۔ فی الوقت اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرنا سعودی عرب کو اپنے مفاد میں نظر نہیں آ رہا۔ حماس کے حملے کے فوراً بعد ایک سے زیادہ مسلم ملکوں کے سُر بدلے ہوئے نظر آئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر ایک کی اپنی ڈفلی اپنا راگ ہے لیکن غزہ پر اسرائیل کی بمباری اور امریکہ سمیت یوروپی ملکوں کی اس کی حمایت میں سُر میں سُر ملانے سے ان کے لیے یہ بات ناقابل فہم نہیں رہ گئی کہ حماس کے حملے کے بہانے اسرائیل چاہتا کیا ہے؟ اس کی حمایت کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادی اتنے بے چین کیوں ہیں؟ غالباً یہی وجہ ہے کہ ڈفلی تو ابھی بھی کئی مسلم ملکوں کے لیڈران کی اپنی ہی ہے لیکن ان کے راگ میں مماثلت نظر آنے لگی ہے۔ وہ حق بات کہنے یا منوانے کے لیے کسی حد تک سرگرم نظر آ رہے ہیں اور یہ فلسطینیوں کے لیے کسی حد تک راحت کی بات ہے۔
سعودی عرب
بات عراق کو تباہ کرنے کی ہو، مشرق وسطیٰ کے ملکوں کی تباہی کا تماشہ دیکھنے کی یا اسرائیل کی حمایت کی، امریکہ نے یہی ثابت کیا ہے کہ وہ پسماندہ اور کمزور لوگوں اور ملکوں کے لیے ہی سپر پاور ہے۔ ایسی صورت میں سعودی عرب پر اس کے دباؤ کو سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ اس کے باوجود سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اپنے ملک کو سنبھالے رکھنے کی بہت کوشش کی ہے۔ وہ اپنے ملک کو امریکہ کے اثرات سے باہر نکالنا چاہتے ہیں۔ بدلتے حالات کے حساب سے چلنا چاہتے ہیں۔ غالباً ابراہم معاہدے سے وابستہ ہونے میں اتنی جلدی اسی لیے نہیںدکھائی جبکہ یہ معاہدہ بڑی آسانی سے دیگر ملکوں نے کیا اور اسرائیل سے سفارتی تعلقات بحال کرلیے۔ اب جبکہ حماس کے حملے کے بعد اسرائیل غزہ پربمباری کر رہا ہے، اسے عام لوگوں کی بھی پروا نہیں ہے، سعودی ولی عہد محمد بن سلمان خاموش تماشائی بنے رہنا نہیں چاہتے۔ وہ فلسطینیوں کی حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔ 10 اکتوبر کو سعودی عرب نے اس مسئلے پر 57 مسلم ممالک کی تنظیم آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن(اوآئی سی) کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کیا۔ سعودی ولی عہد نے فلسطینی صدر محمود عباس سے فون پر بات کی۔ انہیں یہ یقین دلایا کہ سعودی عرب فلسطینیوں کے حقوق اور انصاف دلانے اور امن بحال کرنے میں ہمیشہ ان کے ساتھ رہے گا۔ سعودی ولی عہد نے اس سلسلے میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی بات کی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے اردن کے صدر اور دیگراہم شخصیات سے بھی گفتگو کی ہے۔ ادھر برطانیہ اور کنیڈا کے وزرائے خارجہ نے سعودی وزیرخارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان سے گفتگو کی ہے۔ سعودی عرب اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ گفتگو سے زیادہ کچھ کرسکے، کیونکہ امریکہ، اسرائیل کی پشت پر ہے۔ اس کے باوجود سعودی عرب اپنی طرف سے فلسطینیوں کی حفاظت کی کوشش کر رہا ہے۔
ایران
حماس پر حملے کے بعد اسرائیل کے وزیراعظم بنیامن نیتن یاہو غزہ پر حملے کے لیے ’آپریشن آئرن سورڈس‘ چلا رہے ہیں۔ یاہو نے اعلان کیاہے کہ وہ حماس کانام ونشان مٹا دیں گے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ غزہ پر بار بار کے حملوں کے باوجود اسرائیل فلسطینیوں کے حوصلوں کو توڑنے میں ناکام رہا ہے، انہیں خوف کے سائے میں لانے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے، اس کا ثبوت 7 اکتوبر کو مل گیا۔ حماس کے حملے کی مذمت کن الفاظ میں کی جانی چاہیے، یہ ایک الگ موضوع ہے لیکن بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ جو ہوا ہے، اسرائیلی جارحیت کی توقعات کے برعکس ہوا ہے۔ ایسی صورت میں ایران کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ لبنان کی حزب اللہ کی پشت پر ہے اور حزب اللہ کے توسط سے حماس کو مدد ملتی ہے۔ عراق اور شام پر ایران کے اثرات ہیں، یمن کے حوثی بھی اس کے کافی قریب ہیں، اس لیے ان سے اسرائیل کو خطرے کی بات کہی جا رہی ہے۔ اس کے باوجود ایران کی فلسطین پالیسی واضح ہے۔ وہ فلسطین کے ساتھ کھڑا ہے۔ ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے اس سلسلے میں کوئی تذبذب والا بیان نہیں دیا ہے۔ ایران اسی طرح فلسطینیوں کے ساتھ کھڑا ہے جیسے امریکہ اور یوروپی ممالک اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔
ترکی
ترکی کے اسرائیل سے تعلقات رہے ہیں لیکن رجب طیب اردگان نے جب فلسطین کی طرف زیادہ جھکاؤ دکھایا اور اسرائیل سے دوری بنانے کی کوشش کی تو لیراکی حالت پتلی ہونے لگی۔ اس کی قدر کم ہونے لگی۔ ترکی نے اسرائیل سے رشتے استوار کرلیے لیکن اردگان نے فلسطینیوں کے مفاد کو بالکل ہی نظرانداز نہیں کیا ہے۔ حماس کے حملے اور اسرائیل کی غزہ پر بمباری پر اردگان کا کہناہے کہ ’ترکی، اسرائیل اور فلسطین کے درمیان چل رہی لڑائی کو روکنے کے لیے پابند عہد ہے۔‘ ان کا ماننا ہے کہ علاقے میں امن دوریاستی حل سے ہی قائم ہوگا۔ اردگان نے انقرہ میں آسٹریا کے چانسلر کارل نیہمر سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’میں علاقائی لیڈروں سے بات کر رہا ہوں اور دیکھ رہا ہوں کہ کیسے ہم اس جنگ میں ثالثی کر سکتے ہیں اور اسے روک سکتے ہیں۔ سچ کہوں تو مجھے اس بات کی تشویش ہے کہ یہ جنگ ایک یا دو ہفتے میں نہیں رکنے والی، اس لیے ہم امن کی کوششوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘ شہری آبادی پر اسرائیلی بمباری، فلسطینیوں تک انسانی امداد کی رسائی پرپابندی، بجلی کاٹنے اور پانی کی سپلائی روکنے پر اردگان کا کہنا ہے کہ یہ سب اس بے شرمی سے کیاجا رہا ہے کہ یہ جنگ نہیں قتل عام ہے۔
مصر اور
متحدہ عرب امارات
مصر کے اسرائیل سے اچھے تعلقات ہیں لیکن یہ بھی سچ ہے کہ غزہ میں جانے اور باہر نکلنے کے لیے جو راہداریاں ہیں، ان میں مصر کی طرف کھلنے والی راہداری کی بڑی اہمیت ہے۔ غزہ کے ایک طرف سمندر ہے۔ دو طرف سے وہ اسرائیل سے گھراہوا ہے اور اس کی ایک طرف مصر ہے۔ غزہ کے لوگوں کو راحت پہنچانے میں مصر کے رول کی بڑی اہمیت ہے، کیونکہ کہا یہ جاتا ہے کہ غزہ سے مصر میں سرنگیں لوگوںنے بنا رکھی ہیں۔ ادھر اسرائیل کے نئے دوستوں میں متحدہ عرب امارات شامل ہو چکا ہے۔ اس نے حماس کے حملے کی مذمت کی ہے لیکن فلسطینیوں کے لیے دو کروڑ ڈالر کے عطیے کا اعلان کیا ہے۔ دیگرمسلم ممالک میں پاکستان فلسطینیوں کے ساتھ ہے۔ بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملیشیا بھی فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ کئی مسلم لیڈروں نے بیانات الگ انداز میں دیے ہیں لیکن ان کے عمل سے یہی لگتا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS