غزہ پر اسرائیلی بربریت اور عالمی قوتوں کا کھیل: ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

0
فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے امریکا سمیت مختلف ممالک میں مظاہرے

ڈاکٹر محمد ضیاء اللہ

فلسطین کی تحریک مقاومت حماس نے 7 اکتوبر کو ’طوفان الاقصیٰ‘ کے نام سے جس آپریشن کا آغاز کیا تھا، اس کے نتیجے میں اب تک اسرائیل اور غزہ میں ہزاروں جانیں جا چکی ہیں اور زخمیوں کی تعداد میں ہر لمحہ اضافہ ہو رہا ہے۔ اسرائیل کے اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ کے ذریعے پیش کردہ اعداد و شمار کے مطابق اب تک 1200 اسرائیلی مارے جاچکے ہیں اور 2800 زخمی ہیں۔ ان میں سے 360 افراد کی حالت بہت نازک ہے۔ جن اسرائیلیوں کو حماس کے ’القسام‘بریگیڈ اور دیگر فلسطینی جنگجوؤں نے یرغمال بنایا ہے تاکہ ان کے بدلے میں اسرائیلی جیلوں میں موجود فلسطینی خواتین اور بچوں کو آزاد کروایا جا سکے۔ ان کی بالکل درست تعداد پر تو اب تک قیاس ہی لگائے جا رہے ہیں لیکن ایک اسرائیلی اخبار نے یہ تعداد 200 یا اس سے متجاوز بتائی ہے۔ جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے تو ان کی صورتحال بہت سنگین ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 900 فلسطینی شہید اور 4500 لوگ زخمی ہیں۔ شہدا میں 260 بچے اور 230 خواتین شامل ہیں۔ ان سطور کے لکھے جانے تک غزہ پراسرائیلی بربریت کا یہ چوتھا دن ہے۔ آنے والے دنوں میں فلسطینی شہدا اور زخمیوں کی تعداد میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے، کیونکہ غزہ کے سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ نے 10 اکتوبر کی شام کو یہ خبر دی ہے کہ 7 اکتوبر سے شروع ہونے والی اسرائیلی بمباری میں اتنے گھروں کو تباہ کیا جا چکا ہے کہ ان کا ڈپارٹمنٹ اس سے پیدا ہونے والے مسائل کو ہینڈل کرنے سے خود کو عاجز محسوس کر رہا ہے۔ غزہ کے کئی شہری علاقوں میں ان عمارتوں کو اسرائیلی بمبار جہازوں نے فلسطینی معصوموں کے سروں پر گرا دیا ہے جہاں وہ رہ رہے تھے۔ اس کے نتیجے میں بیشمار زندگیاں ملبوں کے نیچے دبی ہوئی ہیں۔ غزہ کے سول ڈیفنس ڈپارٹمنٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمارے پاس مطلوبہ آلات و وسائل مہیا نہیں ہیں جن کی مدد سے ملبوں میں دبے اور پھنسے لوگوں کو نکالا جا سکے۔ اسی طرح غزہ کی وزارت داخلہ کے ترجمان ایاد البزم نے میڈیا کو بتایا ہے کہ اسرائیلی بمبار جہاز اور ٹینک غزہ کے شمال مغرب میں واقع ’حی الکرامہ‘ بستی پر اس قدر پے بہ پے حملے جاری رکھے ہوئے ہیں کہ سب کچھ تباہ ہوچکا ہے اور مسلسل بمباری اور راستوں کے برباد ہو جانے کی وجہ سے وہاں تک ایمبولینس کا پہنچنا ناممکن ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے نتیجے میں کتنی معصوم جانیں موت کا شکار ہوئی ہوں گی، اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ جنگ بہت طویل مدت تک جاری رہے گی جیسا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اپنے بیان میں کہا ہے۔ اس جنگ کی شدت کیسی ہوگی، اس کے بارے میں اسرائیلی وزیر دفاع یوآف گالانٹ نے کہا ہے کہ ہم غزہ کو 180 ڈگری سے بھی زیادہ بدل دیں گے اور اس کو ایسا بنا دیں گے کہ ماقبل کی حالت پر وہ باقی نہیں رہے گا۔ اسی ضمن میں انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم نے اپنے فوجیوں کو کھلی چھوٹ دے دی ہے اور تمام بندش و قیود سے انہیں آزاد کر دیا ہے۔اس کا صاف مطلب ہے کہ قتل و خون کا کھیل کھیلا جائے گا۔ ویسے بھی اسرائیلی وزیر کے مطابق فلسطینیوں کی حیثیت ان کی نظر میں انسان نما جانور جیسی ہے جس کو زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ شدید نفرت ہی انہیں فلسطینیوں کے خلاف مسلسل مظالم ڈھانے پر دہائیوں سے آمادہ رکھے ہوئی ہے۔ فلسطینی زندگیوں کے تئیں اسی حقارت کے تناظر میں اسرائیل کے اس اعلان کو دیکھا جانا چاہیے جس میں کہا گیا ہے کہ غزہ میں بجلی، پانی، ایندھن اور اشیائے خوردنی جیسی کوئی چیز نہیں پہنچنے دی جائے گی۔ اسرائیل کے اس مکمل حصار کی مذمت خود اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس نے کی ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ غزہ کی صورتحال تو پہلے ہی سے بہت خراب تھی، اب مزید بدتر ہوجائے گی۔ واضح رہے کہ محض 41 کلومیٹر طویل اور صرف 10 کلومیٹر عریض اس کھلی جیل میں، جس کو غزہ کہا جاتا ہے، 22 لاکھ فلسطینی بستے ہیں۔ اس حصے کو دنیا کی سب سے گنجان آبادی والا علاقہ مانا جاتا ہے۔ اس پر اسرائیل نے 2007 سے اب تک نہ صرف شدید حصار قائم کر رکھا ہے بلکہ وقتاً فوقتاً بمباری کرکے وہاں کی عمارتوں اور انسانوں پر مظالم کے پہاڑ توڑتا رہتا ہے۔ اقتصادی پابندی کی وجہ سے زندگی ابتر ہے اور وہاں بسنے والے لوگوں میں سے 80 فیصد آبادی اقوام متحدہ کے تعاون پر انحصار کرتی ہے۔ یہ لوگ کہیں نکل کر جا بھی نہیں سکتے ہیں۔ ہر طرف ناکہ بندی اور اسرائیل کا سخت پہرہ ہے۔ ایسی حالت میں ان پر آسمان سے بم برسائے جا رہے ہیں۔ ایسی بربریت کے باوجود فلسطین کو آزاد کروانے کا حوصلہ اہل فلسطین میں باقی ہے اور وہ اپنے حقوق اور زمین کی بازیابی کے لیے جد و جہد سے پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب اسرائیل نے طویل جنگ کی دھمکی دی تب بھی یہ جذبہ برقرار رہا۔ فلسطین کی مقاومت کی تحریکیں جن میں حماس اور الجہاد الاسلامی بطور خاص شامل ہیں، انہوں نے کہا ہے کہ ہم بھی اس طویل جنگ کے لیے تیار ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ جنگ شروع کیوں ہوئی اور اسرائیل پر اس قدر جنون کا دورہ کیوں پڑگیا ہے کہ غزہ کو پورے طور پر تباہ کر دینے کا عزم اٹھا لیا ہے؟ جہاں تک حماس اور دیگر فلسطینی تحریکات مقاومت کا معاملہ ہے تو انہوں نے آپریشن ’طوفان الاقصیٰ‘ کی وجہ یہ بتائی ہے کہ اسرائیلی فوجیں اور صہیونی آبادکار مسلسل طور پر فلسطینی عوام، ان کی جائیداد اور ان کے مقدسات کے خلاف زیادتیاں کرتے چلے آ رہے تھے، خاص طور سے مسجد اقصیٰ کی حرمت کو پامال کر رہے تھے اور کسی طرح بھی اس میں کمی نہیں ہو رہی تھی، اس لیے انہوں نے صہیونی دشمن کے خلاف یہ قدم اٹھایا ہے، البتہ اسرائیل کے جنون کا راز یہ ہے کہ اس صہیونی ریاست نے ناقابل تسخیر ہونے کا جو بھرم پھیلا رکھا تھا اوراسرائیل کی سیاسی جماعتوں اور فوج نے اسرائیلیوں میں جو یہ اعتماد بھر دیا تھا کہ ان پر حملہ نہیں ہو سکتا، کیونکہ ان کے پاس بہترین تربیت یافتہ فوج اور دفاعی نظام کے ساتھ ساتھ جدید ترین آلات حرب و ضرب ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان کے پاس انٹلی جنس کا ایسا موثر نظام ہے جو اس خطے میں کسی کے پاس نہیں ہے۔ حماس اور الجہاد الاسلامی کے جنگجوؤں نے اسرائیل کے اس بھرم کو توڑ دیا اور اس طرح صرف اسرائیلی عوام ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے سامنے صہیونی اسٹیٹ ایک مذاق بن کر رہ گیا۔ اس احساس ذلت نے اسرائیل کو بالکل بوکھلاہٹ میں مبتلا کر دیا ہے۔ انٹلی جنس کی سطح پر ملی اس ناکامی کے نتیجے میں پیدا ہوئی اس بوکھلاہٹ کو سمجھنا اس لیے آسان ہے، کیونکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے پاس سب سے وسیع انٹلی جنس نیٹ ورک ہے جس کے پاس فنڈ کی کمی نہیں ہوتی۔ خارجی انٹلی جنس کے لیے کام کرنے والے موساد کے علاوہ اس کے پاس شین بیت نامی ادارہ بھی ہے جو داخلی انٹلی جنس کو اکٹھا کرتا ہے۔ ان دو اداروں کے علاوہ اسرائیل ڈیفنس فورس کے اپنے بیشمار وسائل ہیں۔ اسرائیل نے بڑی کامیابی کے ساتھ خود فلسطینی مقاومت کی تحریکوں سے لے کر لبنان اور شام تک میں اپنے ایجنٹوں کو پلانٹ کیا ہوا ہے۔ ان کی مدد سے ہی فلسطین، لبنان اور شام کے لیڈران کی ایک ایک نقل و حرکت پر اسرائیل نظر رکھتا آیا ہے اور حسب ضرورت انہیں اپنے راستے سے ہٹاتا رہا ہے۔ اسرائیل نے فلسطین سے لگی اپنی سرحدوں پر بھی نگرانی کا سخت انتظام کیا ہے۔ کیمرہ، قدم کی چاپ تک تو محسوس کرنے والے آلات اور مسلسل فوجی گشت کے باوجود حماس کے جنگجو بر و بحر ہر طرف سے اسرائیل میں گھس آئے اور کسی کو کوئی خبر تک نہیں ہوئی۔ یہ وہ شدید ناکامی کا احساس ہے جس کی وجہ سے اسرائیل کی سیاسی اور فوجی قیادت جنون کا شکار ہوگئی ہے اور اپنی دھاک اور عوام میں اپنے اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اسرائیل فلسطین کے عوام کو اجتماعی سزا دینے پر اتر آیا ہے۔ اسرائیل کی قیادت کو مزید شرمندگی اس بات سے ہو رہی ہے کہ پچاس برس بعد ایک بار پھر حماس جیسی ایک چھوٹی سی مسلح جماعت نے اس حملے سے 1973 کی اکتوبر جنگ کا وہ زخم تازہ کر دیا ہے جس کے مندمل ہونے کا انتظار پورا اسرائیلی معاشرہ طویل مدت سے کر رہا تھا۔ جہاں تک امریکہ اور مغربی ممالک کی طرف سے اسرائیل کو ہر صورت میں ملنے والی مکمل حمایت کا سوال ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل کو مغربی قوتوں نے مشرق وسطیٰ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ایک ایسا چوکیدار معین کر رکھا ہے جو ہر اعتبار سے مغرب کے امپیریلسٹ ڈیزائن کو بڑھاوا دینے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے بدلے میں امریکہ کی قیادت والا مغربی ٹولہ ہر محاذ پر اس کا دفاع کرتا ہے اور اسے تمام قسم کے مادی اور عسکری امداد فراہم کرتا ہے۔ چونکہ اسرائیل کی شکست اس خطے میں مغرب کی بالادستی کے خاتمے کا آغاز اور اس کے لیے مشرق وسطیٰ کے قدرتی وسائل کے استحصال سے محرومی کا باعث ہوگا، اس لیے ہر قیمت پر اسرائیل کو تحفظ اور تعاون فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل نہ کرنے کی صورت میں بھی اسرائیل کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔ حالانکہ اگر امریکہ انصاف اور ایمانداری سے کام لے اور ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار نبھائے تو اس میں اس بات کی پوری صلاحیت موجود ہے کہ وہ فلسطین و اسرائیل کے درمیان دہائیوں سے جاری خوں ریزی کے اس طویل سلسلے کو بند کر وا سکتا ہے۔ آج بھی امریکہ اگر اسرائیل پر دباؤ ڈالے تو غزہ پر اسرائیلی بمباری فوراً رک سکتی ہے اور بات چیت کے بعد حماس کے قبضے میں موجود قیدیوں کو آزاد کرایا جا سکتا ہے۔ بس امریکہ کو یہ کرنا ہوگا کہ فلسطینیوں کے لیے آزاد ریاست کی راہ ہموار کرے جس کے لیے ضروری ہے کہ 1993 میں کیے گئے اوسلو معاہدے کی شرطوں پر عمل کا سلسلہ شروع کیا جائے جس پر اسرائیل و فلسطین کی قیادتوں نے امریکی صدر بل کلنٹن کی وساطت میں دستخط کیا تھا۔ اگر ایسا ہوگا تو نزاع کی وجہ ختم ہوجائے گی اور ایک پرامن مشرق وسطیٰ کا قیام عمل میں آ جائے گا لیکن مستقبل قریب میں اس بات کا امکان نہیں ہے، کیونکہ امن و سلامتی کی کھوکھلی باتیں کرنے والی یہی قوتیں ہی مسئلے کی اصل بنیاد ہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اسرائیل کے خلاف حماس کی کارروائی کے فوراً بعد جہاں ایک طرف یوروپی یونین نے فلسطین کو دی جانے والی امدادی رقم کو روک دینے اور پھر اپنے کئی ممبر ممالک کے اعتراض کرنے پر اس بیان کو واپس لینے کا اعلان کیا وہیں دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کو اپنی مکمل حمایت دینے کا اعلان کر دیا اور فلسطینیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کی نہ صرف چھوٹ دے دی ہے بلکہ 10 اکتوبر کی شام کو ہتھیاروں سے لدا ہوا پہلا امریکی جہاز اسرائیل پہنچ چکا ہے جس کا استعمال معصوم فلسطینیوں کے خلاف کیا جائے گا۔ ان ہتھیاروں کے پہنچنے کے بعد اسرائیلی فوج نے امریکہ کا شکریہ ادا کیا ہے اور دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان مضبوط رشتے پر فخر کا اظہار بھی۔ ایک لمحے کے لیے بھی بائیڈن نے فلسطینیوں کے جان و مال کے خلاف کی جانے والی اس مجرمانہ کارروائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس تناظر میں اگر روسی صدر ولادیمیر پوتن کے اس بیان کو دیکھا جائے تو بالکل درست معلوم ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تشدد کا بھڑک اٹھنا اس بات کی دلیل ہے کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی پالیسی ناکام ہو چکی ہے، کیونکہ فلسطینیوں کی ضرورتوں کا خیال نہیں رکھا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ روس کا اپنا کردار اس خطے میں قابل تعریف رہا ہے جیسا کہ شام اور لیبیا میں اس کے عمل سے ظاہر ہے لیکن حالیہ واقعے سے روس خوش ہے، کیونکہ اب امریکہ اور مغربی ممالک کی توجہ یوکرین کے بجائے اسرائیل کی طرف مبذول ہو جائے گی جس کا فائدہ روس کو پہنچے گا۔ اسی وجہ سے روس نے نہ تو حماس کی مذمت کی ہے اور نہ ہی نیتن یاہو سے فون پر اب تک کوئی بات چیت کی ہے۔ اس کے برعکس یوکرین کے صدر زیلنسکی نے حماس کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اس کو جارحیت کے معاملے میں روس کے مماثل قرار دیا ہے۔ اسرائیل کی مجبوری یہ ہے کہ وہ روس کو ناراض نہیں کر سکتا، ورنہ اس کا نقصان اسے شام میں جھیلنا پڑے گا جہاں روس کے ساتھ اس کی مفاہمت ہے کہ اس کے جنگی طیارے کو نشانہ نہ بنایا جائے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ حماس اور ایران کے درمیان گہرے تعلقات ہیں اور خود پوتن بھی حماس کی قیادت سے 2020 سے اب تک پانچ بار مل چکے ہیں۔ اس کو ماسکو اور حماس کے درمیان بڑھتی قربت کا اشارہ سمجھا جاتا ہے۔ ایران سے روس کو یوکرین جنگ میں ڈرون کی شکل میں مدد ملتی ہے اور ایران نے یوکرین معاملے پر بھی روس کی نہ صرف مذمت نہیں کی تھی بلکہ مغربی پابندیوں سے بچنے کا طریقہ بھی روس کو بتاتا رہا ہے۔ حالات بدلنے پر روس و اسرائیل کے تعلقات پھر اپنی طبعی حالت پر لوٹ آئیں گے لیکن ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے، لہٰذا اس وقت روس کے مفاد میں یہ ہرگز نہیں ہے کہ امریکہ و مغرب کے حلیف اسرائیل کو اپنی حمایت فراہم کرے۔ ویسے بھی روسی یہودیوں اور پوتن کے درمیان زیلنسکی معاملے پر تعلقات بہت کشیدہ ہو چکے ہیں، کیونکہ پوتن نے یوکرین کے یہودی صدر زیلنسکی کو ہی نازی نظریہ کا حامل قرار دیا تھا جس کو روسی یہودیوں نے قبول نہیں کیا اور مذہبی یہودیوں کا ایک طبقہ اسرائیل منتقل ہو گیا۔ جہاں تک چین کا تعلق ہے تو اس نے بھی واضح الفاظ میں حماس کی مذمت نہیں کی ہے بلکہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی صورت میں ہی نزاع کے خاتمے کا مشورہ دے ڈالا ہے جس کی وجہ سے چک شومر کی قیادت میں چین کے اندر موجود امریکی وفد جس میں ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کے تین تین سینیٹر شامل تھے، ناراض ہو گیا اور چک شومر نے چینی صدر شی جن پنگ پر دباؤ ڈالا کہ چینی وزارت خارجہ کے بیان کو مزید اثر دار بنایا جائے۔ چین نے دوبارہ بیان جاری کر کے عام شہریوں کی موت پر اپنے رنج کا اظہار تو کیا لیکن امریکہ کے من کی بات پھر بھی نہیں کی۔ ظاہر ہے کہ چین یہ چاہتا ہے کہ مشرقی وسطیٰ میں اس کا جو رسوخ بڑھ رہا ہے، اس میں مزید اضافہ ہو اور یہ تبھی ہوسکتا ہے جب امریکی زور اس خطے میں گھٹتا چلا جائے۔ چین اور روس کے اس تیور کو دیکھتے ہوئے ہی ایران کے خلاف اسرائیل اور امریکہ کے موقف میں اب وہ شدت نظر نہیں آ رہی ہے جس کا اشارہ بالکل ابتدا میں دیا گیا تھا۔ وجہ صاف ہے کہ اگر اس جنگ کا دائرہ پھیلے گا تو لبنان، شام اور ایران ہی نہیں بلکہ تمام پڑوسی ممالک اس کی لپیٹ میں آ جائیں گے اور ایسی صورت اسرائیل اور مغرب کے مفادات ہی نہیں پوری دنیا کا نظام خطرہ میں پڑ جائے گا، اس لیے گرچہ اسرائیل نے ایران پر الزام عائد کیا ہے کہ اسی کی مدد سے حماس نے اسرائیل پر یہ حملہ کیا ہے اور امریکہ نے بھی حماس کے پلان میں ایران کے شامل ہونے کی بات کہی ہے لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کر دی ہے کہ اس کاکوئی ٹھوس ثبوت اب تک نہیں ملا ہے۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ امریکہ اس جنگ کے دائرے کو بڑھانا نہیں چاہتا اور اسرائیلی اَنا کی تسکین کے لیے صرف غزہ کے معصوموں کی بلی چڑھانے پر اکتفا کرنا چاہتا ہے۔ ایران کی اعلیٰ ترین قیادت نے واضح الفاظ میں اس میں اپنی شمولیت کو مسترد کر دیا ہے لیکن حماس کی تائید کی ہے۔ ایران کو اس لیے مورد الزام ٹھہرانے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ ایران نہیں چاہتا کہ اس کا حریف سعودی عرب اور ازلی دشمن اسرائیل اپنے تعلقات بحال کریں جس کا اعلان سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے ’فوکس نیوز‘ کو دیے گئے اپنے حالیہ انٹرویو میں کیا تھا اور اسرائیلی وزیر خارجہ نے اس کے بعد یہاں تک کہہ دیا تھا کہ چار پانچ مہینے میں یہ معاہدہ ہوجائے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حماس نے گرچہ صرف فلسطینیوں کے مفاد کو پیش نظر رکھ کر یہ اقدام کیا تھا لیکن اس حملے کے نتیجے میں سعودی- اسرائیل معاہدے کا معاملہ طویل مدت تک کے لیے اب سرد بستہ میں چلا جائے گا، کیونکہ عرب عوام میں معاہدۂ ابراہیمی کے خلاف سخت غصہ ہے۔ اس معاہدے کو عرب ممالک کے حکمراں طبقوں اور اہل ثروت کے درمیان ہی مقبولیت حاصل ہے۔ اس کے علاوہ حماس کو ایران کے اشارے پر کام کرنے والی جماعت کے طور پر دیکھنا کسی حماقت کم نہیں ہے، کیونکہ حماس، حزب اللہ کی طرح ایران کا پروردہ نہیں ہے بلکہ ایک ایسی عوامی تحریک ہے جس کا ایک واضح لائحۂ عمل ہے اور اسی پر وہ مسلسل عمل پیرا ہے۔ اگر سازش کے نظریے سے ہی اس پورے معاملے کو کوئی دیکھنا اور سمجھنا چاہتا ہے تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ حماس کو یہ حملہ کرنے کی اجازت خود نیتن یاہو نے دی ہو جو اندرونی مسائل میں بری طرح پھنسے ہوئے تھے اور اس حملے کی وجہ سے اسرائیل کے تمام طبقوں کی حمایت ان کو مل گئی ہے اور وہ خطرہ وقتی طور ہر ٹل گیا ہے جو گزشتہ دس مہینے سے ان کے اوپر منڈلا رہا تھا۔ خود سعودی عرب کے دانشوران اور صحافیوں کی ان تحریروں سے بھی اندازہ ہوتا ہے جو سعودی سرکار کی موافقت میں عربی اخبار’الشرق الاوسط‘ میں شائع ہوئے ہیں۔ وہ بھی ایران کو اس حملے کے لیے مورد الزام ٹھہراتے ہیں اور حماس کے حالیہ آپریشن کو اسرائیل کے ساتھ مصالحت کی راہ میں بلاوجہ کی ایک رکاوٹ تصور کرتے ہیں لیکن یہ عرب معاشرے کے عوام کی اس رائے کے بالکل برعکس ہے جس کی تفصیل نیویارک ٹائمز کی تجزیہ نگار ویویان نریم نے اپنے کالم میں پیش کی ہے۔ نریم کے مطابق حماس کے آپریشن’طوفان الاقصیٰ‘ کو عرب دنیا میں زبردست حمایت حاصل ہے۔ اس عوامی حمایت کا اندازہ مراقش سے لے کر کویت تک میں نکالی گئی ریلیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ اب یہ ذمہ داری عرب قیادتوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس عوامی جذبے کو نظر انداز نہ کریں اور اسرائیل کے ساتھ مصالحت کا ہاتھ بڑھانے سے قبل فلسطین کے مسئلے کا حل فلسطینی عوام کے مفادات کو دھیان میں رکھ کر تلاش کریں تبھی اس خوں ریزی کا سلسلہ بند ہوگا اور اس خطے کو امن کی صبح دیکھ پانا نصیب ہوگا۔ n

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS