نیلم مہاجن سنگھ
پوری دنیا میں خواتین کو بااختیار بنانے کی جدوجہد طویل عرصے سے جاری ہے۔ ہندوستان میں ایسا خاص طور پر اس لیے ہوا ہے کیوں کہ ’منوواد‘ اور پدرانہ اثر و رسوخ کے سماجی غلبے سے خواتین پر مظالم کیے گئے۔ تاہم ہندوستان کی آزادی کے پچھتّر برسوں میں خواتین کئی شعبوں میں سیڑھی چڑھی ہیں۔ بسااوقات یہ سوچ ٹوٹ جاتی ہے کہ خواتین چیلنجز کا سامنا کرنے میں مردوں سے کمتر ہوتی ہیں۔ حال ہی میں یہ دیکھا گیا ہے کہ یوروپ میں سیاسی خودمختاری عروج پر رہی ہے۔نوجوان خواتین، وزیراعظم اور سیاسی پارٹیوں کی سربراہ ہیں۔ خواتین کے تحفظ اور مساوی حقوق کے لیے بہت سے قوانین بنائے گئے ہیں، لیکن ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے بہت زیادہ کوششوں کی ضرورت ہے۔ حالانکہ پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کی نمائندگی مردوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ایشو صنفی مساوات اور خواتین کے حقوق کا رہا ہے۔ صدر ہند کے عہدے کے لیے این ڈی اے کی امیدوار کے طور پر مسز دروپدی مرمو کے حالیہ انتخاب نے پی ایم نریندر مودی کے مخالفین کو حیران کر دیا ہے۔ بی جے پی صدر جے پی نڈا نے مرمو کی امیدواری کا اعلان ان کی 64ویں سالگرہ منانے کے ایک دن بعد کیا۔ دروپدی مرمو ملک کے سب سے دوردراز اور پسماندہ اضلاع میں سے، غربت سے لڑتے ہوئے سرفہرست لیڈر کے طور پر ابھری ہیں۔
دوسری طرف سابق بیوروکریٹ اور وزیر خزانہ، 85سالہ یشونت سنہا کو میدان میں اتارنا،ممتا بنرجی کے ذریعہ اعلان، یو پی اے کا ایک تباہ کن فیصلہ ہے۔ بہتر ہوتا اگر یو پی اے نے پیشہ ورانہ طور پر کامیاب امیدوار کو نامزد کیا ہوتا۔ درحقیقت، اس سے یہ واضح پیغام جاتا کہ ہندوستان خواتین کو بااختیار بنانے میں یقین رکھتا ہے اور پیشہ ور افراد کا احترام کرتا ہے، مثال کے طور پر بھارت رتن ڈاکٹر اے پی جے عبدالکلام! دوسری جانب یشونت سنہا کا یہ بیان کہ بھارت میں ’ربڑ اسٹیمپ‘ صدر نہیں ہونا چاہیے، انتہائی قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کے صدور صرف وفاقی جمہوریت کے آئینی فریم ورک کے اندر ہی کام کر سکتے ہیں۔ دروپدی مرمو کے پاس پہلے سے ہی جیت کے لیے واضح مینڈیٹ ہے۔ وہ پرتیبھا پاٹل کے بعد ہندوستان کی دوسری خاتون صدر ہوں گی۔’پہلی قبائلی خاتون رہنما‘، 18جولائی کو تاریخ رقم کریں گی۔ یہ کوئی راز نہیں ہے کہ دروپدی مرمو 2017 سے عہدئہ صدارت کے لیے فہرست میں شامل تھیں۔ 2022 میں، ایک خاتون قبائلی امیدوار کے اقتدار میں آنے کا وقت آ گیا ہے-ملک کا اعلیٰ ترین دفتر۔ سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جسٹس فاطمہ بی بی تھیں جنہیں 6 اکتوبر 1989 کو مقرر کیا گیا تھا۔ یقینا ہمارے پاس لوک سبھا کی اسپیکرس کے طور پر میرا کمار اور سمترا مہاجن بھی تھیں۔ دروپدی مرمو 1958 میں اڈیشہ کے میور بھنج ضلع میں پیدا ہوئیں۔ پیش گوئی کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا کہ وہ راشٹرپتی بھون جائیں گی۔ انہوں نے بھونیشور میں یونٹ2ہائی اسکول اور رما دیوی کالج(یونیورسٹی) میں تعلیم حاصل کی۔ وہ 1979 سے 1983 تک ریاستی آبپاشی اور بجلی کے محکمے میں جونیئر اسسٹنٹ کے طور پراور پھر1997تک رائے رنگ پور میں شری اربندو انٹیگرل ایجوکیشن سینٹر میں بطور ٹیچر خدمات انجام دیتی رہیں۔ آئیے صدارتی امیدوار دروپدی مرمو کے بارے میں کچھ حقائق کو سمجھتے ہیں۔ وہ میور بھنج(2000اور 2009) میں رائے رنگ پور سے بی جے پی کے ٹکٹ پر دو بار ایم ایل اے رہ چکی ہیں۔ مرمو کو پہلی بار، پانچ سال پہلے، جب صدر جمہوریہ پرنب مکھرجی راشٹرپتی بھون چھوڑنے کی تیاری میں تھے تو انہیں صدارتی امیدوار سمجھا جانے لگا۔2000میں برسراقتدار آنے والی بی جے پی-بی جے ڈی مخلوط حکومت کے دوران، انہوں نے کامرس اور ٹرانسپورٹ، ماہی پروری اور مویشی پالن کے محکموں کی ذمہ داری سنبھالی۔ وہ 2009 میں جیتنے میں کامیاب ہوئیں، حالانکہ بی جے پی اس وقت الگ ہوچکے، بی جے ڈی کے ذریعہ پیش کیے گئے چیلنج کے خلاف کامیاب نہیں تھی۔ 2015 میں مرمو نے جھارکھنڈ کی پہلی خاتون گورنر کے طور پر حلف لیا تھا۔ اپنی ذاتی زندگی میں مرمو کو کئی سانحات کا سامنا کرنا پڑا! اپنے شوہر شیام چرن مرمو اور دو بیٹوں کو ہی کھو دیا تھا! ایم ایل اے بننے سے پہلے، مرمو نے 1997 میں الیکشن جیتنے کے بعد اور بی جے پی کے درج فہرست قبائل مورچہ کے نائب صدر کے طور پر رائے رنگ پور نگر پنچایت میں کونسلرکے طور پر خدمات انجام دیں۔ اڈیشہ کے سی ایم نوین پٹنائک نے مرمو کی مکمل حمایت کی ہے۔ شیوسینا نے بھی ان کی امیدواری کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ محترمہ مایاوتی بھی حمایت دے رہی ہیں۔ مرمو کو 2007 میں اڈیشہ قانون ساز اسمبلی نے ’سال کی بہترین ایم ایل اے کے لیے نیل کنٹھ ایوارڈ‘سے نوازا تھا۔ وہ 2010 اور 2013 میں بی جے پی کی میور بھنج(مغربی) یونٹ کی ضلع صدر منتخب ہوئیں۔ انہیں اسی سال بی جے پی نیشنل ایگزیکٹیو(ایس ٹی مورچہ) کے رکن کے طور پر بھی نامزد کیا گیا تھا۔
میری یہ گزارش ہے کہ یشونت سنہا خود دروپدی مرمو کے خلاف الیکشن لڑنے سے دستبرداری کا اعلان کریں، تاکہ دنیا کو ایک مضبوط پیغام دیا جاسکے کہ ہندوستان خواتین کو بااختیار بنانے کے ساتھ کھڑا ہے اور خاص طور پر معاشرے کے محروم طبقات کے ساتھ ہے۔ سونیا گاندھی اور ممتا بنرجی بھی خاتون سیاسی رہنما ہیں۔ انہیں بھی دروپدی مرمو کا ہی ساتھ دینا چاہیے جبکہ بہت سی سیاسی جماعتیں ’ربڑ اسٹیمپ صدر‘ کے بارے میں فکر مند ہیں، انہیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ ہندوستان ایک وفاقی جمہوریت ہے نہ کہ صدارتی جمہوریت۔ آئیے ہم ہندوستان کے اگلے صدر کے طور پر دروپدی مرمو کے انتخاب اور جلد ہی کامیابی کی تعریف کریں۔
(مضمون نگارسینئر صحافی اور سالیسٹر برائے انسانی حقوق ہیں)
[email protected]