’انڈیا‘ کا ممبئی اجلاس ،کامیابی کی طرف ایک اور قدم

0
’انڈیا‘ کا ممبئی اجلاس ،کامیابی کی طرف ایک اور قدم

شاہد زبیری

’انڈیا کے ممبئی اجلاس پر مودی سرکار کے علاوہ پورے ملک کی نظریں لگی تھیں۔پٹنہ اور بنگلورو اجلاس کے بعد اپوزیشن اتحاد کا یہ تیسرا اجلاس تھا، جس کو الگ الگ زاویہ سے دیکھا جا رہا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ یہ اجلاس ’انڈیا‘ کی کا میابی کی طرف ایک اور قدم ہے ۔مودی سرکار اور اس کی ہمنوا میڈیا مائکرو اسکوپ لے کر اس کی ناکامیوں پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔ اجلاس سے پہلے میڈیا نے وزیر اعظم کے چہرہ کولے کراختلاف کو ہوا دینے کی کوشش کی، پھر عام آدمی پارٹی کے کجریوال اور اکھلیش یادو کو وزیر اعظم کے چہرہ کے طور پر سامنے لا نے کے ساتھ ساتھ، شرد پوار کی وفاداری پر بھی سوال کھڑا کیا، ساتھ ہی ساتھ کانگریس کے باغی اور سماجوادی پارٹی کی حمایت سے راجیہ سبھا میں پہنچنے والے ممتاز قانون داں اور نامور سیاستداں کپل سبل کی اجلاس میں شرکت پر کانگریس کو اکسانے کا آخری دائو چلا، لیکن یہ دائو بھی ناکام رہا اور ’جڑے بھارت جیتے گا انڈیا ‘کے نعرے کے ساتھ یہ تیسر اجلاس اختتام پذیر ہوا،جس میں طے پایا کہ 2024کا پارلیمنٹ کا انتخاب مل کر لڑیں گے۔ سیٹوں کی تقسیم کے سوال کو بھی جلد حل کریں گے، صوبوں میںسیٹوں کی تقسیم کا عمل فوری طور پر شروع کردیا جائے گا اور یہ کام بھی مفاہمت اور تعاون کے جذبہ کے ساتھ کیا جائے گا،عوامی مسائل سے تعلق رکھنے والے ایشوز کو ملک بھر میں مشترکہ ریلیوں اور جلسوں کے ذریعہ ابھارا جا ئے گا اور شہریوں کو ان کے بنیادی مسائل کے تئیں بیدار کرنے کے علاوہ سرکار کی عوام دشمن پالیسیوں کو اجاگر کیا جا ئے گا اور ملک کی کئی زبانوں میں ’جُڑے گا بھارت جیتے گا انڈیا‘ تھیم کے ساتھ مہم کو مشترکہ طور پرعوام کے درمیان لے جا یا جائے گا۔ اجلاس میں 14رکنی ایک کوآرڈی نیشن کمیٹی کے علاوہ چار اور کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں ان میں 19ارکان کی الیکشن کمیٹی،11ارکان کی ریسرچ کمیٹی کے علاوہ ،12ارکان کی میڈیا اور سوشل میڈیاکمیٹی کی بھی تشکیل دی گئی ہے۔ اجلاس میں صحافیوں سے مخاطب ہوتے ہوئے راہل گاندھی سے لے کر نتیش کمار، ملکارجن کھرگے اور ادھو ٹھاکرے نے میڈیا کو سرکار کی غلامی کی بیڑیوں سے آزاد کرا ئے جا نے کی بات کہی، اجلاس میں 28 پارٹیوں کے 68نمائندوں کے طور پر اپوزیشن کے قدآور لیڈر شامل ہوئے ۔ 2014اور 2019 کے بعد یہ پہلا موقع تھا جب اپوزیشن جماعتیں متحد نظر آئیں۔ اس سے پہلے یہ پارٹیا ں انتشار کا شکار تھیں اور لیڈر ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچ رہے تھے۔ اس مرتبہ تصویر بدلی ہو ئی ہے ہر چند کہ کوآرڈی نیشن کمیٹی کا کسی کو کنوینر نہیں بنا یا گیا۔ وزیر اعظم کا چہرہ طے نہیں کیا گیا اور یہ کہ 2024 کے عام انتخابات کیلئے سیٹوں کی تقسیم بھی نہیں کی گئی جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی، لیکن اجلاس کی پوری کارروائی کو اگر غور سے دیکھا جائے تو اجلاس سے جو بات ابھر کر آئی وہ پارٹیوں اور لیڈروں میں ایک دوسرے پر اعتماد اور مفاہمت کا جذبہ صاف دکھائی دیا جس سے انکار ممکن نہیںہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ پارٹیوں کویک جٹ کر نے کے علاوہ بنگلورو کے اجلاس کے بعد اتحاد میں دو پارٹیوں کا اضافہ بھی نظر آیا اوریہ تعداد 26سے بڑھ کر 28ہو گئی۔ اتحاد کی یہ کوشش جا ری ہے کہ اس تعداد میں مزید اضافہ کیا جا ئے اس کے لئے مایاوتی کی بی ایس پی، چندرا نائیڈو کی ٹی ڈی پی اور پرکاش امبیڈ کر کی پارٹی ونچت بہوجن اگھاڑی کو شامل کرنے کی کوششیں بھی جا ری ہیں ،چندرا نائیڈو کی ٹی ڈی پی این ڈی اے کا حصہ رہی ہے اور بی جے پی سے مایاوتی کی ماضی کی دوستی بھی ڈھکی چھپی نہیںہے۔ اگر ’ انڈیا‘ ان پارٹیوں کو یا ان جیسی دوسری ایسی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو جو دلتوں، قبائل اور کمزور طبقات کی نمائندگی کرتی ہیں۔ مذکورہ اتحاد ان کو بھی اپنے ساتھ لانے میں کامیاب رہتا ہے تو بی جے مخالف ووٹ منتشر نہ ہو کر بی جے پی کے امیدوار کے خلاف ایک امیدوار اتارنے کافارمولہ ہر حال میں کامیاب ہو سکتا ہے، جوبی جے پی کی قیادت والے این ڈے اے کیلئے مشکلات ہی نہیں کھڑی کرے گا۔ ’انڈیا‘ کیلئے کامیابی کی راہ بھی ہموار کرے گا، لیکن ’انڈیا‘ ملک کے دوسرے طبقات کی چھوٹی چھوٹی پارٹیوں کو اپنے ساتھ جوڑنے کیلئے جس طرح کوشاں ہے وہ مسلم جماعتوں، مسلم لیگ ،مجلس اتحاد المسلمین اور یو ڈی ایف سے کیوں پرہیز رکھنا چاہتا ہے۔؟ملک کے موجودہ سیاسی اور سماجی تناظر میں مسلمانوں کا ایک طبقہ ان مسلم جماعتوں کی طرف راغب دکھائی دیتا ہے اور بلدیاتی انتخابات سے اس رجحان کا صاف پتہ چلتا ہے۔یو ڈی ایف اور مسلم لیگ تو آسام اور کیرالہ کی سرکاروں میں شامل رہ چکی ہیں ان مسلم پارٹیوں کو کس خوف سے اتحاد میں شامل نہیں کیا گیا، جبکہ یو ڈی ایف کے قائد مولانا بدرالدین اجمل نے تو ’انڈیا‘ کو غیر مشروط طور پر اپنی حمایت کا اعلان بھی کر دیا ہے۔ اوروں کے ساتھ مسلم تنظیموں کی شمولیت پر بھی اتحاد کو سوچنا چاہئے۔ بہر کیف کسی بھی لحاظ سے دیکھا جا ئے تو پٹنہ اور بنگلوروکے بعد ممبئی اجلاس میں ’انڈیا ‘نے کامیا بی کی طرف ایک قدم اور بڑھا یا ہے اور اتحاد میں شامل جماعتوں نے عوام کو یہ پیغام دینے میں بھی کامیابی حاصل کی ہے کہ بی جے پی مخالف جماعتیں متحد ہیں اور وہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے، جمہوریت کی بقاء اور آئین کے تحفظ کیلئے پوری طرح کمر بستہ ہیں۔ اتنا ہی نہیں بلکہ اجلاس کی سب سے بڑی کا میابی یہ ہے کہ مودی سرکار پہلی مرتبہ نفسیاتی دبائو میں ہے اور دفاعی پوزیشن میں دکھا ئی دے رہی ہے اور ہر طرف سے خود کو خطرہ میں گھرا محسوس کررہی ہے ۔ اس نے اپوزیشن اتحاد کو پارہ پارہ کر نے کیلئے اس کے لیڈروں میں اختلافات کو ابھارنے سے لے کر ہر طرح کے حربہ کا استعمال کیا، لیکن وہ ابھی تک تو ناکام ہی رہی ہے ای ڈی،سی بی آئی اور انکم ٹیکس کا اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنا سرکارکا وطیرہ بن چکا ہے۔ اب مودی سرکار نے ایک اور دائو چلا ہے وہ ہے18 ستمبر سے 22ستمبر تک اچانک پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس بلانا، آخر اس کی کیا ضرورت پڑگئی۔ مودی سرکارجن بلوں کو پیش کر نا چا ہتی ہے اس کیلئے سرمائی اجلاس کا بھی اس نے انتظار نہیں کیا، لگتا ہے کہ بی جے پی مئی، جون 2024 سے پہلے پہلے 2023کے اواخر میں عام انتخابات کرا نے کا موڈ بنا چکی ہے۔ مودی سرکار نے عام انتخابات سے پہلے ’ون نیشن ون الیکشن‘کا شگوفہ چھوڑدیاہے، لیکن آئین کے ماہرین کی نظر میں ون نیشن ون الیکشن کے تصور کو عملی جا مہ پہنانا اتنا آسان نہیں جتنا مودی سرکار سمجھ رہی ہے۔ اس میں قانونی پیچیدگیاں ہیں۔ لاء کمیشن کہہ چکا ہے کہ اس کیلئے آئین میں تبدیلی ضروری ہے۔مودی سرکار کی طرف سے یہ سب کچھ جو سامنے آرہا ہے اس سے لگتا ہے کہ سرکاراپوزیشن کے اتحاد سے بوکھلا ئی ہوئی ہے اور خود کو خطروں سے گھرا ہوا محسوس کررہی ہے۔
ان خطروںکا احساس وزیر اعظم مودی یا بی جے پی کو ہی نہیں بی جے پی کو جنم دینے والے سنگھ پریوار کو بھی پوری طرح ہے۔ سنگھ کے مکھیا موہن بھاگوت کا تازہ بیان ہندوستان ایک ’ہندو راشٹر‘ ہے آخر کس بات کی چغلی کھاتا ہے ۔ سنگھ اکثریتی طبقہ کو ’ہندو راشٹر ‘کے نام پر متحد کر کے ایک مرتبہ پھر دھرم اور مذہب کی دہائی دے کر اکثریتی طبقہ کا دھیان مہنگائی اور بیروز گاری جیسے بنیادی مسائل سے ہٹا نااور انتخابات کاپولرائزیشن کرنا چاہتا ہے ۔ مودی جی اور سنگھ پریوار کے ترکش میں جتنے تیر ہیں وہ 2024سے پہلے پہلے مذکورہ اتحاد پر نشانہ سادھیں گے۔ اگر وقت سے پہلے عام انتخابات کرائے جا تے ہیں تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔ مودی سرکار کے اس ارادہ کو بھانپ کر ’انڈیا‘ کے لیڈران اس کیلئے بھی تیار دکھائی دیتے ہیں،مگر اس کیلئے اتحاد کو جتنا جلد ہو سیٹوں کی تقسیم کے اہم مسئلہ کو حل کر لینا چاہئے ورنہ ساری کوششوں پر پانی پھر سکتا ہے ۔ ون نیشن ون الیکشن کے تحت اگر انتخابات کرائے جاتے ہیں تو 5صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات جو سر پر ہیں کیا وہ بھی عام انتخابات کے ساتھ کرائے جا ئیں گے اورجوہوچکے ہیں یا جو 2024کے انتخابات کے بعد ہوں گے، ان کا کیا ہوگا؟ کیا صوبائی سرکاریں اس کیلئے آمادہ ہو جا ئیں گی اگر ہو جا ئیں تو اس کیلئے جتنے بڑے پیمانہ پر انتظامات چاہئے وہ اتنا جلد ممکن ہے۔ کچھ بھی ہو مودی سرکار پوری طرح دبائو میں نظر آرہی ہے اور پہلی مرتبہ خود کو گھرا ہوا محسوس کررہی ہے ۔ بلا شبہ یہ ’ انڈیا‘ کی بڑی کامیا بی ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS