ملائم سنگھ کی موت ایک عہد کا خاتمہ

0

عبدالماجد نظامی

سماج وادی پارٹی کے بانی اور اترپردیش کے سابق وزیراعلیٰ ملائم سنگھ یادو(1939-2022) کی موت سے ہندوستانی سیاست میں ایک شاندار عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ ان کی سیاست سے اتفاق اور اختلاف کرنے والوں کی کمی نہیں ہے لیکن اس حقیقت کو کوئی بھی نظر انداز نہیں کرسکتا کہ انہوں نے ہندوستان کی سیاست پر عموماً اور ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش پر خصوصاً ایسا گہرا اثر چھوڑا کہ اس کے نشانات آج بھی باقی ہیں اور آئندہ بھی ان پر مختلف پہلوؤں سے باتیں ہوتی رہیں گی۔ ملائم سنگھ یادو ہندوستانی سیاست میں اپنا اہم کردار نبھانے میں اس لیے کامیاب ہو پائے کیونکہ وہ زمین سے جڑے ہوئے انسان تھے جنہوں نے سماج کے تمام طبقوں کے ساتھ اپنا خاصہ وقت گزارا تھا اور سماجی بدلاؤ کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ انہوں نے روایتی ڈھنگ سے اکھاڑوں میں پہلوانی کے داؤ پیچ سیکھے تھے اور ہر حرکتِ قدم اور چشم و ابرو کے اشاروں کے مفہوم و معانی کی اہمیت جانتے تھے۔ جب وہ سیاست کے اکھاڑے میں داخل ہوئے تو انہوں نے یقینی بنایا کہ اپنی مٹی کے ساتھ ان کی وہ گہری وابستگی باقی رہے اور سماج کے لوگوں کے جذبات و احساسات اور ان کی تمناؤں اور آرزوؤں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی کوشش کامیابی کی مثال بن کر سامنے آئے۔ سماجی انصاف کی جس سیاست کو انہوں نے اپنی اسٹوڈنٹ لائف میں اختیار کیا تھا اس پر وہ اپنے آخری دم تک قائم رہے۔ حقیقی سیاست میں انہوں نے اپنی سیاسی زندگی کا کامیاب سفر1967میں کیا جب بطور ایم ایل اے ان کا انتخاب عمل میں آیا۔ یہی وہ سال تھا جب اکتوبر 1967 میں ان کے سیاسی گرو رام منوہر لوہیا کا انتقال ہوگیا تھا۔ شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ رام منوہر لوہیا نے پسماندہ طبقوں میں اپنے حقوق کی بازیابی کا جو شعور بیدار کر دیا تھا، اس کو منطقی انجام تک پہنچانے کا کام مقدر نے ملائم سنگھ یادو کے حوالہ کیا تھا کیونکہ لوہیا کے بعد کچھ مدت تک او بی سی اور پسماندہ طبقوں کی نمائندگی کی ذمہ داری جاٹ نیتا چرن سنگھ نے بھی نبھائی اور وزیراعلیٰ ہی نہیں بلکہ وزارت عظمیٰ کے عہدہ تک کا سفر بھی اسی کے ذریعہ طے کیا لیکن جو کامیابی ملائم سنگھ کو ملی وہ کسی دوسرے لیڈر کو نہیں مل سکی۔ خاص طور سے اترپردیش کی سیاست میں ملائم کی سیاست کی دھاک کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ5 ؍دسمبر1989میں جب وہ پہلی بار وزیراعلیٰ بنے تو وہ اس ریاست میں کانگریس پارٹی کا آخری دن ثابت ہوا اور آج تک اسے اقتدار میں واپسی کا منہ دیکھنا نصیب نہیں ہوا ہے۔ گویا کانگریس سے آزاد بھارت کا جو سپنا آج بھارتیہ جنتا پارٹی دیکھ رہی ہے، اس کو حقیقت کا جامہ ملائم سنگھ نے بہت پہلے پہنا دیا تھا لیکن اس کے لیے انہوں نے سیاسی شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہیں دیا تھا۔ ساتھ ہی ملائم سنگھ نے بطور وزیر اعلیٰ30اکتوبر1990میں یہ ثابت کیا تھا کہ ان میں ہندوستان کی سیکولر اور دستوری قدروں کے تحفظ کا پورا احساس موجود ہے اور اسی لیے انہوں نے جن شرپسندوں نے بھی ملک کی مشترک اور گنگا جمنی تہذیب کو نقصان پہنچانے کے لیے مذہب کے نام پر انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی فضا قائم کرنے کی کوشش کی تھی، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی تھی۔ جن کار سیوکوں نے بابری مسجد کی دیوار پر چڑھ کر مسجد کی ناموس کو نقصان پہنچانے کی غیر مہذب حرکت کی تھی، ان کو قرار واقعی سزا ملی اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق تیس شرپسند پولیس کی کارروائی میں مارے گئے۔ دراصل ملائم سنگھ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنی دستوری ذمہ داری نبھائیں گے اور بابری مسجد کو نقصان نہیں پہنچنے دیں گے۔ وہ اپنے اس وعدہ پر پورے اترے اور پھر یادو اور مسلمان کی ایسی مضبوط جوڑی بنی جو کبھی ختم نہیں ہوئی۔ یہ بہت نازک دور تھا جس میں مسلمانوں کے لیے بڑے مسائل کھڑے کیے جارہے تھے اور آر ایس ایس-بی جے پی کی رام مندر تحریک کی وجہ سے مسلمانوں میں خوف اور عدم تحفظ کا احساس گہرا ہوگیا تھا۔ ایسے وقت میں یوپی کے اندر ملائم سنگھ اور بہار میں لالو پرساد نے سماجی بٹوارہ کی اس سیاست کا مقابلہ کیا تھا۔ ملائم سنگھ کو اپنی اس جرأت کی قیمت چکانی پڑی، کیوں کہ جس جنتادل کا وہ حصہ تھے، اس کو بی جے پی کی حمایت مرکز اور ریاست دونوں جگہ حاصل تھی۔ اس واقعہ کے بعد بی جے پی نے اپنی حمایت واپس لے لی اور سرکاریں دونوں جگہوں پر گر گئیں اور بالآخر محض دو سال بعد کلیان سنگھ کی قیادت میں بابری مسجد کی شہادت کا راستہ بی جے پی اور آر ایس ایس کے لیے ہموار ہوگیا۔ اس ضمن میں یہ بتانا ضروری ہوگا کہ یہ ملائم سنگھ کی سماجی انصاف پر مبنی سیاست کا ہی نتیجہ تھا کہ کلیان سنگھ جیسے پسماندہ شخص کو یو پی کا وزیراعلیٰ بننا نصیب ہوپایا تھا ورنہ اس سے قبل اس ریاست میں صرف اعلیٰ ذات کے ہندو ہی اقتدار پر قابض رہا کرتے تھے۔ یہ سلسلہ 1989 سے 1999 تک لگاتار جاری رہا اور 1999 سے 2002 تک کی مختصر مدت کو اگر الگ کر دیا جائے جس میں رام پرکاش گپتا اور راج ناتھ سنگھ جیسے اونچی ذاتی کے لوگ دوبارہ وزیراعلیٰ بن پائے تو پتہ چلے گا کہ پسماندہ ہندو طبقے کو نئی آواز اور قوت ملائم سنگھ کی سیاست سے ہی ملی۔ گرچہ آج اس سیاست میں بہت کچھ بدل گیا ہے اور2017سے اونچی ذات کا قبضہ ایک بار پھر قائم ہوگیا ہے۔ اس کے باوجود اس بات کی اہمیت باقی رہتی ہے کہ صرف ہندو پسماندہ طبقے ہی نہیں بلکہ کسان و مزدور، مسلمان اور دلت ہر طبقہ کو ملائم سنگھ کی سیاست نے بڑا فائدہ پہنچایا۔ خود بہوجن سماج پارٹی کو اگر اقتدار میں ایک مقام حاصل ہوا تو اس کا سہرہ بھی ملائم سنگھ کے سر جاتا ہے جنہوں نے پہلی بار 1993 میں بی ایس پی کو اپنا سیاسی حلیف بنایا اور پاور کا حصہ بنانے میں کامیاب ہوئے۔ اس سے قبل تک بی ایس پی ایک چھوٹی سیاسی پارٹی مانی جاتی تھی۔ اس پہلو پر گفتگو کم ہی ہوتی ہے لیکن اس حقیقت کو نظرانداز کرنا ملائم کے ساتھ نا انصافی کے مترادف ہوگا کہ انہوں نے دلت سماج کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور ایس پی و بی ایس پی کے اس نعرہ کو سچائی میں بدل دیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’ملے ملائم- کانشی رام، ہوا میں اڑ گئے جے شری رام‘‘۔ لیکن بی ایس پی نے کانشی رام کی وراثت کو زیادہ دنوں تک باقی نہیں رکھا اور بی جے پی کے ساتھ مل کر اقتدار کی بھوک مٹانے میں لگ گئی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ آج خود سیاسی طور پر غیر معتبر بن چکی ہے جبکہ سماج وادی پارٹی اپنے وجود کو برقرار رکھنے اور مستقبل میں بی جے پی کا متبادل بن کر ابھرنے کی پوری صلاحیت رکھنے کا اشارہ دے رہی ہے۔ اب یہ چیلنج ملائم سنگھ کے وارث اکھلیش یادو کے سامنے ہے کہ وہ اپنی پارٹی اور والد کی سماجی انصاف پر مبنی سیکولر سوشلسٹ سیاست کی حفاظت کیسے کرتے ہیں اور مسلمانوں اور دیگر پسماندہ طبقوں کو قیادت فراہم کرانے کیلئے اور ان کے دستوری حقوق کی بازیابی کیلئے کس طرح قدم آ گے بڑھاتے ہیں۔ کیونکہ آج ’’جے شری رام‘‘ کی سیاست ہوا میں اڑنے والی نہیں ہے بلکہ اس کے دباؤ سے ہر سیکولر پارٹی اپنی سیاست کا رخ بدلنے پر مجبور ہے۔ اس امتحان میں اصل کامیابی تبھی مانی جائے گی جب سماج وادی پارٹی ملائم سنگھ کی بے خوف اور سماجی ہم آہنگی پر مبنی سیاست کو ملک میں دوبارہ نافذ کرنے کیلئے پرعزم نظر آئے۔ یہی ملائم سنگھ کیلئے سب سے بڑا خراج عقیدت شمار کیا جائے گا۔
(مضمون نگار روزنامہ راشٹریہ سہارا کے گروپ ایڈیٹر ہیں)
[email protected]

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS