ملائم سنگھ یادو:پسماندہ طبقات کی آواز حامی اور علم بردار

0

پسماندہ طبقات کے اہم لیڈر ملائم سنگھ یادو کا انتقال سماجی انصاف کے لیے کام کرنے والے غیر معمولی سیاستدان اور سیاسی دور کا خاتمہ ہے جس نے اپنی سادگی سیاسی دور اندیشی اور زبردست قوت فیصلہ سے اپنی پہچان بنائی۔ اتر پردیش کی یرہیچ سیاست میں مولانا ملائم سنگھ یادو بڑے بڑے کھلاڑیوں کو مات دی اور ملک کی سیاست چندرشیکھر، رام کرشن ہیگڑے جیسے لیڈروںو کی طرح اپنی دور اندیشی اور سیاسی مہارت کا مظاہرہ کیا، ایسے دور میں جب بڑی بڑی پرانی پارٹیاں اور پرانی پارٹیوں کے درازقامت مرغ بارہ دیدہ لیڈروں کو وقت کی گرد میں غائب ہوتے دیکھا مگر ملائم سنگھ یادو بہترین اور مشکل ترین حالات میں نہ صرف کامیاب اور نامرادبن کر ابھرے بلکہ اپنی پارٹی کو بھی استحکام اور دوام بخشا ان کی پارٹی آج زمینی سطح پر عوام میں مقبول ہے بلکہ ملک اورسب سے بڑی آبادی والی ریاست اترپردیش میں صحت مند اور موثر اپوزیشن کا رول بھی ادا کررہی ہے۔ فرقہ واریت، علاقہ پرستی اور تنگ ومحدود مقاصد کی سیاست کے اسی دور میں سماج وادی پارٹی رام منوہر لوہیا اور جے پرکاش نرائن نے اصولوں پر کاربند ہے۔
ملائم سنگھ یادو پہلوان تھے مگر سیاست کے میدان کے ان کے دائو بڑے بڑوں کو چت کردیتے تھے۔ یہ ان کی شخصیت کی کشش تھی کہ انہوں نے لوک دل میں چرن سنگھ کے وارث اجیت سنگھ مغربی اترپردیش تک محدود کرکے پورے یوپی میں اپنی پارٹی کا نیٹ ورک بنایا اور پھیلایا۔
اتر پردیش کا ہر دل عزیز لیڈر تین مرتبہ وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود اگر چہ وہ وزیر اعظم نہ بن سکے مگر وزیر دفاع کی حیثیت سے انہو ںنے زبردست چھاپ چھوڑی۔ دفاعی افواج میں میدان عمل میں اعلیٰ ترین جان کی قربانی دینے والے افراد کو ان کے آبائی گائوں اورشہروں شہیدوں کوآخری رسومات کا انتظام کرنے کی روایت قائم کرائی جو ملک کی خدمت میں عظیم ترین قربانی دینے والے افراد کے اہل خانہ گائوں والوں اور اہل وطن کے لیے قابل فخر تھا بلکہ فوج کا رشتہ عام آدمی سے جوڑنے والا بھی تھا۔
سب سے بڑی ریاست اتر پردیش کے تین مرتبہ کی وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو ملک کی سیاست میں اہم ترین ذمہ داریوں اور انتہائی سرگرم رہنے کے باوجود مٹی سے جڑے رہے۔ ان کی ہندی سے محبت مشہور ہے۔ 1996سے1998 کے درمیان وزیر دفاع رہنے کے باوجود انہوں نے اپنی ہندی مادری زبان سے تعلق نہیں چھوڑا، ان کے خطوط ان کے مراسلات انگریزی کی بجائے ہندی میں آتے تھے۔ یہ بات آرمی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے حلق سے نہیں اترتی تھی۔ مگر وہ دھرتی کے پتر تھے، ان کی جڑیں زمین میں پیسوست تھیں، پارلیمنٹ میں وزیر دفاع کے دفتر کے باہر جوتختی لگی ہوئی تھی اس پرجلی الفاظ میں رکھشامتر ہی لکھا تھا، ان کی ہندی سے الفت اردو کے ساتھ لگائوں میں مانع نہیں آیا۔ ان کے دور اقتدار میں اردو کے فروغ میں سرکاری کوششوں میں اضافہ ہوجاتا تھا۔ اردو ٹیچر اور مترجموں کی بھرتی میں انہوں نے قاعدے قوانین کے پابندیوں کو بھی قبول نہیں کیا،نہ سیاسی دبائو کا شکار ہوتے۔ ان کے دور میں اردو اداروں کو فروغ ہوا اور اردو کے نشریاتی اداروںکو ترقی کرنے اور کام کرنے کے لیے بے روک ٹوک مواقع ملے، ان کے دورے اقتدار میں سیکڑوں اردو والے برسر روز گار ہوئے اور اردو کا رشتہ روٹی روزی سے جڑا۔
ہندوستان کی سیاست میں مندر اور منڈل دونوں مہموں سے جڑنے والے ملائم سنگھ یادو سیاسی طوفانوں میں اپنا وجود برقرار رکھنے اور سخت ترین حالات میں بھی اپنی مقبولیت اور پارٹی کے کیڈر میں توسیع کرنے کی صلاحیتوں سے بہرمند ملائم سنگھ یادو1990میں کارسیوک پر پولیس فائرنگ کرانے کی پاداش میں بابری مسجد کے انہدام کے خواہش مندوں کی آنکھ کا کانٹا بنے رہے،بابری مسجد کے معاملہ میں انہوں نے قانون شکنی کو برداشت نہیں کیا۔ مولانا ملائم سنگھ کے نام سے مشہور ہونے والے سماج وادی لیڈر بدترین سیاسی حریفوںسے مراسم استوار نے کافن جانتے تھے۔ مایاوتی سے سخت مخاصمت کے باوجود اتحاد کرنا اتحاد کا ٹوٹنا اور پھر اتحاد کرنا نہ صرف سیاسی دور اندیشی اور سیاست میں سوشل انجینئرنگ کے فن پرمکمل عبور پر اور کمال دسترس کا ثبوت ہے۔
ملائم سنگھ یادو نے نہ صرف سیاسی میدان میں بلکہ اپنے خاندان میں بھی اپنا رتبہ اور دبدبہ برقرار رکھا،کافی حد تک خاندان کو متحد رکھا، بھائی شیوپال یادو کے باغیانہ تیوروں کو پارٹی کے اندر سی بڑے انتشار سے بچائے رکھا۔ان کی دور اندیشی کی وجہ سے شیوپال یادو زبردست اثرورسوخ رکھنے جانے کے باوجود پارٹی میں کسی بڑی تقسیم کرانے میں ناکام رہے، ملائم سنگھ یادو نے 2012کے الیکشن میں شاندار کامیابی کے بعد اپنے بیٹے کو یوپی کے وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کرکے باآسانی اقتدار اور پارٹی میں اختیار کی منتقلی کو ممکن بنایا ہے۔ اگرچہ شیوپال یادو پارٹی سے باہر چلے گئے تھے مگر ملائم عین اسمبلی الیکشن سے قبل واپسی سے پارٹی کو نقصان سے بچانے میں کامیاب ہوئے اگر چہ یہ واپسی وقتی تھی۔ مگر پارٹی کو نقصان سے بچا کر انہوں نے ایک تجربہ کار چالاک لومڑی کا رول ادا کی۔ آج ملائم سنگھ یادو دنیا میں نہیں مگر ان کی پارٹی ملک کی سیاست میںایک مضبوط متبادل ہے۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS