ایتھوپیا :خانہ جنگی کے خاتمہ کا امکان ختم؟

0

جنات چریندوں، پرندوں اور آبی مخلوق کے حکمراں حضرت سلیمان علیہ السلام کی سرزمین ایتھوپیا اب تک خانہ جنگی قحط سالی اور فاقہ کشی کے لیے ہی خبروں میں آتی رہی ہے، پیچیدہ سیاسی صورت والایہ ملک متنوع ، تہذیب ، زبانوں اور قبائلی وابستگیوں کے لیے جانا جاتا ہے۔براعظم افریقہ کا ہر ملک یوں تو مختلف قبائلی رقابتوں اور مسلسل خانہ جنگی ،خون خرابے سے بدنام ہے مگر ایتھوپیا میں حالات بہت تیزی سے بدلے ہیں اور باہم متصادم طاقتیں اور ممالک متحد ہوکر تیسرے فریق کے لیے خلاف برسرپیکار ہوگئے ہیں اور حالات یہ ہیں کہ عالمی برادری بھی اس تنازعہ میں شامل ہوگئی ہے اور 30سال تک طاقت کے زور پر پورے ملک پر قابض رہے تشدد پسند علیحدگی مسلح گروپ تگرے پیوپلز لبریشن فرنٹ (ٹی پی ایل ایف) جو کہ ایک خاص علاقہ میں اور خاص طبقہ کی نمائندگی کا دعوی کرتا ہے۔ ایسے آپ کو محدود اور مہبوس محسوس کررہا ہے۔ ایتھوپیا کی موجودہ حکومت جو کہ عام انتخابات کے بعد قائم ہوئی ہے، اس کو انسانیت کش مظالم کے لیے مورد الزام ٹھہرایا جارہاہے۔ در اصل تگرے پیوپلز لبریشن فرنٹ جس کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ وہ علیحدگی پسند مسلح تنظیم ہے، شمالی ایتھوپیا میں الگ ملک بنانا چاہتی ہے۔ ابی احمد کی حکومت کے قیام کے بعد دونوں فریقوں یقینی تگرے لبریشن فرنٹ اور ایتھوپیا کی منتخب سرکار کے درمیان جنگ بندی سمجھوتہ ہوگیا تھا۔ جو تگرے کی جنگ بندی کی خلاف ورزی کے بعد یہ سمجھوتہ لوٹ گیا تھا۔
ابی احمد کی حکومت نے تگرے لبریشن فرنٹ کو الگ تھلگ کرنے کے لیے دیگر متحارب، جنگی گروہوں اور ’’دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ معاہدہ کرلیا، ظاہر ہے کہ یہ صورت حال تگرے فرنٹ کے لیے تکلیف دے تھی جو ایک طویل عرصہ تک تقریباً تین دہائیوں تک ایتھوپیا میں حکمران رہنے کے بعد ملک کی سیاست اور مجموعی طور پر پورے خطے میں الگ تھلگ پڑگیا۔ اس وقت عالمی طاقتوں کو لگنا شروع ہوگیا ہے کہ ابی احمد نے تگرے فرنٹ کو الگ تھلگ کردیا ہے لہٰذا عیسائی قبائلی علاقے جو کہ ایریٹیریا اور سوڈان سے ملتے ہیں۔ تگرے فرنٹ کی پورے ملک کی جارہ داری کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوئے۔2018کے الیکشن کے بعد سے ایتھوپیا کی سیاست بالکل مختلف موڑ لے چکی ہے۔ ابی احمد کی سرکار پر الزام ہے کہ وہ تگرے خطے میں اورملک میں پارلیمانی انتخابات منعقد کرانے میں ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی اور تگرے انتخابات کے دوران مرکزی حکومت اور تگرے فوج میں جھڑپیں ہوئیں اور بعض مقامات پر تگرے باغیوں اور قومی فوج کے درمیان میں جنگ بندی کے معاہدے ٹوٹ گئے۔ تگرے خطے میں انتخابات(پارلیمانی) منسوخ ہوگئے اور پورے خطے میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی۔ وہاں فوج بلا روک ٹوک کارروائی کررہی ہے۔ صدر ابی احمد کی سرکاری فوج نے ٹی پی ایل ایف کے باغیوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ تگرے میں جنگی سرگرمیوں میں شدت کے بعد ایریٹیریا کی اچھی خاصی فوج ابی احمد کی فوج کی حمایت کررہی ہے،پرانے دشمن ملک تگرے کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ یہ حالات 2018کے انتخابات کی صورتِ حال سے بالکل مختلف ہے۔
تگرے میں حالیہ صورت حال عالمی برادری کے نظریات اور احکامات سے بالکل جدا ہے۔ عالمی برادری باغیوں کے خلاف ایتھوپیائی فوج کی کارروائی سے سخت ناراض ہے اور چاہتی ہے کہ وہ باغیوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف کارروائی کو سرکار روک دے، پوری دنیا میں ایتھوپیا کے خلاف آوازیں بلند ہورہی ہیں اور اقوام متحدہ کی تازہ قرارداد اس کا واضح ثبوت ہے۔یہ کارروائی اس لیے بھی زیادہ کارگر ہے کہ تگرے میں کارروائی سرحد پار ایریٹیریا اور سوڈان سے بھی ہورہی ہے، وہاں سے تشدد پسند دہشت گردتنظیمیں جیسے القاعدہ ان ایس آئی ایس تگرے میں حملے کررہے ہیں اور دیگر قبائلی سردار حکومت کے ساتھ تعاون کررہی ہے۔ کئی ادارے بطور خاص افریقی یونین ، اقوام متحدہ مذاکرات کے ذریعہ اس جنگ وجدال کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور جنوبی افریقہ میں مذاکرات متوقع ہیں۔
مگر ابی احمد کے موقف کو دیکھ کر کتنا لگتا نہیں ہے کہ سرکار مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔ اندرون ملک کی سیاست اور خانہ جنگی میں مغربی ممالک کی بڑھتی مداخلت کو دیکھتے ہوئے ابی احمد کی حکومت نے روس کی فوجی مدد لینی شروع کردی ہے۔ ظاہر ہے کہ روس کی حمایت والے ویگنر گروپ کے سیکورٹی عملہ کی موجودگی سے کئی حلقوںمیں تشویش ہے۔ اور ایتھوپیا پر دبائو بنایا جارہا ہے کہ وہ مذاکرات کرنے اور فوجی کارروائی روکے۔
qqq

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS