ملائم سنگھ یادو-ایک نا قابل فراموش سیاستدا ں

0

اختر جمال عثمانی بارہ بنکی
10 اکتوبر کی صبح ایک اندوہناک خبر لیکر آئی۔ کئی روز سے دہلی کے ایک اسپتال میں داخل سماج وادی پارٹی کے سرپرست اور نصف صدی سے زیادہ عرصے تک پسماندہ طبقات کی سیاست کا محو ر رہے نڈر اور بے باک لیڈر ملائم سنگھ یادو کا انتقال ہو گیا ۔ صدر مملکت، وزیر اعظم کے ساتھ ساتھ ہر سیاسی جماعت ، عوام اور ہر طبقے کی طرف سے رنج و غم کا اظہار کیا گیا۔ ان کی میدان عمل رہی ریاست اتر پردیش میں تین روز کے سرکاری سوگ کے اعلان سے ان کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔
ملائم سنگھ یادو کا جانا نہ صرف سیاست میں ایک عہد کا خاتمہ ہے بلکہ ہندوستان میں دم توڑتے سیکولرازم کا بھی بہت بڑا خسارہ ہے۔ان کو محض 15 سال کی عمر میں ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی ’ نہر ریٹ تحریک ‘ جو کہ کسانوں کو نہر وں سے آب پاشی کے عوض دی جانے والی رقم میں تخفیف کے لئے تھی جیل جانا پڑاتھا۔طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے اسٹوڈنٹ یونین کے صدر کا الیکشن جیت کر اپنے کو مستقبل کا لیڈر ثابت کر دیا تھا۔ان کے ہم جماعت ان کو اسی دور سے ایم ایل اے کہہ کر مخاطب کرنے لگے تھے۔
انہوں نے سخت محنت اور جدوجہد کر کے صوبائی اور قومی سیاست میں اپنا مقام بنایا ۔ وہ تین بار اترپردیش کے وزیراعلیٰ رہے اور مرکزی وزیر دفاع کے عہدے پر بھی فائز رہے۔ ان کی پیدائش اتر پردیش کے اٹاوہ ضلع کے سیفئی گائوں میں 22 نومبر 1939کو ایک متوسط یادو خاندان میں ہوئی۔ ایک اسکول ٹیچر ہونے کے ساتھ ساتھ وہ پہلوانی کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ساٹھ کی دہائی میں جبکہ انہوں نے ایک کشتی کے مقابلے میں کئی پہلوانوں کو شکست دی سنیکت سوشلسٹ پارٹی کے جسونت نگر سیٹ سے امید وار رہے نتھو سنگھ ان سے متاثر ہوئے اور ان کی حوصلہ افزائی کی نہ صرف پہلوانی میں بلکہ سیاست میں بھی۔ یہاں سے انہوں نے عملی طور سے سیاست کی دنیا میں قدم رکھا۔ 1967 میں انہوں نے اپنے سیاسی گرو نتھو سنگھ کی حمایت سے سنیکت سوشلسٹ پارٹی کے امیدار کی حیثیت سے پہلی بار جسونت نگر سیٹ سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے۔انہوں نے اٹاوہ کے کسانوں کی فلاح اور بہبود کے لئے بہت سے کام کئے۔
1977 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کی کانگریس پارٹی کو ایمرجنسی کے دوران کی گئی زیادتیوںکی پاداش میںشکست ہوئی۔ اس کے بعد حذب اختلاف کی کئی پارٹیوں کے انضمام سے قائم ہوئی جنتا پارٹی کی مرکز میں حکومت قائم ہوئی ۔صوبائی اسمبلیاں تحلیل کر کے دوبارہ الیکشن کرائے گئے یو پی میں قائم ہونے والی جنتا پارٹی کی حکومت میں ملائم سنگھ پہلی بار وزیر مملکت بنے۔
دوہری ممبرشپ کو لے کر اٹھے تنازعے کی وجہ سے جنتا پارٹی تقسیم ہو گئی جس کے نتیجے میں کئی پارٹیاں وجود میں آئیں۔ جن سنگھ کے سابق ممبران نے بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کی تشکیل کی وزیر اعظم رہ چکے چودھری چرن سنگھ کی لیڈر شپ میں قائم لوک دل کے صوبہ اتر پردیش کے صدر ملائم سنگھ یادو بنے۔ 1982 میں اتر پردیش کونسل میں حزب اختلاف کے لیڈر کا عہدہ سنبھالا۔1984 میں وزیر اعظم اندرا گاندھی کی شہادت کے بعد کانگریس اور راجیو گاندھی کے لیے ہمدردی کی ایسی لہر اٹھی کہ اپوزیشن پارٹیوںکا تقریباً صفایا ہو گیا۔
بڑے لیڈران الیکشن ہار گئے کانگریس کو عام انتخابات اور صوبائی اسمبلیوں میں بے مثال اکثریت حاصل ہوئی راجیو گاندھی کی قیادت میں مرکز میں حکومت بنی اپوزیشن پارٹیوں کے حوصلے پست تھے۔ اسی دوران راجیو گاندھی کی کابینہ میں وزیر دفاع رہے وی پی سنگھ نے ’ بوفورس توپ سودے‘ کو لے کرسوالات اٹھائے اور بدعنوانی کے الزامات لگائے۔ اپوزیشن میں گویا جان پڑ گئی وی پی سنگھ بھی مستعفی ہو کر اپوزیشن میں شامل ہو گئے اور1989 میں وزیر اعظم بن گئے۔
وی پی سنگھ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں الیکشن کے بعد چودھری اجیت سنگھ وزیر اعلیٰ بننے کے خواہش مند تھے انہیں وی پی سنگھ کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن ممبران اسمبلی کی اکثریت ملائم سنگھ کے ساتھ تھی چنانچہ وہ جنتا دل کے لیڈر کی حیثیت سے پہلی بار یو پی کے وزیر اعلیٰ بنے۔یہ وہ دور تھا جب لال کرشن اڈوانی کی رام جنم بھومی کی تحریک عروج پر تھی۔ اور فرقہ پرست عناصر بابری مسجد کی مسماری پر کمر بستہ تھے۔ ملائم سنگھ نے قانون کی بالا دستی قائم رکھنے کے لئے اقدامات کئے۔ نومبر 1989 میں جب نام نہاد کارسیوکوں کا ہجوم ایودھیا کی طرف رواں دواں تھا۔ انہوں نے بابری مسجد کی ہر قیمت پر حفاظت کرنے کا حکم دیا خواہ اس کے لئے گولیاں ہی چلانا پڑیں۔ اس کارروائی میں متعدد ’ کار سیوک ‘ ہلاک ہوئے ، لیکن یہ رویہ ان کے لئے دودھاری تلوار ثابت ہوا ۔ جہاںایک طرف ان کی شبیہ بطور ایک سیکولر رہنما کے مستحکم ہوئی۔وہیں دوسری طرف وہ ہمیشہ کے لئے ہندو انتہا پسندوں کے نشانے پر آ گئے۔ انہیں ’ مولانا ملائم‘ کا خطاب تک دے ڈالا گیا۔
1992 میں انہوں نے پرانے سوشلسٹ لیڈروں کو اکٹھا کر کے سماج وادی پارٹی قائم کی۔ لکھنؤ کے بیگم حضرت محل پارک میں یہ اجلاس کئی روز جاری رہا۔ بھگوتی پرساد، اعظم خان ،بینی پرساد ورما وغیرہ شانہ بشابہ رہے۔
1993 میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اگرچہ سماج وادی پارٹی کو مکمل اکثریت تو حاصل نہ ہو سکی لیکن بہوجن سماج پارٹی کی حمایت سے وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بنے۔ لیکن یہ حکومت اپنی مدت کار پوری نہ کر سکی۔ بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایا وتی نے بی جے پی کی حمایت کا یقین ہو جانے اور خود کے وزیر اعلیٰ بننے کے امکان کے مد نظر حمایت واپس لے لی۔اس دوران سماجوادی پارٹی کے کچھ اراکین نے اسٹیٹ گیسٹ ہائوس میں بہوجن سماج پارٹی کی لیڈر مایا وتی اور ان کی پارٹی کے ممبران کے ساتھ بد سلوکی کی جس کی وجہ سے دونوں پارٹیوں میں ایسی رنجش ہوئی کہ ایک دوسرے سے تعاون کے راستے ہی بند ہو گئے، 02 جون 1995 کا یہ واقعہ اتر پردیش کی سیاست کے لئے ایک سیاہ دن کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اس صورتِ حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بی جے پی نے مایا وتی کی حمایت کا اعلان کر دیا۔اور مایا وتی نے بی جے پی کی حمایت سے اپنی حکومت بنالی۔ یہ دور ملک میں بڑی سیاسی تبدیلیوں کا دور تھا۔ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مسلمان کانگریس سے متنفر ہو چکے تھے۔
1996 کے عام انتخابات میں گانگریس کو اکثریت حاصل نہ ہو سکی اٹل بہاری باجپئی کی قیادت میں بن نے والی حکومت صرف تیرہ دن قائم رہی اور ا کثریت ثابت کرنے میں ناکام رہی۔ اس کے بعد دیوگوڑا کی قیادت میں یونائیٹڈ یونائیٹڈ فرنٹ U.P.A. نام سے ایک اتحاد کی حکومت بنی جس میں ملائم سنگھ نے وزیر دفاع کے عہدے کاحلف لیا۔ دیوگوڑا کے بعد اندر کمار گجرال وزیر اعظم بنے ۔ بطور وزیر دفاع ملائم سنگھ کا دور حصول یابیوں کا رہا۔ یہ اصول بنا کہ شہید ہونے والے فوجیوں کے جسد خاکی کو ان کے آبائی وطن لایا جائے تا کہ اہل خانہ ان کی آخری رسومات میں شامل ہو سکیں اس سے پہلے یہ رسومات ان کے مذہب کے مطابق سرحد پر ہی ادا کر دی جاتی تھیں۔ اس سیاسی اتھل پتھل کے دور میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب ان کے وزیر اعظم بن نے کا امکان پیدا ہوالیکن لالو پرساد یادو، شرد پوار اور چندر بابو نائیڈو کے آمادہ نہ ہو پانے کی وجہ سے ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ اس کا ملال ان کو ہمیشہ رہا۔
1998 میں بی جے پی نے دیگر پارٹیوں کے ساتھ مل کے این ڈی اے نام سے ا تحاد قائم کیا اور اٹل بھاری باجپائی کی قیادت میں حکومت بنی۔ اگر چہ فروری 2002میں ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سماج وادی پارٹی نے سب سے زیادہ نشستیں حاصل کیں لیکن اکژیت حاصل نہ کر سکی 2003میں دوسری پارٹیوں کی ٹوٹ پھوٹ نے انھیں ایک بار پھر وزیر اعلیٰ کا منصب سنبھالنے کا موقع دیا ۔ ڈاکٹر رام منوہر لوہیا کی سوشلسٹ پارٹی کی پالیسی کی بنیاد ہی کانگریس کی مخالفت پر تھی سماجوادی پارٹی بھی اسی روش پر چلتی آ رہی تھی۔اس دور میں ملائم سنگھ کے ساتھی امر سنگھ نے کہا تھا کہ کانگریس کی مخالفت ملائم سنگھ یادو جی کے ڈی این اے میں شامل ہے۔
2004 میں جبکہ ’ انڈیا شائیننگ‘ کے نعرے کے باوجود بی جے پی کی حکومت دوبارہ قائم نہ ہو سکی توکانگریس نے یونائیٹڈ پروگیسیو الائینس U.P.A. نام سے اتحاد بنایا۔اس کی حکومت بننے کا موقع آیا تو سونیا گاندھی کے غیر ملکی ہونے کے مدعے کو لے کر اٹھنے والی آوازوں میں سب سے بلند آواز ملایم سنگھ یادو کی تھی۔2007 کے انتخابات میںان کی پارٹی شکست سے دوچار ہوئی۔ ان کی پہچان پسماندہ طبقے کی سیاست کرنے والے ایک سیکولر رہنما کے طورپرہوتی تھی۔ 2012 میں اتر پردیش صوبائی اسمبلی میں سماج وادی پارٹی کو ایک بار پھر اکثریت حاصل ہوئی لیکن اس بار ملائم سنگھ نے بیٹے اکھلیش یادو کو یو پی کی کمان سونپی۔
ملائم سنگھ کی عوامی مقبولیت کا اندازہ ان کی سیاسی حصولیابیوں سے لگایا جا سکتا ہے۔ وہ آٹھ بار صوبائی اسمبلی کے اور پانچ بار لوک سبھا کے ممبر منتخب ہو ئے۔تین بار یو پی کے وزیر اعلیٰ رہے اور ایک بار مرکزی کابینہ میں بطور وزیر دفاع شامل رہے۔ ملک کی سیاست میں اگر ایسے رہنمائوں کا ذکر ہو جن کا مسکن عوام کے دلوں میں رہا ہے توآنجہانی ملائم سنگھ کو ضرور اس فہرست میں شامل کیا جائے گا۔ وہ زمین سے جڑے لیڈر مانے جاتے تھے۔ اپنی سیاسی زندگی میں وہ نو بار جیل گئے ۔ ایمرجنسی کے دوران بھی وہ جیل میں تھے۔ ان کو نیتا جی، کسان نیتا اور دھرتی پتر جیسے القاب سے نوازہ گیا بلکہ ملک کی تاریخ میں اگر سبھاش چندر بوس کے بعد کسی کو نیتا جی کہا گیا تو وہ شخصیت ملائم سنگھ یادو کی ہے۔
چند سال قبل ان کے ایک بیام کو لی کر کافی تنقید کی گئی تھی جس میں انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو مخاطب کرتے ہوئے ان کے دو بارہ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہونے کی خواہش کا اظہار کیا تھا۔ جبکہ در حقیقت وہ اس طرح کے سیاست داں تھے جو سیاسی مخالفین کو دشمن نہ مان کر باہمی احترام اور خیر سگالی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ سیکولرازم کو لے کر ان کا کمٹمنٹ شک و شبہ سے بالا تر تھا۔ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں کو وہ فرقہ پرست مانتے تھے اور کھل کر ان پر تنقید کرتے تھے۔ بابری مسجد کے الزام اور گجرات کے فسادات میں ان فرقہ پرست تنظیموں کے کردار پر ان کی رائے دو ٹوک تھی۔ انہوں نے سیاسی مفادات کی خاطر کبھی بھی فرقہ پرست پارٹیوں سے مصالحت نہیں کی۔ ملک کی اور خصوصاً اتر پردیش کی سیاست میں ان کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS