مجیب الرحمٰن ثقافی سلطانی: خواجہ غریب نوازؒ اور سفر ہند

0

مجیب الرحمٰن ثقافی سلطانی

جب سے رب تعالی نے زمین کو وجود میں لا کر انسانوں سے زینت بخشا اسی وقت سے دنیا کے کونے کونے میں پہ ہمیشہ کفر و شرک کا دور دورہ رہا ظلم و جور کی فضا قائم رہی لوگ اخلاق و کردار کی پستی کا شکار رہے تب تب اللہ رب العزت نے اس دنیا میں اپنے بندوں کی ہدایت اور رہِنمائی کے لیے اپنے نبیوں اور رسولوں کو مبعوث کرتا رہا جب نبیوں اور رسولوں کا آنا بند ہوگیا تو یہ کام منتقل ہوکہ اولیاء اللہ اور علماء کی جانب ہوا ، اللہ تعالیٰ قادرِ مطلق ہے وہ چاہتا تو اپنے نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں بھیجے بغیر بھی لوگوں کو سیدھے راستے پر لاسکتا تھا کہ وہ کسی بھی معاملہ میں کسی کا محتا ج نہیں ہے بلکہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کا محتاجِ کرم ہے۔ لیکن یہ اس کی مرضی اور مشیت ہے کہ اس کے بندے بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکرکرکے حق کی راہ میں مشقتیں جھیلیں تاکہ وہ اپنے فضل اور عطا ے خاص سے انھیں بلند درجات سے نوازے، پھر وقتا فوقتا اپنے محبوب اولیاء کو بھیج کر لوگوں کو نورِ ہدایت سے روشناس، ظْلم وسِتَم سے نجات اور لوگوں کے عقائدواعمال کی اصلاح کراتا رہا، ان ہی بزرگانِ دین میں ایک حضرت خواجہ مْعین الدین سیدحسن چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ ہیں
ولادت باسعادت:آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت537ھ بمطابق 1142ء کو سجستان یا سِیستان کے علاقے سن?جَر میں ایک پاکیزہ اور علمی گھرانے میں ہوئی۔ (کرامات غریب نواز ص 5 )
حسب و نسب/نام و سلسلہ نسب:آپ رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کا اسم گرامی حسن ہے اور آپ نجیب الطرفین حسنی و حسینی سید ہیں۔ آپ کے مشہور و معروف القاب معین الدین، خواجہ غریب نواز، سلطان الہند، وارث النبی اور عطائے رسول وغیرہ ہیں۔ (فیضان غریب نواز ص 5)
ابتداء تعلیم:آپ نے ابتدائی تعلیم اس دور کے مطابق قرآن کریم اپنے والد سے حاصل کی اس کے بعد آگے کی تعلیم جاری ہی تھا کہ والد کاسایہ سر سے اٹھ گیا یہ حادثہ 15 سال کی عمر میں پیش آیا ایسے نازک لمحہ میں آپ کی والدہ نے بڑی ہی متانت و سنجیدگی میں کچھ جملے بولی جو یوں تھا:
’میرے لخت جگر!یہ زندگی ہے اس سفر میں سبھی لوگ تنہا اذیتوں سے گزرتے ہیں اگر تم ابھی سے تکلیفوں کا ماتم کرنے بیٹھ گئے تو زندگی کے کٹھن راستے کیسے عبور کرو گے۔ آپ کے ابو کا خواب تھا کہ میرا بیٹا زبردست عالم دین بنے، اس لیے آپ ابو کی خواب کی تکمیل میں مصروف ہوجائیں۔
امی جان کی ان تسلیوں سے خواجہ غریب نواز کی کچھ طبیعت سنبھل گئی بعدہ ابو کی خواب کی تکمیل کی طرف خوب زورو شور سے بڑھے مگر سکون و راحت کی یہ مہلت بھی زیادہ طویل نہ تھی مشکل سے ایک سال ہی گذرا ہو گا کہ آپ کی والدہ بھی اس دنیا کو الوداع کہہ گئی، اب اکیلے رہ گئے اس لیے ورثہ میں ملی ہوء چیز کی دیکھ بھالی کرنے لگے ورثہ کی چیزوں میں سے ایک باغ اور ایک آٹا پیسنے والی چکی حصہ میں آئی، آپ نے باغبانی کا پیشہ اختیار کیا۔ امی جب گئی تو تعلیمی سلسلہ بھی بند ہوگیا لیکن یہ فطری مجبوری میں بندھے تھے افسوس کے علاوہ کچھ کر بھی نہیں سکتے تھے۔ اسی اثنا میں جب ایک دن خواجہ غریب نواز اپنے باغ میں درختوں کو پانی دے رہے تھے تو ادھر سے مشہور بزرگ ابراہیم قندوزی کا گزر ہوا۔ آپ نے انہیں دیکھا تو دوڑتے ہوئے پاس گئے اور ہاتھوں کو بوسہ دیا۔ ابراہیم قندوزی ایک نوجوان کے اس جوش عقیدت سے بہت متاثر ہوئے۔ انہوں نے شفقت سے آپ کے سر پر ہاتھ پھیرا اور کچھ دعائیہ کلمات کہہ کر آگے جانے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ آپ نے ابراہیم قندوزی کا دامن تھام لیا۔ سیدابراہیم قندوزی نے محبت بھرے لہجے میں پوچھا:
اے نوجوان! ’’آپ کیا چاہتے ہیں؟‘‘
آپ نے گزارش کی کہ:
’’آپ چند لمحے میرے باغ میں ہی قیام فرمائیے۔ کیا پتہ کہ یہ سعادت مجھے دوبارہ نصیب ہوگی کہ نہیں۔‘‘
آپ کے اس نرم لہجے نے انہیں آگے بڑھنے نہیں دیا، آپ باغ میں بیٹھ گئے۔ پھر چند لمحوں بعد انگوروں سے بھرے ہوئے دو طباق آپ نے پیش کیا اور خود مودبانہ انداز میں کھڑے ہو گئے۔ ابراہیم قندوزی نے اپنے جھولی میں ہاتھ ڈال کر جیب سے روٹی کا ایک خشک ٹکڑا نکال کر آپ کی طرف بڑھایا اور فرمایا:
’’وہ تیری مہمان نوازی تھی یہ فقیر کی دعوت ہے۔‘‘قبول کر لو۔ اس کے بعد آپ نے باغ بیچ کر رقم غرباء و مساکین میں تقسیم کی اور آگے کی تعلیم کی تکمیل کے لیے آباء وطن کو خیر آباد کہہ دیا:
علوم ظاہری:جائے پیدائش کو چھوڑ کر سمرقند و بخارا کا سفر شروع کیا اور یہیں تفسیر، فقہ، حدیث اور دوسرے علوم ظاہریہ میں۔ملکہ راسخہ حاصل کیا۔
علوم باطنی:علوم ظاہری کی تکمیل کے بعد مرشد کامل کی جستجو میں آپ نے بخارا سے حجاز کا رخت سفر باندھا۔ راستے میں جب نیشا پور (صوبہ خراسان، ایران) کے نواحی علاقے ’’ہارون ‘‘ سے گزر ہوا اور مرد قلندر قطب وقت حضرت سیدنا عثمان ہارونی چشتی علیہ رحمہ اللہ القوی کا شہرہ سناتو فوراً حاضرخدمت ہوئے اور ان کے دست حق پرست پر بیعت کر کے سلسلہ چشتیہ میں داخل ہو گئے اور ان کے یہاں ڈھائی سال قیام فرمایا۔ ان ایام میں مکمل باطنی علوم سے فیض یاب ہوگئے۔
معین الہند کا لقب:جب آپ کو مدینے شریف کی حاضری کا شرف ملا تو نہایت ادب و احترام کے ساتھ یوں سلام عرض کیا: ’’الصلوۃُ وَالسَّلَامُ عَلَیْکَ یَا سَیِّدَ الْمُرْسَلِیْن وَخَاتَمَ النَّبِییّن بعد سلام جواب آیا وَعَلَیْکُمُ السَّلامُ یَامعین الدین۔‘ اے معین الدین تو ہمارے دین کا معین (یعنی دین کا مددگار ہے، تجھے ہندوستان کی ولایت عطا کی، اجمیر جا، تیرے وجود سے بے دینی دور ہو گی اور اسلام رونق پذیر ہو گا۔
سفرہند:اس سفر کے دوران میں آپ کی ملاقات شیخ نجم الدین کبریٰ سے ہوئی جوکہ بہت پایہ کے بزرگ ہیں۔ ڈھائی مہینے تک فیض حاصل کرنے کہ بعد آپ رحمہ اللہ نے بغداد میں غوث اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ غالباً پانچ ماہ یہاں قیام فرمانے کے بعد تبریز تشریف لے گئے اور وہاں خواجہ ابو سعید تبریزی سے فیض حاصل کیا۔ ابو سعید تبریزی کو تصوف کی دنیا میں ہمہ گیر شہرت حاصل ہے۔ چند دن یہاں گزارنے کے بعد آپ اصفہان تشریف لے گئے۔ وہاں جلیل القدر بزرگ شیخ محمود اصفہانی کی محبت سے فیض یاب ہوئے۔یہاں پہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ یہیں سے قطب الدین بختیار کاکیؒ خواجہ غریب نوازؒ کے ساتھ ہوئے تھے جو بعد میں خلافت و اجازت و تاجدار ہند سے مشہور بین الناس ہوئے۔ جب آپ اصفہان سے روانہ ہوئے تو سبزوار خراسان خر قان، استر آباد بلخ اور غزنی وغیرہ سے ہوتے ہوئے ہند کے شہر اجمیر شریف (صوبہ راجستھان) پہنچے۔ اس پورے سفر میں آپ نے سیکڑوں اولیاء اللہ سے اکتساب فیض حاصل کی۔
حضرت خواجہ کی اجمیر میں
آپ کی آمد اجمیر مقدس میں کس سنہ میں ہوئی، مورخین حضرات کے درمیان کافی اختلاف ہے۔ ویسے زیادہ تر اس بات پر متفق ہیں کہ آپ ۵۸۷ھ / ۱۱۹۱ء کو اجمیر شہر پہنچے۔ جہاں پہلے ہی دن سے آپ نے اپنی مؤثر تبلیغ، حسن خلاق، اعلیٰ سیرت و کردار اور باطل شکن کرامتوں سے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیا۔ اہل اجمیر نے جب آپ کی روحانی عظمتوں کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تو جوق در جوق مسلمان ہونے لگے۔ اور یہ مسلّم امر ہے کہ بر صغیر میں دین اسلام کی روشنی پھیلانے میں خواجہ غریب نوازؒ کی جو خدمات ہیں، اس سے شاید ہی کوئی اہل علم انکار کرے، اس زمانے میں جبکہ آبادی بہت کم تھی، ایک لاکھ سے زائد افراد کو دخول اسلام فرمایا۔
مزار مقدس:آپ کا مزار مقدس اجمیر شریف میں ہے۔ وہاں ہزاروں لوگ ہمیشہ زیارت کو آتے ہیں۔جیسے ہی رجب المرجب کا چاند نظر آتا ہے، دنیا کے کونے کونے سے عقیدت مند اجمیر چل پڑتے ہیں۔ دعائیں مانگتے ہیں پوری ہوتی ہے اور کچھ مزار پر چلے بھی کاٹتے ہیں اور روحانی انعامات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔800 سال گزر گئے ہیں، یہ فیض جاری ہے اور قیامت تک جاری رہے گا۔ ان شاء اللہ!
رب قدیر ہمیں اولیاء اللہ کی تعلیمات کو عام کرنے اور ان کے اقوال پہ عمل کی توفیق بخشے، آمین!n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS