خورشید عالم داؤد قاسمی: درود وسلام کا حکم، اہمیت اور فضیلت

0

خورشید عالم داؤد قاسمی

جناب محمد رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – سارے جہانوں کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے۔ آپ – صلی اللہ علیہ وسلم – کی رحمت و نوازش کا مظاہرہ ہر خاص و عام پر ہوا۔ اللہ پاک کی ساری مخلوقات: انس، جن، حیوانات، نباتات اور جمادات سب آپ – صلی اللہ علیہ وسلم – کی رحمت سے مستفید ہوئیں۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے: ’ہم نے آپ کو سارے جہانوں کے لیے رحمت ہی رحمت بناکر بھیجا ہے۔‘ (الانبیاء : 107) آپ – صلی اللہ علیہ وسلم – امت کے سب سے بڑے محسن اور خیر خواہ ہیں۔ امت پر نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – کے بے شمار احسانات ہیں۔ امت پر آپؐ کے متعدد حقوق ہیں۔یہ آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کا حق ہے کہ آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کی نبوت ورسالت پر ایمان لایا جائے، آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کی اطاعت و فرماں برداری کی جائے، آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کی سنتوں اور عادتوں کا اتباع کیا جائے، آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کے حکم کی تعمیل کی جائے، سب سے بڑھ کرآپ– صلی اللہ علیہ وسلم – سے محبت کی جائے، آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کی تعظیم وتکریم کی جائے وغیرہ۔ آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ امت آپ– صلی اللہ علیہ وسلم – پر ’درود و سلام‘ کا نذرانہ پیش کرتی رہے۔’درود‘ فارسی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے متعدد معانی ہیں، جیسے:’صلوات، رحمت، تحسین وآفریں، شاباش، استغفار، تعریف، سلام، دعا اور تسبیح‘ وغیرہ۔ جب ’درود‘ اصطلاحی معنی میں استعمال کیا جاتا ہے؛ تو اس وقت اس لفظ سے مراد: ’وہ دعا اور سلام ہے جو حضور نبی کریم محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑھا جائے۔‘ (فیروز اللغات)
قرآن کریم میں درود شریف کا حکم
اللہ تعالی نے قرآن کریم کی سورئہ احزاب میں نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – پر درود شریف بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ اللہ پاک نے اس آیت میں سب سے پہلے درود کی نسبت خود اپنی طرف کی ہے،پھرفرشتوں کی طرف کی ہے۔ اس کے بعد، اللہ تعالی نے سارے مومنوں کو نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے۔ یہ بات واضح رہے کہ اللہ تعالی کے صلاۃ بھیجنے کا مطلب نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – پر رحمت نازل کرنا ہے۔ فرشتوں کے صلاۃ بھیجنے کا مطلب نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – کے لیے رحمت کی دعا کرنا ہے۔ آیت کریمہ کا ترجمہ یہ ہے: ’بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘ (الاحزاب: 56)
آیت بالا کی تفسیر میں، حضرت مفتی محمد شفیع (1897 – 1976ء) صاحب رقم طراز ہیں: ’اصل مقصود آیت کا مسلمانوں کو یہ حکم دینا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ وسلام بھیجا کریں، مگر اس کی تعبیر وبیان میں اس طرح فرمایا کہ پہلے حق تعالیٰ نے خود اپنا اور اپنے فرشتوں کا رسول للہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عمل صلاۃ کا ذکر فرمایا۔ اس کے بعد عام مومنین کو اس کا حکم دیا، جس میں آپ کے شرف اور عظمت کو اتنا بلند فرما دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں جس کام کا حکم مسلمانوں کو دیا جاتا ہے، وہ کام ایسا ہے کہ خود حق تعالیٰ اور اس کے فرشتے بھی وہ کام کرتے ہیں، تو عام مومنین جن پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات بے شمار ہیں، ان کو تو اس عمل کا بڑا اہتمام کرنا چاہیے۔ اور ایک فائدہ اس تعبیر میں یہ بھی ہے کہ اس سے درود و سلام بھیجنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی فضیلت یہ ثابت ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اس کام میں شریک فرمالیا، جو کام حق تعالیٰ خود بھی کرتے ہیں اور ان کے فرشتے بھی۔‘ (معارف القرآن: 7/221)
افضل درو د شریف
کتابوں میں مختلف الفاظ میں درود شریف پائے جاتے ہیں۔اس حوالے سے ہمیں یہ بات ملحوظ رکھنی ہے کہ ہر وہ درود جن میں صلاۃ وسلام کے الفاظ پائے جاتے ہیں، ان سے درود شریف کے پڑھنے کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی اور درود شریف پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ درودِ ابراہیمی دوسرے درودوں کی بہ نسبت افضل کلمات پر مشتمل ہے۔جناب نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – نے نمازوں کے لیے اسی درود ابراہیمی کا انتخاب فرمایا۔ درودِ ابراہیمی افضل درود شریف ہے۔
’’۔۔۔ درود شریف کے بہت سے مختلف صیغے منقول وماثور ہیں۔ صلاۃ وسلام کے حکم کی تعمیل ہر اس صیغہ سے ہوسکتی ہے، جس میں صلاۃ وسلام کے الفاظ ہوں۔ اور یہ بھی ضروری نہیں کہ وہ الفاظ آں حضرت – صلی اللہ علیہ وسلم– سے بعینہٖ منقول بھی ہوں، بلکہ جس عبارت سے بھی صلاۃ وسلام کے الفاظ ادا کیے جائیں، اس حکم کی تعمیل اور دردو شریف کا ثواب حاصل ہوجاتا ہے۔ مگر یہ ظاہر ہے کہ جو الفاظ خود آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول ہیں وہ زیادہ بابرکت اور زیادہ ثواب کے موجب ہیں؛اسی لیے صحابہ کرام نے الفاظ صلاۃآپ سے متعین کرانے کا سوال فرمایا تھا۔‘ (معارف القرآن: 7 / 223)
عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ فرماتے ہیں کہ میری کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے فرمایا: کیا میں تمھیں کچھ ہدیہ نہ دوں؟ (ایک بار) نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – ہمارے پاس تشریف لائے۔ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )! یہ تو ہمیں معلوم ہوگیا کہ آپ پر کن الفاظ میں ہم سلام بھیجیں۔ (لیکن یہ بتادیں کہ) ہم آپ پر درود کس طرح بھیجا کریں؟ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا کہ یوں کہا کرو: ’اللَّہُمَّ صَلِّ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا صَلَّیْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ، اللَّہُمَّ بَارِکْ عَلَی مُحَمَّدٍ، وَعَلَی آلِ مُحَمَّدٍ، کَمَا بَارَکْتَ عَلَی آلِ إِبْرَاہِیمَ، إِنَّکَ حَمِیدٌ مَجِیدٌ۔‘‘ (صحیح بخاری:6357)
درو د شریف کے فضائل
درود شریف کے فضائل کے حوالے سے چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں۔ ْرو د شریف پڑھنے والوں کے لیے مختلف حدیثوں میں مختلف بشارتیں اور خوش خبریاں آئیں ہیں۔ ذیل کی حدیث میں یہ ہے کہ جو شخص ایک بار درو د شریف پڑھے گا، اللہ تعالی اس پر 10 رحمتیں نازل فرمائیں گے۔ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انھوں نے رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – کو فرماتے ہوئے سنا: ’ جب آپ موذن کو (اذان پکارتے) سنیں، تو آپ بھی وہی کچھ کہیں جو موذن کہتا ہے۔ پھر مجھ پر درو د بھیجیں؛ کیوں کہ جو مجھ پر ایک بار درو د بھیجے گا؛ اللہ پاک اس پر 10 بار رحمتیں نازل فرمائیں گے۔ پھر میرے لیے وسیلے کا سوال کریں۔ وسیلہ جنت میں ایک درجہ ہے۔ یہ اللہ کے کسی بندے کے لیے ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں ہی وہ بندہ ہوں۔ چناں چہ جس نے میرے لیے وسیلے کی دعا کی؛ اس کے لیے میری سفارش واجب ہوگئی۔‘ (صحیح مسلم: 384)
جو جتنا زیادہ درو د پڑھے گا، قیامت کے دن وہ شخص نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – سے اتنا ہی زیادہ قریب ہوگا۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: ’قیامت کے دن مجھ سے قریب ترین وہ شخص ہوگا، جو مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود بھیجتا ہے۔‘ (سنن ترمذی: 484)
جمعہ کا دن ہفتہ کے باقی 6 دنوں کا سردار ہے۔ جمعہ کے دن کو اسلام میں ہفتہ کا افضل اور بہتر دن کہا گیا ہے۔ حدیث میں جمعہ کے دن زیادہ سے زیادہ درو د پڑھنے کی ہدایت آئی ہے۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: ’تمھارے دنوں میں سب سے بہتر جمعہ کا دن ہے؛ تو اس دن مجھ پر زیادہ سے زیادہ درود پڑھا کرو؛ کیوں کہ تمھارے درو د مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں۔‘ (سنن ابو داؤد: 1531)
اگر کوئی بندہ ایک بار درو د پڑھتا ہے؛ تو اللہ تعالی کی طرف سے اس کے لیے چار طرح کے انعامات ہیں۔ رسول اللہ –صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: ’میری امت میں سے جو شخص مجھ پر ایک بار دل سے اخلاص کے ساتھ درود شریف پڑھتا ہے؛ تو اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرماتے ہیں، اس وجہ سے اس کے دس درجات بلند فرماتے ہیں، اس وجہ سے اس کے لیے دس نیکیاں لکھتے ہیں اور اس کے دس (صغیرہ) گناہ معاف فرمادیتے ہیں۔‘ (السنن الکبریٰ للنسائی: 9809)
حضرت ابو ہریرہ – رضی اللہ عنہ – فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: ’میری قبر کو زیارت گاہ نہ بناؤ۔ مجھے پر درود بھیجا کرو؛ کیوں کہ تمھارا درود شریف مجھے پہنچتا، چاہے تم جہاں کہیں بھی ہو۔‘ (سنن ابو داؤد: 2042)
درود شریف نہ پڑھنے پر وعید
ایک حدیث میں ہے کہ اگر ایک قوم کسی مجلس میں بیٹھتی ہے اور نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– کا ذکر کیے بغیر اس مجلس سے اٹھ جاتی ہے؛ تو قیامت کے دن وہ قوم اس مجلس کے حوالے سے افسوس کرے گی، حسرت کا اظہار کرے گی اور وہ مجلس اس قوم کے لیے وبال بن جائے گی۔ حضرت ابو ہریرہ – رضی اللہ عنہ – فرماتے ہیں کہ نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– نے ارشاد فرمایا: ’کوئی قوم جو کسی ایسی مجلس میں بیٹھے، جس میں وہ اللہ کا ذکر نہ کرے اور اپنے نبی پر درود نہ بھیجے؛ تو یہ مجلس (قیامت کے دن) ان پر ایک وبال ہوگی۔ اگر اللہ چاہیں؛ تو اس قوم کو عذاب دیں یا چاہیں تو انھیں معاف کردیں۔‘ (سنن ترمذی: 3380)
آدمی کے بخیل ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس شخص کے پاس نبی اکرم –صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم– کا ذکر آئے اور وہ آپ –صلی اللہ علیہ وسلم– پر درود نہ پڑھے۔ حضرت حسین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے فرمایا: ’وہ شخص بخیل ہے، جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘ (سنن ترمذی: 3546)
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ارشاد فرمایا: ’اس شخص کی ناک خاک آلود ہو، جس کے سامنے میرا ذکر آئے اور وہ مجھ پر درود نہ بھیجے۔‘ (سنن ترمذی: 3545)
جب آدمی دعا کے لیے بیٹھے؛ تو سب سے پہلے اسے اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کرنی چاہیے۔ پھر اسے حضور اکرم –صلی اللہ علیہ وسلم– پر دردو وسلام کا نذرانہ پیش کرنا چاہیے۔ پھر اس شخص کو دعا کرنی چاہیے۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے ایک ایسے آدمی کو نماز میں دعا کرتے ہوئے سنا جس نے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – پر درود نہیں بھیجا۔ پھر رسول اللہ – صلی اللہ علیہ وسلم – نے فرمایا: ’اس شخص نے جلدی کی۔‘ پھر آپ نے اس شخص بلایا، پھر اس شخص سے – یا اس کے علاوہ کسی سے – فرمایا: ’جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے؛ تو اسے اپنے پروردگار کی حمد و ثنا سے شروع کرنا چاہیے، پھر اسے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم– پر درود بھیجنا چاہیے، پھر اس کے بعد، وہ جو چاہے اسے دعا کرنی چاہیے۔ (سنن ترمذی: 3477)
درود شریف کے حوالے سے چند مسائل
مسلمان پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ایک بار پیارے نبی – صلی اللہ علیہ وسلم – پر درود شریف پڑھے۔ اگر ایک مجلس میں جناب نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – کا ذکرکئی بار کیا جائے؛ تو کم سے کم ایک بار درود شریف پڑھنا واجب ہے اور ہر بار درود شریف پڑھنا افضل اور بہترہے۔(ردّالمختار: 1 / 516) نماز میں درود کا پڑھنا سنت موکدہ ہے۔ اگر آپ کچھ لکھ رہے ہیں اور نبی اکرم – صلی اللہ علیہ وسلم – کا ذکر آجائے؛ تو مختصر کے بجائے مکمل ’درود‘ جیسے: ’صلی اللہ علیہ وسلم‘ لکھنا چاہیے۔ n
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS