محمد حنیف خان: اقلیتوں کے بغیر حقیقی ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ملک

0

محمد حنیف خان

کسی بھی ملک کی ترقی میں اس کے ہر طبقے کا کردار ہوتا ہے،اگر ایک طبقہ ترقی کر رہا ہواور دوسرا طبقہ اس دوڑ میں پیچھے ہوتو طبقات کی سطح پر ترقی اور تنزلی دونوں دکھائی تو دیں گی ہی مجموعی سطح پر اس سے ملک کی ترقی تنزلی میں بدل جائے گی۔اس کی سب سے بہترین مثال شرح سماجی ترقیات( Social Progress Index)(ایس پی آئی)کی رپورٹ ہے۔جس کے مطابق ہندوستان 169 ممالک میں 110ویں مقام پر ہے۔ملک ترقی کررہا ہے، ہر طرف شور ہے کہ ہم سپر پاور بننے کے قریب ہیں،ہماری معیشت بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے لیکن زمینی سطح کچھ اور کہہ رہی ہے،اس کے مطابق یہاں رہنے بسنے والے عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں،ان کے پاس نہ مواقع ہیں اور نہ ہی امکانات۔ایسے میں وہ نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہورہے ہیں بلکہ نفسیاتی مریض بھی بنتے جا رہے ہیں کیونکہ جنہوں نے تعلیم حاصل کرلی، ان کے پاس مواقع نہیں اورجو تعلیم سے محروم رہے ان کی رسائی بنیادی حقوق تک ہی نہیں ہوسکی۔یہ دونوں صورتیں ملک کے کسی بھی کونے میں دیکھی جا سکتی ہیں۔
ہندوستان ایک ایسا ملک ہے جس میں نوجوانوں کی کثرت ہے۔ان نوجوانوں کو ملک کی ترقی میں شریک کرنے کے لیے اول ان کو تعلیم کی ضرورت ہے اور دوم تعلیم کے بعد انہیں مواقع بھی دیے جائیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کا بہتر استعمال کرسکیں۔جب تک ان دونوں سطحوں پر سنجیدگی سے کوششیں نہیں کی جائیں گی، اس وقت تک ہم ترقی کی مضبوط بنیاد نہیں رکھ سکتے ہیں۔کثیر جہتی ترقی کے لیے ان دونوں محاذوں پر کام ضروری ہے۔لیکن جس طرح سے تعلیمی سطح بلند ہونی چاہیے، اس طرح نہ تو تعلیمی سطح بلند ہے اور نہ ہی سماجی سطح۔
وزیراعظم کی اس مشاورتی کمیٹی نے پہلی بار ملک کے سبھی ریاستوں کے 707اضلاع کی رپورٹ جاری کی ہے، جس میں سبھی اضلاع کی تعلیمی صورت حال پیش کی گئی ہے۔اس رپورٹ میں پرائمری تعلیم اور ثانوی تعلیم کو الگ الگ زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے۔اترپردیش کے 75اضلاع میں صرف 20ہی اضلاع ایسے ہیں جہاں کے 50فیصد نوجوان اعلیٰ تعلیم تک پہنچ پاتے ہیں باقی کے اضلاع اس سے نیچے ہیں۔جس سے اعلیٰ تعلیم سے دوری کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اتر پردیش میں غازی پور کے نوجوان اعلیٰ تعلیم میں سب سے زیادہ آگے ہیں۔یہاں کے 75.77فیصد نوجوان انٹر کے بعد اعلیٰ تعلیم میں داخلہ لے رہے ہیںجبکہ بلرام پور سب سے پیچھے ہے جہاں کے 17.33فیصد نوجوان ہی اعلیٰ تعلیم تک رسائی حاصل کر پاتے ہیں۔ شاملی، شراوستی، بھدوہی، سنبھل، رام پور، ہاپوڑ، چندولی،بلند شہر اور سدھارتھ نگر کے 25فیصد نوجوان اعلیٰ تعلیم تک نہیں پہنچ پارہے ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ تعلیمی اور سماجی دونوں سطحوں پر مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہیں، یہ رپورٹ اتنی زیادہ خراب اس لیے آئی ہے کیونکہ جو اضلاع 25فیصد سے نیچے ہیں ان میں مسلمانوں کی ایک معتد بہ تعداد ہے،چونکہ وہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اس لیے اس پورے ضلع کا نتیجہ خراب ہوگیا،جس سے ریاست کا نتیجہ خراب ہوا اور اس کے نتیجے میں ملک کی شرح خواندگی بھی مجروح ہوگئی۔ ایسے میں ضرورت اس بات کی تھی کہ اس طبقے کی تعلیمی اور سماجی صورت حال پر سب سے زیادہ توجہ دی جاتی۔مگر ایسا نہیں ہو رہا ہے۔
وزیراعظم کی اس مشاورتی کمیٹی نے ریاست اور ضلع کی سطح پر معاشرے کا جائزہ لیا، جس کے بعد اپنی رپورٹ تیار کی ہے۔کمیٹی نے ریاست کی سطح پر 89اور ضلع کی سطح پر 49 معیارمقرر کیے تھے۔ان سبھی کو تین میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ اول انسان کی بنیادی ضروریات جس میں غذائیت،علاج و معالجہ، پانی، صاف صفائی، آشیانہ اور تحفظ وغیرہ شامل ہیں، دوم فلاح و بہبود کی بنیاد جس میں معلومات تک رسائی، مواصلات اور رابطہ عامہ سے ربط اور ماحولیات وغیرہ شامل ہیں۔ سوم امکانات جس میں بنیادی حقوق،فرد کی آزادی اور بہتر تعلیم تک رسائی وغیرہ شامل ہیں۔کمیٹی نے ابھی جو رپورٹ جاری کی ہے، اس میں تعلیم کو موضوع بنایا گیا ہے جبکہ دسمبر میںسماجی ترقیات پررپورٹ آئی تھی جس میں پانڈیچری ملک میں 65.99پوائنٹ کے ساتھ پہلے مقام پر تھا،لکشدیپ اور گوا بالترتیب 65.89اور 65.53کے ساتھ دوسرے اور تیسرے مقام پر تھے۔انسان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل میں گوا،پانڈیچری،لکشدیپ اور چنڈی گڑھ سر فہرست رہے جبکہ میزورم،ہماچل،گوا اور لکشدیپ جیسی ریاستیں انسانی فلاح کی بنیادیں فراہم کرنے میں آگے رہی ہیں،تمل ناڈو امکانات پیدا کرنے میں سرفہرست تھا۔اترپردیش جیسی بڑی ریاست 49.16پوائنٹ کے ساتھ31ویں مقام پر رہی جبکہ جھارکھنڈ 43.95پوائنٹ کے ساتھ سب سے نیچے رہا۔
ایس پی آئی کی مجموعی رپورٹ اور عالمی سطح پر اس کی رینکنگ سے اندازہ ہوتا ہے کہ بنیادی انسانی ضروریات سے ہم آج بھی بہت دور ہیں۔اس لیے جہاں سماجی ترقیات پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے،وہیں اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ تعلیمی محاذ پر بھی سنجیدگی سے کام کیا جائے کیونکہ جب اتر پردیش جیسی اہم ریاست اعلیٰ تعلیم میں اس قدر پسماندہ ہے تو دوسری ریاستوں کا کیا حال ہوگا، اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
مرکزی حکومت نے اپنے حالیہ بجٹ میںتعلیم کے لیے 8فیصد کا اضافہ کیا ہے۔تعلیم کا بجٹ پہلے 1.04لاکھ کروڑ تھا جو اس بار 1.12لاکھ کروڑ کردیا گیا ہے۔ یہ بہت معمولی اضافہ ہے۔ اس میں سے محکمہ اسکولی تعلیم کے لیے 68804کروڑ روپے جبکہ اعلیٰ تعلیم کے لیے 44094 کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں۔لیکن ایک توجہ طلب بات یہ ہے کہ اقلیتوں کے بجٹ میں 38فیصد کی تخفیف کردی گئی ہے۔اس سال اقلیتوں (مسلمان، سکھ، عیسائی، پارسی اور جین) کے لیے 3097کروڑ روپے مختص کیے گئے ہیں جبکہ گزشتہ برس یہی رقم 5020.50کروڑ روپے تھی۔اس ملک میں اقلیتوں کی ایک معتدبہ تعداد ہے۔ مردم شماری 2011 کے مطابق ہر پانچ میں سے ایک شخص کا تعلق اقلیتی طبقے سے ہے۔ معاشرے کا وہ طبقہ جو سب سے زیادہ پسماندہ ہے وہ کل آبادی میںدستاویزی سطح پر 14.23فیصد ہے جبکہ حقیقی صورت حال20 فیصد کی ہے۔جن کی معاشی،سیاسی اور تعلیمی سطح کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ایک طرف تو بجٹ میں تخفیف ہوئی اور دوسری جانب اعلیٰ تعلیم کے لیے ملنے والی مولانا آزاد اسکالر شپ اسکیم بھی بغیر کسی وجہ کے بند کر دی گئی ہے۔ایسے میں اقلیتیں خصوصاً مسلمان تعلیمی اور سماجی سطح پر کیسے ترقی کر سکتے ہیں؟
ایس پی آئی کی رپورٹ میں مسلمان بھی شامل کیے گئے ہیں،ایسے میں اگر کسی ایک طبقے کی وجہ سے ملک کی صورت حال خراب ہو رہی ہو،اس کا بنیادی ڈھانچہ چرمرا رہا ہویا اس کی مجموعی ترقی کی شرح میں وہ طبقہ رکاوٹ ہو تو اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ اس طبقے کو ترقی یافتہ طبقے تک پہنچانے کے لیے اس پر زیادہ توجہ دی جاتی۔ اس کے لیے بجٹ میں خصوصی الاٹمنٹ ہوتا، اسکیمیں اور منصوبے بنائے جاتے تاکہ وہ طبقہ جلد سے جلد سماجی اور تعلیمی سطح پر ترقی کرکے آگے بڑھے اور پھر شانے سے شانہ ملا کر ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرے۔مگر موجودہ صورت حال کافی مایوس کن ہے کہ جو طبقہ سب سے زیادہ پسماندہ ہے اسی طبقے کے لیے رقم کے الاٹمنٹ میں تخفیف کردی جائے اور وہ اسکیم بند کردی جائے جس کی وجہ سے اس طبقے کی ایک معتد بہ تعداد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی اہل ہو رہی ہو تو بھلا وہ طبقہ کیسے ترقی کرسکتا ہے؟اس لیے اگر ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنا ہے تو اس کے لیے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو سب سے پہلے تعلیمی اورسماجی اعتبار سے مضبوط بناکر انہیں مواقع فراہم کرنا ہوگاتبھی وہ معاشی سطح پر ملک کی ترقی میں مکمل کر دار ادا کرسکیں گے۔
[email protected]

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS