پروفیسر اختر الواسع: پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

0

Prof. Akhtarul Wasey

پروفیسر اخترالواسع

کوئی دو ہفتے ہوگئے، پہلے سوئیڈن میںاور پھر ہالینڈ (نیدرلینڈ) میں، شرپسندوں کے ایک گروہ نے قرآن کریم کی اہانت کی۔ سوئیڈن میںپولیس کی نگرانی اور تحفظ میںاللہ تعالیٰ کی آخری کتاب جو تمام انسانوںکے لیے ہدایت ہے، نذر آتش کی گئی۔ اسی کی دیکھا دیکھی یا حوصلہ پاکر ڈنمارک میں بھی ایسی مضموم حرکت کا ارتکاب کیا گیا جب قرآن مجید کے صفحات کو پارہ پارہ کیا گیا۔ اس کے بعد ہیگ(عالمی عدالت کا مرکز) میں دائیں بازو کے انتہا پسندوں نے قرآن کریم کو اس وعدے کے باوجود کہ اسے جلایا نہیں جائے گا، اسے نذر آتش کرنے کی کوشش کی۔ ایک ایسے وقت میںجب دنیا ایک عالمی گاؤں میں تبدیل ہوچکی ہے، یوروپ کے لوگ اپنے آپ کو مہذب بتاتے ہوئے ذرا بھی نہیںتھکتے ہیں، پھر وہاں ایک مخصوص مذہب سے جڑی ہوئی ایک مخصوص مذہبی کتاب کے ساتھ یہ سب کچھ کیوںہو رہا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔
قرآن مجید ہر مسلمان کے عقیدے کے مطابق اسی رب العالمین کا نازل کردہ آخری صحیفہ ہے جس نے توریت، زبور اور انجیل جیسی مقدس کتابوں کو وحی الٰہی کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی کے لیے مختلف زمانوں میں، مختلف پیغمبروں کے ذریعے ہم تک پہنچایا۔ حضرت آدمؑ سے نبی اکرم محمد مصطفیؐ تک اللہ رب العزت نے جو کتب سماوی اور صحیفے بھیجے، ان سب کا نچوڑ یا خلاصہ قرآن حکیم کی صورت میں آج ہمارے پاس موجود ہے جو حضور محمدمصطفیؐ پر اللہ تعالیٰ نے جبرئیل امیں ؑ اور وحیِ الٰہی کے ذریعے نازل کی۔ جو صرف مسلمانوں کے لیے نہیں بلکہ تمام عالم انسانیت کے لیے ہدایت والی کتاب ہے۔ جیسا کہ خود اس کے نازل کرنے والے رب العالمین نے کہا ہے کہ بلاشبہ یہ کھلی ہوئی کتاب ہے ان لوگوں کی ہدایت کے لیے جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور اللہ سے ڈرنے والوں کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اَن دیکھے(اپنے پیدا کرنے والے اور پالنے والے رب) پر ایمان رکھتے ہیں، نماز (اپنے رب کی عبادت کرتے ہیں) قائم کرتے ہیں اور جو کچھ انہیں ان کے رب نے دیا ہے اس میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں۔
قرآن حکیم کا یہ اعجاز ہے کہ اس کے نزول سے آج تک اس میں کوئی تحریف نہیں کی جا سکی۔ دوسرے وہ دنیا میں روزانہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب ہے۔ دنیا میں اس کے حافظوں کی جتنی بڑی تعداد ہے، اس کا عشر عشیر بھی کسی دوسری کتاب کے حصے میں نہیں آیا۔ اس کتاب کے پڑھنے والوں کے ساتھ ہی اس کتاب کے سننے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اسلام میں کیوں کہ جانداروں کی تصویر کشی کی عام طور پر اجازت نہیں تھی، اس لیے قرآن کریم کی آیات کو خطاطی کے مختلف نمونوں سے اس حسن و لطافت کے ساتھ عمارتوں اور دیگر چیزوں پر آویزاں اور مزین کیا گیا کہ قرآن کریم کی خطاطی جمالیات کے باب میں خود مستقل ایک صنف بن گئی۔
قرآن کریم کا آغاز سورۂ فاتحہ سے ہوتا ہے اور سورۂ فاتحہ میں انسانی مدعا یا ماحصل صرف اتنا ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کی تعریف و توصیف بیان کرنے کے بعد بندہ اپنے رب کے حضور یہ عرضداشت پیش کرتا ہے کہ مجھے صراط مستقیم (سیدھا راستہ) پر چلنے کی توفیق عطا فرما اور صراطِ مستقیم بھی وہ جس پر چلنے والے تیرے انعام کے مستحق قرار پائے نہ کہ وہ جو کہ تیرے غیض وغضب کا شکار ہوئے گمراہوں میں جن کا شمار ہوا۔ پورا قرآن کریم اسی مختصر سی گزارش کا جواب ہے۔ آدمؑ، نوحؑ، یونسؑ و ادریسؑ، الیاسؑ و شعیبؑ، ابراہیمؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحق ؑ، یعقوبؑ و یوسفؑ، موسیٰؑ و ہارونؑ، عیسیٰؑ و یحییٰ ؑ اور حضور محمد مصطفیؐ صراط مستقیم پر چلنے والے مثالی راہرو ہیں اور ابلیس و قابیل، شداد و قارون، نمرود و فرعون، ابوجہل و ابولہب باطل اور گمراہی کے وہ نمونے ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی پھٹکار برسی اور جن کا شمار گمراہوں میں ہوا۔پھر قرآن کریم سے عداوت کی کوئی یہ نئی روایت نہیں ہے بلکہ بقولِ اقبالؔ:
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرارِ بو لہبی
قرآن کریم ہی وہ چراغِ مصطفوی ہے جس کے بارے میں اوپر کہا گیا ہے کہ کسی ایک مخصوص انسانی گروہ کے لیے نازل نہیں ہوا بلکہ وہ وحدت الٰہ ، وحدت آدم اور وحدتِ کردار کا ترجمان ہے اور وہ عام طور پر یا ایھا الناس کہہ کر زیادہ مخاطب کرتا ہے۔ وہ ایک ایسی کتاب ہدایت ہے جو صرف دعاؤں کا مجموعہ نہیں، بلکہ جیسا کہ اوپر قرآن کریم کے حوالے ہی سے بتایا گیا کہ وہ نفاق کی نہیں انفاق کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ دین میں کسی زور زبردستی کا روادار نہیں۔ وہ تمام انسانوں کو فکری آزادی عطا کرتے ہوئے اپنے ذہن و ضمیر کے فیصلے کے مطابق مذہبی معتقدات کو اپنانے کی آزادی دیتا ہے اور ہر انسان دوسرے انسان سے یہ کہتے ہوئے کہ تمہارا دین تمہارے لیے اور میرا دین میرے لیے ہے، اپنا اپنا مذہبی راستہ اپنا سکتا ہے۔ قرآن کریم نے عدل و انصاف کو ایسی اور اتنی اہمیت دی ہے کہ وہ اپنے پر ایمان لانے والوں کو یہ صاف طور پر ہدایت دیتا ہے کہ کسی کی دشمنی بھی تمہارے انصاف کے راستے میں حائل نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں ایک بات اور پیش نظر رہنی چاہیے کہ قرآنِ کریم وہ کتابِ مقدس ہے جو اپنے ماننے والوں کو صرف اپنا پابند نہیں بناتی یا جن کے ذریعے یہ کتاب انسانوں کو ملی، حضرت پیغمبر اسلامؐ تک اپنے عقیدے کو محدود نہیں کرتا بلکہ جیسے ایمان مفصل میں بیان کیا گیا ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو اس کا پابند بناتا ہے کہ وہ اعلان کریں کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر۔ اب ان کتابوں اور رسولوں کے ناموں سے ہم پوری طرح واقف ہوں یا نہ ہوں، ان پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔ یعنی قرآن کریم اپنے ماننے والوں کو دوسروں کی تکذیب نہیں سکھاتا بلکہ ان کی بھی تصدیق کراتا ہے۔ پھر سمجھ میں نہیں آتا کہ ایسی کتابِ حکمت و موعظت کے لوگ کس طرح مخالف ہو سکتے ہیں؟
ابوجہل ہوں یا ابولہب، مَسیلمہ کذّاب، اسود عَنسی یا پھر دنیا کے بعض اشرار پسند نام نہاد دانشور سب یہ سدا سے کرتے چلے آئے ہیں لیکن قرآن کریم کی صداقت اور دوامیت اپنی جگہ جوں کی توں محفوظ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم خاموش ہوکر آنکھیں بند کرکے اسلاموفوبیا کے تحت دینِ اسلام، پیغمبرِ اسلامؐ اور قرآن حکیم کی اہانت ہونے دیں۔ خدا کا شکر ہے کہ اسلامی دنیا میں سوئیڈن، ہالینڈ اور اس کے بعد ڈنمارک میں قرآن کریم کی اہانت کا جیسا ردعمل ہونا چاہیے تھا، ویسا ہی ہوا اور خاص طور سے جامعہ ازہر سے جو احتجاج کی آواز بلند ہوئی وہ خاصی پائیدار ہے۔اسی طرح ترکیہ کے صدر رجب طیب اردگان نے جس طرح سوئیڈن کو یوروپی یونین کا ممبر نہ بننے دینے کے عزم کا اظہار کیا ہے، وہ بھی خاصا امید افزا ہے۔ لیکن ابھی کچھ اس سے زیادہ کی ضرورت ہے اور اگرچہ سوئیڈن اور ہالینڈ کی سرکاروں نے اس طرح کے شرپسند واقعات سے اپنا پلّہ جھاڑ لیا ہے لیکن جب تک وہاں کی حکومتیں اپنے یہاں کی اس طرح کی شرانگیز قوتوں کا مقابلہ نہیں کرتیں، ان کے خلاف سخت کارروائی نہیں کرتیں، تمام اسلامی دنیا کے ملکوں کو سوئیڈن اور ہالینڈ سے اپنے سفارتی تعلقات کو وقتی طور پر معطل کر دینا چاہیے اور ایسا صرف مسلم ملکوں ہی کو نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہندوستان جیسے ملکوں کو بھی آگے آنا چاہیے اور اس طرح کے شرمناک افعال کی مذمت کرنی چاہیے تاکہ دنیا میں کہیں کسی مذہبی شخصیت، مذہبی صحیفے اور مذہبی عقیدے کی کوئی توہین نہ کرسکے اور ہندوستان میں اس سلسلے میں نوین جندل اور نوپور شرما کی پیغمبر اسلامؐ کے خلاف ہرزہ سرائی کو لے کر ایکشن بھی لیا جاچکا ہے۔ اب ہندوستان کو سوئیڈن، ہالینڈ اور ڈنمارک میں بھی قرآن کریم کی توہین کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
(مضمون نگار جامعہ ملیہ اسلامیہ کے
پروفیسر ایمریٹس ]اسلامک اسٹڈیز[ ہیں۔)
[email protected]

 

 

 

 

 

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS
Previous articleہے عجب کیا جو زمانہ ہے ستم زاروں میں…
Next articleمحمد حنیف خان: اقلیتوں کے بغیر حقیقی ترقی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ملک
Prof. Akhtarul Wasey
Akhtarul Wasey (born September 1, 1951) is the president of Maulana Azad University, Jodhpur, India, and a former professor of Islamic Studies. He taught at Jamia Millia Islamia (Central University) in New Delhi, where he remains professor emeritus in the Department of Islamic Studies. Early life and education: Wasey was born on September 1, 1951, in Aligarh, Uttar Pradesh to Hairat bin Wahid and Shahida Hairat. He is the oldest of six children. Wasey attended Primary School No. 16, the City High School of Aligarh Muslim University, and Aligarh Muslim University where he earned a Bachelor of Arts (Hons.) in Islamic studies in 1971, a Bachelor of Theology in 1975, a Master of Theology in 1976, and an Master of Arts in Islamic studies in 1977. He also completed a short-term course in the Turkish language from Istanbul University in 1983. Career: On August 1, 1980 he joined Jamia Millia Islamia, Delhi as lecturer and worked there till 31 August 2016.Wasey was a lecturer, reader and professor at Jamia Milia Islamia University in New Delhi from 1980-2016, serving as the director of Zakir Husain Institute of Islamic Studies and later becoming head of the Department of Islamic Studies and Dean of the Faculty of Humanities and Languages. He is currently the president of Maulana Azad University in Jodhpur and remains a Professor Emeritus in the Department of Islamic Studies at Jamia Millia Islamia. In March 2014, Wasey was appointed by Indian President Shri Pranab Mukherjee to a three-year term as Commissioner for Linguistic Minorities in India, and became the first Urdu-speaking commissioner since 1957. Wasey is the editor of four Islamic journals: Islam Aur Asr-e-Jadeed; Islam and the Modern Age; Risala Jamia; and Islam Aur Adhunik Yug. Awards and honors: 1985 Award from Urdu Academy, Delhi and UP Urdu Academy on "Sir Syed Ki Taleemi Tehreek" 1996 Maulana Mohammad Ali Jauhar Award 2008 Fulbright Fellowship 2013 Padma Shri award from President Pranab Mukherjee of India 2014 Makhdoom Quli Medal from the President of Turkmenistan 2014 Daktur-e-Adab from Jamia Urdu, Aligarh